حسن بے حد نکھر گیا ہے کیا
عشق اس کو نیا ہوا ہے کیا
تحفۂ ظلم کم دیا ہے کیا
اس لئے موت سے گلہ ہے کیا
سامنے اجنبی بنا ہے وہ
اس کا احسا س مر چکا ہے کیا
مان کر بات پھر مکر نا کیوں
میری چاہت کی یہ سزا ہے کیا
وہ تعلق کہاں سے پھر ہوگا
آئنہ ٹوٹ کے جڑا ہے کیا
کیوں اسے پوچھتا نہیں کوئی
حاکم وقت اب خفا ہے کیا
چین سے آج دکھ رہا ہے وہ
سلسلہ ظلم کا رکا ہے کیا
ہر طرف گمرہی کا دورہ ہے
جلد دنیا کا اب فنا ہے کیا
عامر ظفر ایوبی