گھر

بہت گہرا تعلق ہے گھروں سےزندگی کا
سمجھ لو رابطہ رب سےجو ہوتا ہے ولی کا

سکون دل نہیں ملتا ہے بے گھر آدمی کو
ملامت کر کے رہ جا تا ہے اپنی بے بسی کو

اسے دنیا کی رنگینی بھلی لگتی نہیں ہے
سروں پر اس کے بچوں کے کوئی چھت بھی نہیں ہے

سبھی کا خواب ہوتا ہے کہ اچھا اک مکاں ہو
سکوں سے زندگی گزرے خوشی کا بھی سماں ہو

تعلق حا لت انساں سے گھر کا کم نہیں ہے
کوئی اچھا کوئی اعلیٰ کوئی تو کم حسیں ہے

کسی گھر سے مکینوں کی بری حالت عیاں ہے
کوئی اجڑے چمن کی بلبلوں کی داستاں ہے

گھروں کو چھوڑ کر جو دور جاتے ہیں سفر پر
تصور میں وہ رہتے ہیں ہمیشہ اپنے گھرپر

گھر آنگن یاد کر کےخوب روتے ہیں مچل کر
بڑی مشکل سے سوتے ہیں خیالوں سے نکل کر

مکیں اپنے لہو سے گھر بناتے ہیں خوشی سے
مگر ظالم گراتا ہے مکانوں کو بدی سے

عامر ظفر ایوبی

اشتراک کریں