افسانہ اور اس کے اجزائے ترکیبی

افسانے کی کوئی ایسی جامع تعریف مشکل ہے جو مکمل طور پر اس فن کا احاطہ کرلے۔ کہا جاسکتا ہے کہ ہراچھا افسانہ اپنے ساتھ ایک نئی تعریف بھی لے کر آتا ہے لیکن پھر بھی اگر ہم افسانے کی تفہیم اور تعریف کی کوشش کر میں تو کہہ سکتے ہیں کہ:

افسانہ وہ جدید نثری صنف ادب ہے، جس میں کسی ایک واقعے، کسی ایک کردار، کسی ایک حادثے، کسی ایک جذبے، زندگی کے کسی ایک پہلوکو پیش کیا جائے اس میں وحدت تاثر ہو، ایجاز اور اختصار ہو، تخیل کی آمیزش ہو اور افسانہ نگار کا ایک نقطۂ نظر بھی ہو۔

اس کو اس مثال سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر’’ ناول‘‘ کو ایک سیب تصور کر لیا جائے تو اس کی ایک "قاش” کوافسانہ کہا جا سکتا ہے۔ گو یا اگر کسی کہانی میں کسی انسان کی زندگی کے تمام تر نشیب و فراز کو پیش کیا جاۓ تو وہ ’ناول‘‘ کہلائے گا، یعنی پورا سیب، لیکن اگر اس انسان کی زندگی کے کسی ایک پہلو کو منظر عام پر لایا جائے تو وہ ’افسانہ‘‘ کہلائے گا ، گو یا اس’’سیب‘‘ کی ایک ’’ قاش‘‘۔

افسانے کے اجزائے ترکیبی

ایک اچھے افسانے کے اجزائے ترکیبی ہیں:
پلاٹ، کردار، زمان و مکان، وحدت تاثر، موضوع اور اسلوب۔

پلاٹ

افسانے میں پلاٹ کی حیثیت جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔ تمام تر کہانی اس پر منحصر کرتی ہے ۔ وقار عظیم نے لکھا ہے:

پلاٹ واقعات یا تاثرات کو ایک فنی ترتیب دیتا ہے ۔ اسی فنی ترتیب میں قصہ کی ابتدا اور انجام کے درمیان ایک منطقی رابط کا خیال رکھا جا تا ہے تا کہ قصہ میں’’وحدت تاثر‘‘ قائم رہے۔

پلاٹ کی مختلف  قسمیں ہوسکتی ہیں:

  • سادہ پلاٹ
  • پیچیدہ پلاٹ
  • غیرمنظم پلاٹ
  • ضمنی پلاٹ وغیرہ۔

سادہ پلاٹ میں واقعات کے آغاز ، وسط اور انجام میں منطقی ربط ہوتا ہے ، واقعات ایک تسلسل سے بیان کیے جاتے ہیں اور ابتدا سے اختام تک بتدریج چڑھتے اور اترتے چلے جاتے ہیں ۔ درمیان میں پستی یا بلندی آتی ہے۔ ایسی کہانیاں بہ آسانی قاری کی سمجھ میں آجاتی ہیں۔

بیشتر افسانوں کے پلاٹ پیچیدہ ہوتے ہیں ۔ ان میں واقعات باہم نہایت پیچیدگی کے ساتھ مربوط ہوتے ہیں ۔ یعنی کسی افسانے کی ابتدائی میں مہم انجام پیش کر دیا جا تا ہے۔ افسانے کے باقی حصہ میں اس راز کو افشا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کوشش میں پلاٹ کو الجھا دیا جاتا ہے اور آخر میں جاکر یہ راز افشا ہوتا ہے ۔ قاری کا تجسس آخر وقت تک قائم رہتا ہے۔ایسے افسانے دلچسپ اور حیرت انگیز ہوتے ہیں ۔

بعض افسانوں کے پلاٹ غیر منظم ہوتے ہیں ۔ ایسے پلاٹ میں کئی واقعات مجموعی طور پر پیش کیے جاتے ہیں ، جن میں ایک مرکزی شخص محور کا کام دیتا ہے۔ ایسے افسانوں میں اکثر قاری کو واقعات کا بیان بے ترتیب نظر آتا ہے لیکن یہ ایک فنی بے ترتیبی ہوتی ہے۔ فنکار بہت غور وفکر اور محنت کے بعد واقعات میں یہ بے ساختگی پیدا کر پاتا ہے جو ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ کچھ پلاٹ ایسے ہوتے ہیں جن کے واقعات منفرد ہوتے ہوئے بھی قصے کومنتہا تک پہنچانے میں مدد دیتے ہیں۔

اکثر طویل کہانیوں میں مرکزی پلاٹ کے علاوہ ضمنی پلاٹ بھی ہوتے ہیں۔ کچھ افسانے سادہ اور پیچیدہ دونوں پلاٹوں پریتم ہوتے ہیں۔

پلاٹ کے اجزاء

پلاٹ کے اقسام کے تذکرے کے بعد ضروری ہے کہ ایک نظر اس کے اجزاء پر ڈالی جائے۔

افسانہ کا پہلا جز ہم افسانے کے عنوان کو قرار دے سکتے ہیں، اچھے عنوان کی پہلی شرط افسانے کے موضوع سے اس کی مناسبت ہے۔عنوان کی دوسری خصوصیت اس کا مختصر ہونا ہے۔ نیا پن اس کی تیسری شرط ہے ۔اس طرح عنوان کو کہانی کے موضوع سے متعلق مختصر اور نیا ہونا چاہیے ۔نئے پن کی وجہ سے عنوان قاری کوفورا اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے اور افسانے میں اس کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ چارلس بیرٹ (Charles Barret) اپنی تصنیف Short story writing میں عنوان کی مندرجہ بالاخصوصیات کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ ’’اچاعنوان مناسب، واضح ، دلکش، نیا اور مختصر ہوتا ہے۔‘‘ ( بحوالہ پریم چند کہانی کا رہنما جعفر رضایی44)

عنوان کے بعد پلاٹ کا اگلا جز اس کا آغاز ہے۔افسانے کی ابتدائی چند سطر میں ہی اگر قاری کو متوجہ کر لیتی ہیں اور آنے والے واقعات میں اس کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے تو اسے اچھے پلاٹ کی خوبی کہیں گے ۔افسانے میں آئندہ پیش آنے والے واقعات میں قاری کی دلچسپی مختلف طریقوں سے پیدا کی جاسکتی ہے۔ کبھی کسی بہت اہم واقعے کو ابتدائی سطروں میں بیان کر کے بھی کسی خاص منظر کے ذریعے اور بھی کرداروں کے مکالموں کے ذریعے۔افسانے کے انجام کو بھی کبھی کبھی آغاز میں ہی بیان کر دیا جا تا ہے یا اس کی نشاندھی کر دی جاتی ہے۔ کبھی ابتدا کی سطروں میں انجام کی طرف ایک ہلکا سا اشارہ کر دیا جا تا ہے۔ یعنی انجام کی نوعیت قطعا قیاس ہوتی ہے۔ اور قاری میں سمجھتے ہوئے کہ افسانے کا یہ انجام ہوسکتا ہے، افسانے کو سطر در سطر پڑھتا چلا جا تا ہے کیونکہ اسے یہ جاننے میں بہر حال دلچسپی ہوتی ہے کہ جس انجام کا وہ قیاس کر رہا ہے وہ آخر کس طرح ممکن ہوا۔

پلاٹ کا تیسرا جز اس کا وسط ہے۔ وسط میں افسانے کا موضوع پوری طرح واضح اور اس کا مقصد مکمل طور پر سامنے آجاتا ہے۔ وسط میں ہی افسانہ ایک ایسا موڑ لیتا ہے کہ کسی مخصوص انجام کا جواز پیدا ہو جا تا ہے۔ پلاٹ کا آخری حصہ خاتمہ ہے۔ اس کی اہم ترین شرط یہ ہے کہ اسے ابتدا یا آغاز سے مماثل ہونا چاہیے ۔ عام طور پر وسط سے ہی نقطہ عروج کا آغاز ہوجا تا ہے اور انجام اس کی تکمیل
کر دیتا ہے۔

کردار نگاری

پلاٹ کی ہی طرح افسانے میں کردار نگاری کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ گو بغیر کر دار کے بھی افسانے لکھے گئے ہیں مگر ایسے افسانے جن میں کسی کردار کو موضوع یا محور بنایا گیا ہو، تا دیر قاری کے ذہن میں محفوظ رہتے ہیں جیسے کرشن چندر کا’’ کالو بھنگی‘‘ پریم چند کا "کفن‘‘ منٹو کا ’’ٹو بہ ٹیک سنگھ” وغیرہ ۔ کردار جتنا فعال اور جاندار ہوگا ،افسانہ اس قدرتوانا ہوگا۔ افسانے میں چونکہ مختصر وقت اور الفاظ میں کردار کے تاثر کو پوری طرح ابھارنا مقصود ہوتا ہے اس لیے یہاں افسانہ نگارکو زیادہ احتیاط اور فنی باریکیوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ وقار عظیم کے مطابق:

’’افسانہ کے پلاٹ ، اسکی ترتیب اور اس کی تحریک کو جتنا ضروری بتایا گیا ہے اس سے کہیں زیادہ ضروری خود افسانوی کردار ہیں (یعنی افسانے کے کردار ) اس لیے افسانوی فن کو تحریک میں لانے کے لیے ہمیں کرداروں کی ضرورت ہوتی ہے ‘‘ (فن افسانہ نگاری ص 148)

کر دار دو طرح کے ہوتے ہیں جامد ۔ یعنی ٹھہرے ہوئے کر دار جو شروع سے آخر تک یکساں رہتے ہیں یہ بہت فطرت انسانی کے خلاف ہے۔ اچھااور سچا کر دار وہی ہوتا ہے جو حالات کے ساتھ تبدیل ہو تا رہے اس کا ارتقاء جاری رہے۔ اسی طرح یہ بھی نہ ہو کے کردار صرف خوبیوں اور خرابیوں کا مجموعہ ہو اسی کردار کو کمیاب کہا جاسکتا ہے جو دنیا کے حقیقی اور اصلی انسانوں جیسا ہو۔

غرض کر دار نگاری افسانے کی جان ہے افسانہ نگار جتنا کامیاب کردار نگار ہوگا، نفسیات انسانی کا جتنا ماہر ہو گا، اتنا ہی اچھا افسانہ پیش کر سکے گا۔

افسانے میں کردار نگاری کا کیا طریقہ ہوسکتا ہے اور یہ کن ذریعوں سے ممکن ہے؟ یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے۔ای۔ایم البرائٹ (E.M. Albright)ا پنی تصنیف The Short Story میں کردار نگاری کے دوطریقوں پر روشنی ڈالتا ہے۔

1. تجزیاتی یا بالواسطہ (Analytical or Indirect)
2. ڈرامائی یا بلا واسطہ (Dramatic or Direct)

تجزیاتی کردار نگاری عام طور پر تین طریقوں سے ممکن ہے ۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ کہانی کا اسلوب بیانیہ ہو اور مصنف بحیثیت راوی کردار کی پوری شخصیت کو قاری پر منکشف کرنے کے لیے سادہ بیانیہ انداز یا علامتی انداز اختیار کر لے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مصنف افسانے کے مرکزی کردار کے ذریعے کہانی بیان کرے اور مرکزی کردار وہ خود ہو۔ جیسے بیدی کے افسانے "گرم کوٹ” کا مرکزی کردار جو ایک کلرک ہے اپنی کہانی خود بیان کرتا ہے ۔

ڈرامائی کردار نگاری کا تعلق کرداروں کے مکالمے اور عمل سے ہے۔ وہ افسانے جن میں واقعات تیزی سے عمل میں آتے ہیں اور مکالموں کا عنصر زیادہ ہوتا ہے ڈرامائی کردار نگاری کے وصف سے متصف ہوتے ہیں ۔

زمان و مکان

افسانے میں زمان ومکان کی بھی اہمیت ہے کیونکہ اگر افسانہ نگار کے ذہن میں واقعہ یا کردار کے واقعات ہونے کی جگہ کا صحیح علم نہ ہوتو افسانے میں تاثر کی کمی ہو جائے گی۔ ایسا نہ ہوکہ کردار کاتعلق شہر سے ہو یا کوئی واقعہ شہر سے متعلق ہو، اور بیان میں گاؤں کی بات آرہی ہو، یا واقعہ کسی جگمگاتی سڑک کا ہواور پڑھنے والے پر کسی تار یک اندھیری گلی کا تاثر قائم ہو۔ چنانچہ زمان و مکان کی پیش کش میں بھی افسانہ نگار کو کمال احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے ۔ زمان و مکان میں لباس ، رہائش ، طعام و قیام منظر ، پس منظر . آس پاس کا ماحول سبھی اس میں شامل ہیں ۔ کہا جاسکتا ہے کہ زمان و مکان کے بغیر واقعہ قائم نہیں ہوسکتا، حالات اور وقت کے بطن سے ہی کوئی وا وجود میں آتا ہے۔ اس میں افسانہ نگار کا مشاہدہ اس کی کافی مد کرتا ہے ۔ مثلا غلام عباس کا افسانہ’’ آ نندی‘‘ زمان و مکان کی بہترین مثال ہے اس میں دراصل افسانہ نگار نے’’ زمان ومکان‘‘ کو ہی کردار کی شکل میں استعمال کیا ہے۔

وحدت تاثر

وحدت تاثر اردوافسانہ کا لازمی جز بھی ہے اور ناگزیر شناخت بھی ۔ یعنی یہی ایک وصف ایسا ہے جس کی بنیاد پر افسانے کو ناول سے الگ کیا جاسکتا ہے ورنہ دوسرے لوازمات تو ناول میں بھی مل جاتے ہیں ۔

افسانہ نگار وحدت تاثر کوقائم رکھنے کے لیے کردار ، واقعہ یا بیان تمام صورتوں سے کام لے سکتا ہے ۔ اس کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ بات جو وہ کہنا چاہتا ہے پورے تاثر کے ساتھ افسانے میں نظر آئے اور قاری اس کو شدت سے محسوس کرے۔افسانے میں پیش کیا جانے والا تاثر جس قدر توانا اور مضبوط ہوگا ، افسانہ اسی قدر کامیاب کہا جائے گا۔

پروفیسر احتشام حسین افسانے میں وحدت زمان و مکان اور وحدت تاثر کی پابندی کوضروری خیال کرتے ہیں ۔

پروفیسر وقار عظیم کے مطابق وحدت تاثر کو برقراررکھنے کے لیے لازم ہے کہ افسانہ ایک ہی نشست میں پڑھا جائے۔ چونکہ افسانے میں زندگی کا کوئی ایک جلوہ کردار کا کوئی ایک پہلو اور حالات و واقعات کے چند مناظر ہی دکھائے جاسکتے ہیں اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس کا تاثر قاری پر گہرا ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ جب پلاٹ کی تنظیم اعلی نوعیت کی ہو اور افسانہ نگار کا قوی مشاہدہ اور افسانے کی تکنیک پر اس کی گرفت دوران تخلیق اس کا ساتھ نہ چھوڑے۔

وحدت تاثر کے لیے ضروری ہے کہ حالات و واقعات وہ ہی بیان کیے جائیں جن کا کہانی کے موضوع اور مرکزی کردار سے براہ راست تعلق ہو۔

موضوع

افسانے میں موضوع کی بھی بنیادی اہمیت ہے کیونکہ موضوع اگر اچھوتا ، نیا اور متاثر کن ہے تو افسانہ بھی کامیاب اور یادگار ہوگا۔ اگر موضوع ہی پامال اور کمزور ہوگا تو افسانہ بھی کمزور ہوگا۔

افسانے کا موضوع ہماری حقیقی زندگی سے ہی متعلق ہونا چاہیے۔ یوں تو ”موضوع‘‘ کے حوالے سے کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی ۔ افسانہ نگار اس معاملے میں آزاد ہے کہ وہ جس موضوع پر چاہے’’افسانہ‘‘ لکھے ۔ کسی نے بجا لکھا ہے کہ افسانے کا اپنا کوئی مخصوص موضوع نہیں ہوتا۔ دنیا اور انسانی زندگی سے متعلق کوئی بھی واقعہ، جذبہ احساس ، تجر بہ اور مشاہدہ اس کا موضوع بن سکتا ہے۔ گویا انسانی زندگی جتنی وسیع ہے اتنی ہی وسعت افسانے کے موضوعات میں پائی جاتی ہے جو زندگی کے سچے ، حقیقی اور فطری مرقعے پیش کرتے ہیں ۔ ان کا مقصد زندگی کی وسعتوں میں سمٹی ہوئی تمام موجودات کی تشریح، وضاحت، ان کا تجزیہ، توجیہ تقلیل پیش کرنا ہے ۔ وہ ماضی ، حال اور مستقبل تینوں زمانوں کے مشاہدات و تجربات سمیٹے ہوتے ہیں جن کے ذریعے انفرادی واجتماعی زندگی کی تصویر کشی کی جاتی ہے ۔‘‘ موضوع پورے افسانے کی روح ہوتا ہے۔ یہ کردار، پلاٹ ، زمان و مکان ، وحدت تاثر اور اسلوب تمام اجزا کومتاثر بھی کرتا ہے اور متحد بھی رکھتا ہے۔اس لیے افسانہ نگار موضوع کے انتخاب میں محتاط ہوتا ہے۔

اسلوب

ہر فنکار کا اسلوب مختلف ہوتا ہے اور یہ اسلوب ہی ہے جو ایک فنکار کو دوسرے فنکار سے ممتاز ومیز کرتا ہے چونکہ اسلوب ہی اس کا بالکل اپنا ہوتا ہے ۔ اسلوب کی مثال جسم کے لباس کی مانند ہے جس طرح آپ کا جسم بہت خوبصورت اور سڈول ہولیکن اگر آپ کے کپڑے گندے اور نامناسب ہیں تو اچھی سے اچھی شخصیت بھی نکھر نہیں پائے گی۔

چنانچہ افسانے کا موضوع خواہ کتنا بھی اچھوتا اور خوبصورت ہو لیکن اگر اسے اچھے اور مناسب ، ادبی اور معیاری اسلوب میں بیان نہ کیا گیا ہوتو اس میں تاثر کا پیدا ہونا ممکن نہیں ہے۔

افسانہ نگار کی زبان میں سوز و گداز ہو، اشاریت ، ایمائیت اور رمزیت پر گرفت ہو، معانی اور الفاظ کے مختلف Shades کی فہم
ہو، اچھا انشا پرواز ہوتو یقینا اس کا اسلوب معیاری ہوگا۔ کسی نے بجا لکھا ہے کہ :

فنکار کے لیے اچھا انشا پرداز ہونا بھی ضروری ہے ۔ موضوع کتنا ہی دلچسپ ہو، اس کی ترتیب کتنی ہی فنی ہو لیکن اگر اظہار کے لیے مناسب زبان کا استعمال نہ کیا جائے تو اپنے تمام تر تکنیکی وفنی محاسن کے باوجود افسانہ شاہکار یا کامیاب تخلیق کا درجہ نہیں پاسکتا۔ فنکار کو انہیں الفاظ و اصطلاحات کا استعمال کرنا چاہیے جو صحیح معانی پر دلالت کرتے ہوں اور جو خیالات کی صیح ترجمانی کریں ۔

اسلوب کو ہم درج ذیل خانوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔

1- بیانی اسلوب 2- سوانحی اسلوب
3- مراسلاتی اسلوب 4- مخلوط اسلوب
5- یادداشتی اسلوب ۔

اردوافسانوں میں بیانیہ اسلوب عام ہے۔’’ بیانی کی غیر موجودگی نے افسانے کی ترسیل کو ناممکن العمل بنادیا ہے ۔ علامتی و تجریدی افسانوں کا رشتہ قاری سے برائے نام رہتا ہے اور اس کا سبب بیانی اسلوب سے ان افسانوں کا محروم ہونا ہے۔ اس طرح کے اسلوب میں افسانہ نگار غیر جانب داری سے حالات و واقعات کا ذکر کرتا ہے۔ اسے ہم کہانی کہنے کا سب سے آسان طریقہ کہہ سکتے ہیں۔

سوانحی اسلوب میں افسانے کا کوئی ایک کردار یا بہ الفاظ دیگر مرکزی کردار کہانی بیان کرتا ہے۔ بیدی کا افسانہ "گرم کوٹ” اس زمرے میں آ تا ہے۔ سوانحی اسلوب میں لکھے جانے والے افسانوں میں بالعموم "صیغہ متکلم‘‘ کے علاوہ دوسرے کردار بہت کم فعال ہو پاتے ہیں لیکن کامیاب افسانہ نگار اس سلسلے میں توازن قائم رکھتے ہیں اور دوسرے کرداروں کی فطری نشونما کوسانی اسلوب سے زیادہ متاثر نہیں ہونے دیتے۔

واقعات کا بیان اگر مراسلے کی شکل میں ہو تو اسے مراسلاتی اسلوب کہتے ہیں۔اسلوبی تجربات کے نقطہ نظر سے اس کی اہمیت ہوسکتی ہے لیکن اس اسلوب کو بروئے کار لا کر جوافسانے لکھے گئے وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔

یادداشتی اسلوب کا تعلق ماضی کی بازیافت سے زیادہ ہے ۔افسانے کا کردار روز نامچے کی شکل میں اپنے حالات زندگی میں پیش آنے والے واقعات نیز شخصی تاثرات کی مدد سے کہانی کی تشکیل کرتا ہے ۔ مصنف کا منشا اس طرح کے افسانوں میں غالب عنصر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جذباتیت اور ایک قسم کی مزاجی افسردگی یادداشتی اسلوب میں پائی جاتی ہے ۔

مخلوط اسلوب میں تمام اسالیب باہم آمیز ہوتے ہیں ۔ جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ افسانے کی تشکیل میں مصنف کو قدرے آزادی میسر آجاتی ہے اور افسانے کی ضرورت کے لحاظ سے وہ مختلف اسالیب کی آمیزش کرکے افسانے کے فنی امکانات کو مزید روشن کر سکتا ہے ۔

اسلوب کے تعلق سے ایک اہم بات یہ ہے کہ افسانہ نگار کو مندرجہ بالا اسالیب بیان میں سے اس اسلوب کا انتخاب کرنا چاہیے کہ جو افسانے کے موضوع سے بھی مناسبت رکھتا ہو۔ غرض ایک اچھا اسلوب اپنے اندر سحر کی سی تاثیر اور مقناطیسی کشش رکھتا ہے اور قاری کے ذہن پر دیر پا تاثر چھوڑتا ہے نیز فنکار کو حیات جاوداں عطا کرتا ہے ۔

اشتراک کریں