غزل

گزرے نظر سے سیکڑوں جلوے جمال کے
لیکن حضورِ حسن ہیں جلوے کمال کے

 

نظروں سے بچ کے جاؤ گے میرے یہ زعم ہے
رکھ دوں گا تیرے حسن کو لفظوں میں ڈھال کے

 

لکھتا ہوں چند بول محبت کے نام سے
رکھنا عزیز جان سے اس کو سنبھال کے

 

وعدہ وفا کرو گے جو قسمیں نبھاؤ گے
رکھ دوں گا تیرے سامنے یہ دل نکال کے

 

گر جانچنا ہے مجھ کو تو چل ساتھ دو قدم
رکھ دے سبھی نکال کے خدشے خیال کے

 

جو کچھ بھی تجھکو کہنا ہے تو کہہ کے دیکھ لے
دوں گا تجھے جواب میں ہر ہر سوال کے

 

مت بھول تیرا رشتہ ہے دو گز زمین سے بھی
دنیا میں کھو کے بھول نہ وعدے مآل کے

 

اختر وفا کی راہ تو کانٹوں کی سیج ہے
چلنا وفا کی راہ میں دامن سنبھال کے

اشتراک کریں