اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لیکر

شمع رسالت کے پروانے بستان نبوت کے مہکتے پھول، آسمان نبوت کے چمکتے ستارے، آفتاب رسالت کی چمکیلی شعائیں اور آغوش پیغمبری کی پروردہ ہستیاں یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جنکی صفات قدسیہ کا ذکر قرآن مجید اور دیگر کتب سماویہ میں بھی آیا ہے جنکے سینوں پر رسالت کی کرنیں براہ راست پڑیں وہ پاکیزہ نفوس جنہوں نے راہ الہی میں متاع بے بہا کی گہر افشانی کی جنہوں نے ساعت العسرہ میں اپنی اور اہل خانہ کی پرواہ کئے بغیر دولت کے خزانوں کا منہ یک لخت حضور کے ادنٰی اشارے پر وا کردیا۔

مشکل سے مشکل گھڑی میں مال و دولت اور نفس و جاں کی قربانی راہ الہی میں پیش کر کے وفاشعاری، فدائیت، جانثاری اور فریفتگی کے ایسے انمٹ نقوش چھوڑ گئے جنکی اتباع میں ہی دراصل کامیابی و کامرانی مضمر اور پوشیدہ ہے

فان آمنوا بمثل ماامنتم بہ فقد اھتدوا 

وہ صحابہ کرام حاملین اعلی صفات جنکے شب و روز اور لیل و نھار کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک گھڑی رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے استفادہ و استفسار اور استفہام میں گزرتا تھا جنکے دل حب رسول و آلہ سے اسقدر معمور کی حضور کے ادنی دیدار اور فرمان کی بجاآاوری میں سبقت اور پیش قدمی کا وہ نمونہ چھوڑا کہ قیصر و کسری کے درباری اور حواریین عش عش کرنے لگے

وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جنکی تعریف قرآن نےبایں الفاظ 《اشداء علی الکفار رحماء بینھم 》کی ہو

بلا شبہ انکی سیرت کا ہر پہلو درخشاں اور کردار کا ہر حصہ نیر تاباں اور ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔

مگر حیف صد حیف! بہت سارے لوگ جنکے قلوب و اذھان حب رسول اور حب صحابہ سے مفقود ؛رافضیت اور خمینیت سے متاثر ہیں گاہے بگاہے وہ اپنی کج روی، کج فطری اور صحابہ دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے مخصوص صحابہ کرام پر زبان طعن کو دراز کرتے ہیں ان کو اتنا بھی خوف نہیں کہ اس کی ضرب سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر پڑتی ہے اور اللہ کہیں انکی اس رذیل حرکت سفلی و سطحی گفتار کا مواخذہ کرے۔

دراصل ایسے لوگ ابن الوقتوں اور زمرہ منافقین میں اپنا شمار کراکے اپنی ذات کو سر فہرست دیکھنا چاہتے ہیں۔

کیا ایسے لوگ جو اپنی نسبت ال رسول کی طرف کرتے ہوں {حالانکہ دعوے نسبت میں کذاب و مکار ہوں }انکو زیب دیتا ہے کہ اعداے اسلام کو ہماری مقدس تہذیب پر انگشت نمائ کا موقع فراہم کریں؟

محترم قارئین :

ایسے ہذیان گو افراد جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنی طاقت گفتار اور طلاقت لسانی کا ہدف اور نشانہ بناتے ہیں انہیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ وہ صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی نہیں بلکہ قرآن مقدس کی تقدسیت اوراسکے من جانب اللہ ہونے کے منکر بھی ہیں کیونکہ قرآن نے تو رسول کی معیت اور انکی رفاقت میں رہنے والے نفوس قدسیہ کا تذکیہ و تطہیر بیان کیا ہے اور یہ بدزبان، یاوہ گو صاحب جبہ و دستار قرآن و حدیث فہمی کا دعوے کذب کرنے والے ان کو ہدف تنقید بناکر روافض، خوارج اور دیگر فرقہ ضالہ کو فرحت بہم پہنچانے میں پیش پیش ہیں

محترم قاری / قارئین :

آیئے ہم قرآن مقدس کی آیت کریمہ پڑھتےہیں کتنے لطیف پیراے میں اللہ سبحانہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بخشش و مغفرت کا اعلان کیا ہے :

والسابقون الاولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعواھم باحسان رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ 

تعجب و افسوس کا سیل رواں مزید طغیانی کی شکل اختیار کر جاتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن تو مشاجرات صحابہ اور انکی خطاؤں کی معافی کا اعلان کررہا ہے لیکن یہ نطفہ غلیظہ کا امتزاج اور مرکب انسان آئینہ میں اپنی ادا نہ دیکھکر ان پر نکتہ چینی کرکے رافضی شیعوں سے دو وقت کی شکم پروری کی بھیک مانگ رہا ہے۔

ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

وہ لوگ جو پیارے رسول کے پیارے صحابہ کو لعن و طعن اور مشق ستم بناکر اعداے اسلام کو تمسخر اور براہ راست شریعت حقہ پر اعتراض وارد کرنے کا موقع فراہم کئےاس سے انکی جگ ہنسائی اور تھو تھو تو ہو ہی رہی ہے کل قیامت کو جب عذاب الیم سے ان کا واسطہ اور سابقہ ہوگا تو ساری ابن الوقتی اور فطرت سبائی آپ اپنے اشک ندامت اور حرف ملامت میں تبدیل ہوجائے گی:

والذین یلمزون المطوعین من المومنین فی الصدقات والذین لا یجدون الا جھدھم فیسخرون منھم سخراللہ منھم ولھم عذاب الیم 

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنی ہذیان گوئی کا نشانہ اور ہدف بنانے والے لوگوں کی صورت مکروہ اور ان پر تمام لوگوں کی لعنت برستی ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ نے فرمایا

《من سب اصحابی فعلیہ لعنت اللہ والملائکہ والناس اجمعین 》الطبرانی فی الکبیر 3/173 الصحیحہ للالبانی 2340 

مذکورہ حدیث کی روشنی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر زبان درازی کرنے والوں کو خود ہی سوچ لینا چاہیے کہ ان بارے میں سیدالرسل نے کیا فرمایا ہے۔

دراصل مقام صحابیت اور عظمت صحابہ سے نابلد اور ناواقف ہذیان گو مولوی یا کوئی بھی شخص ہو انکی فطرت سلیمہ نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہوتا ہے اسلیے (بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ ) والی کیفیت ان پہ طاری ہوتی ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اماں عائشہ سے کہا گیا کہ لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا بھلا کہتے ہیں حتی کہ بوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو بھی معاف نہیں کرتے تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تم اس پر تعجب کرتے ہوئے؟ دراصل ان کا عمل منقطع ہوچکا ہے تو اللہ نے چاہا کہ ان کا اجر جاری رہے [جامع الاصول 9/408 ]

یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ جو شخص صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا بھلا کہتا ، ان کی عیب گیری اور نکتہ چینی کرتا ہوں در حقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عیب گیری کرتا ہے کیونکہ آپ نے تو انہیں بشارتیں سنائی ہیں اور انہیں امین و ثقہ اور عدول قرار دیا ہے بلکہ وہ شخص دراصل اللہ الرحمن الرحیم پر بھی اعتراض کرتا ہے کیونکہ اللہ نے انہیں اپنے نبی کی معیت اور رفاقت کے لئے منتخب فرمایا بلکہ وہ شخص پورے دین الہی میں طعنہ زنی کرتا ہے کیونکہ اس دین مبین کے ناقل صحابہ کرام ہی تو ہیں اس لئے ان کی عیب گیری بالخصوص کاتبین وحی کی حددرجہ خطرناک امر ہے جس سے فوری توبہ کرنا لازم اور ضروری ہے

اللہ نے تو انہیں امت وسط کہا جس کے معنی بہترین، سب سے افضل، ثقہ اور قابل اعتماد امت۔ (تفسیر جامع البیان قرطبی 2/153 ابن کثیر 1/335)

لیکن آزادی اظہار رائے کی ستم ظریفی کہی جائے یا رافضیت و خمینیت کا نشہ جو نعوذبااللہ انہیں غاصب اور ناقابل خط القاب سے نوازا رہے ہیں شاید انکو معلوم نہیں کہ صحابہ کرام کا ایک لمحہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی معیت و مصاحبت کا بعد کے لوگوں کی پوری زندگی سربسجود اور انا بت الی اللہ سے افضل اور بہترہے

《لا تسبوا اصحاب محمد فلمقام احدھم ساعتا خیر من عمل احدکم عمرہ) صحیح ابن ماجہ 1332 

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہا کرتےتھے

لا تسبوا اصحاب محمد فلمقام احدھم ساعتا یعنی مع النبی خیر من عمل احدکم اربعین سنہ 》رواہ ابن بطہ وصححہ الالبانی رحمہ اللہ فی تخریج شرح العقیدہ الطحاویہ 469

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اصحاب رسول سے محبت کرنے اور ان کا ادب و احترام کرنے کی توفیق دے

آمین یا رب العالمین

اشتراک کریں