( یہ الوداعی نظم جولائی ۲۰۰۶ء میں جامعہ دارالسلام عمرآباد سے فراغت سے قبل تحریر کی گئی …..جاویدعمری)
آج الوداع او محفل! کیا عجَب سا یہ سماں ہے
خاموشیاں ہیں لب پر اور دل بھی نالہ خواں ہے
☆☆☆☆☆
صبر و شکیب، نصرت، مقصودِ زندگانی
اسمِ "شکیب” و "ناصر”، کیا خوب ترجمانی!
عرفانِ حق بھی لازم، مطلوب زندگی کا
نغمہ سَرا ہے "عارف”، "عرفان” کی زبانی
تعریف سب کے لب پر اور دل بھی نغمہ خواں ہے
یہ فيض اپنے رب کا اک فيض بے کراں ہے
☆☆☆☆☆
"اسماعیل” و "سعادت”، پیکرِ خلوصِ دل کے
کیا خوب نیک خو ہیں، "مظہر حسن” بھی دل کے
اخلاص کا نمونہ، "عبدالسلام” بھی ہیں
کردار کے مجسم، "عرفات” گل کنول کے
"مظہر” کے دل میں سچا اک حوصلہ جواں ہے
یہ فيض اپنے رب کا اک فيض بے کراں ہے
☆☆☆☆☆
"جاوید” تیرے دل میں ہے امانت دوامی
پھِیلے ہميشہ تم سے وہ مَزدہ جاودانی
ملت کو فيض پہُنچے اے "شہنواز” تم سے
"شاہد” ہو تیرے دم سے ہر گام ضَو فشانی
"جی ایم شعیب” دل سے کیا خوب نغمہ خواں ہے
یہ فيض اپنے رب کا اک فيض بے کراں ہے
☆☆☆☆☆
رکھتے ہیں دل میں "یوسف” عزمِ پیمبرانہ
"یعقوب” میں ہے پِنہاں، شانِ قلندرانہ
"احسان خان”، "عبيد” و "رافع”، "ظہير دانش”
رکھتے ہیں اپنے من میں کيا عزم، مخلصانہ
صدق و صفا کا حامل اک سيلِ کارواں ہے
یہ فيض اپنے رب کا اک فيض بے کراں ہے
☆☆☆☆☆
ہو وقف راہ مولا ہر لمحہ زندگی کا
کیا خوب فیصلہ ہے "ارشاد” تیرے من کا
"یا سین” ہوں کہ "طارق”، مالی ہیں اس چمن کے
سیچیں گے اپنے خوں سے "شاکر” بھی باغ دیں کا
بلبل کے مثل ہر پل، ہر فرد نغمہ خواں ہے
یہ فیض اپنے رب کا اک فیض بے کراں ہے
☆☆☆☆☆
عزم و یقیں ہے ظاہر "حماد” کی جبیں سے
"افضال” اور "مصَدٌَق” ہیں امیں رموزِ دیں کے
ساحل ہے "عبد الرحمٰں” طوفانِ زندگی کا
"احمد” کا حوصلہ بھی کچھ کم نہیں کسی سے
عزمِ "جمیل” دیکھو، کیا مثل آسماں ہے
یہ فیض اپنے رب کا اک فیض بے کراں ہے
☆☆☆☆☆
ہر پل تمہارے لب پر خوشیوں کی داستان ہو
پیارے "سلیم” دیکھو! الفت کے تم نشان ہو
یہ جذبہ، "ہدایت”، "ارشاد” کی تمنا
اعلاءِ حق کی خاطر، قربان اپنی جاں ہو
"احمد” کے دل میں یارو! اک حوصلہ نہاں ہے
یہ فیض اپنے رب کا اک فیض بے کراں ہے
☆☆☆☆☆
"علم و خرد کے موتی دامن میں اپنے بھر لو”
پر پل نظر اِدھر ہو، قولِ "جرير” سن لو
"صديق” اور "رياض” و "فاروق” سب ہیں گويا
منزل تمہیں ملے گی مقصد پہ بس نظر ہو
"عبد القيوم” رب کی تعريف و حمد خواں ہے
یہ فيض اپنے رب کا اک فيض بے کراں ہے
☆☆☆☆☆
اصلاح کل کا جذبہ مفسر "امين” کے دل میں
ہو دين کا "ہدایت” عرفان ہر بشر میں
مدد نظر ہو کوشش یہ "بلال” کی صدا ہے
"بو بکر” کی نصيحت "قرآن ہو نظر میں”
"عبد الرحيم” دیکھو، کيا خوب نغمه خواں ہے
یہ فيض اپنے رب کا اک فيض بے کراں ہے
☆☆☆☆☆
دامن میں جس نے بخشے علم و خرد کے موتی
افکار کو جلا دی، وسعت نظر کو بخشی
انوارِ حق شناسی حاصل ہوئی جہاں سے
فاجعلها يا إلٰهي في حِصْنِكَ المُنِيعٖ
اس جامعہ کا اختر احساں رواں دواں ہے
یہ فيض اپنے رب کا اک فيض بے کراں ہے
☆☆☆☆☆