طبیبِ اعظم – ابو بکر محمد بن زکر یا رازی

تعارف

ابوبکر محمد بن یحییٰ بن زکریا رازی سنہ ۲۵۰ہجری مطابق ۸۶۴ عیسوی میں رَے نامی ایک شہر میں پیدا ہوئے اور اپنے اس شہر کی نسبت سے رازی کہلائے۔آپ ایک مسلمان طبیب، کیمیا دان، ماہر علم نجوم، فلسفی اور ریاضی دان تھے،    فلکیات، کیمسٹری، منطق اور ادب ان کا خاص علمی میدان تھا۔ رازی  علوم وفنون کے سنہرے دور کے علماء میں شمار ہوتے ہیں۔نیز جالینوس العرب کے لقب سے مشہور ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ بقراط نے طب ایجاد کیا، جالینوس نے طب کا احیاء کیا، رازی نے متفرق سلسلہ ہائے طب کو جمع کر دیا اور ابن سینا نے تکمیل تک پہنچایا۔ جوانی میں موسیقی کے دلدادہ رہے پھر ادب و فلسفہ، ریاضیات و نجوم اور کیمیا و طب میں خوب مہارت حاصل کی۔ طب میں آپ کو وہ شہرت دوام ملی کہ آپ طب کے امام وقت ٹھہرے. ایک جرمن خاتون رائٹر Sigrid Hunke نے اپنی ایک کتاب جس کا بزبانِ انگریزی عنوان ہے  The Arab Sun Shining on the West اس کتاب میں انہوں نے رازی کو”سب سے بڑا طبیبِ انسانیت” کے طور پر ذکر کیاہے۔ آپ کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ میڈیکل فیلڈ میں ان کی  لاتعداد کتابیں ہیں جن میں کتاب الحاوی خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہے، اس  کتاب میں یونانیوں کے زمانے سے لے کر 925ء تک کے تمام طبی علوم شامل ہیں، یہ کتاب  بعدازاں 400 برسوں  تک یورپ میں بحیشیت ایک بنیادی اوراہم طبی مرجع کے تسلیم کی جاتی رہی۔ مزید برآں سائنس کے موضوعات پربھی  آپ کی اَن گنت کتابیں ومضامین ہیں۔

رَے یا شہرِ رَے

یہ ہے ایران کا  ایک قدیم اور تاریخی شہر’’رے‘‘  جس کا محل وقوع    موجودہ دارالسلطنت تہران سے۱۲ کلو میٹر دور ایران کا وہ  شمالی علاقہ ہے جو چھٹی صدی ہجری تک   سیاسی و مذہنی حوالے سے اہمیت کا حامل رہا ہے،  جو کبھی علماء وفضلاء کا مسکن ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی چمک دمک  اور شان و شوکت میں خوداپنی مثال ہوا کرتا تھا    ۔

  • یہی وہ شہر ہے جہاں سے ساسانی خاندان کے آخری بادشاہ نے مسلمانوں کی فاتحانہ یلغار کے سامنے مغلوب ہو کر ایرانی قوم کو الوداعی پیغام دیا تھا اور پھر خراسان کی طرف راہ فرار اختیار کر لی تھی ۔
  • یہی وہ جگہ ہے جہاں بنی امیہ کی خلافت کا تختہ الٹا گیا تھا اور بنو عباس کے ہاتھ خلافت کی باگ ڈور آئی تھی
  • یہی وہ شہرہے جو خاندان عباسیہ کے نام ور خلیفہ ہارون الرشید کی جائے ولادت تھا ۔

لیکن  ایک زمانے کے بعد اس علاقے کی رونق ماند پڑنے لگی  اور نئے شہر تہران کی شان و شوکت کے آگے اس میں وہ چمک دمک  باقی نہ رہی ۔

اور یہی ہے وہ شہر جس  میں اسلامی دور کے طبیب اعظم ابو بکر محمد بن زکر یا رازی پیدا ہوئے ۔ مقام ’’رے‘‘ کی طرف منسوب  وہ مشرق میں’’ رازی‘‘ اور مغرب میں’’ ریزز ‘‘(Rhazes) کے لقب سے مشہور ہوئے۔

علمِ طب سے رغبت

رازی نے عنفوانِ شباب تک توبے فکری کی زندگی گزاری،  موسیقی ان  کا محبوب مشغلہ رہا  ، چناں چہ عود بجانے میں جو اس زمانے کا ایک مقبول سازتھا،   بہت مہارت حاصل کرلی تھی ، لیکن جب  ذمہ داریاں بڑھیں  اور فکر معاش دامن گیر ہوئی توانہوں نے کیمیا گری کے فن کو اختیار کرلیا،  ان کا خیال تھا کہ کیمیا گیری کے بدولت  کم قیمت دھاتوں کو سونے میں تبدیل کر لینے سے وہ بہت جلد دولتمند بن سکتے ہیں اور اس طرح ان کےسارے خواب پورے ہو سکتے ہیں ۔ کیمیا گری کے جوطریقے اس زمانے میں مشہور تھے ان میں مختلف معد نی چیزوں اور جڑی بوٹیوں کو بعض دھاتوں میں ملا کر دِنوں  بلکہ مہینوں آگ دینی پڑتی تھی ۔ نو جوان رازی نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا ۔ دواؤں اور جڑی بوٹیوں کے حصول کے لیے ، جن کی کیمیا گری میں ضرورت ہوتی تھی ،  دوا فروشوں کی دکانوں پر جانا پڑتا تھا ۔ اس سلسلے میں ایک دوا فروش کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات قائم ہو گئے ۔ وہ فرصت کے لحات اس کی دکان پر گزارتے اور اس سے مختلف دواؤں کی خاصیتوں پر بات چیت کرتے جس کے باعث انہیں دواؤں اور دوا سازی سے دل چسپی پیدا ہوگئی جو طب کی تعلیم کی طرف پہلا قدم تھا ۔ انھیں دنوں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ان کی زندگی کے دھارے کو  ہی موڑ دیا ۔ کیمیا گری کے دوران آگ میں پھونکیں مارتے مارتے اسے آشوب چشم کی شکایت ہو گئی ۔ وہ علاج کے لیے ایک طبیب کے پاس گیا جس نے ان سے کافی رقم فیس کے طور پر وصول کر لی ۔ رازی نے دل میں سو چا کہ اصل کیمیا گری تو یہ ہے  نہ کہ وہ جس میں میں سر کھپا تا ہوں ۔ اس کے بعد انہوں نے طب کی تعلیم حاصل کر نے اور طبیب بننے کا فیصلہ کر لیا۔ اس زمانے میں طب اور فلسفہ لازم وملزوم سمجھے جاتے تھے ، اس لیے رازی نے رَے کے مقامی استادوں سے فلسفے اور طب کی تعلیم حاصل کی اور پھر اس تعلیم کی تکمیل کے لیے بغدا دروانہ ہو گئے ۔ بغداد میں اس وقت فردودس الحکمت کے نامورمصنف علی  بن ربن طبری بقید حیات تھے۔ رازی نے  اس بزرگ استاد سے طب کے تمام رموز سیکھے ۔اور اس میں کمال حاصل کرلیا، رازی کو اپنے اس بزرگ استاذ سے خاصا لگاو تھا،  چناں چہ ا پنی جملہ تصانیف میں جہاں کہیں بھی  علی بن ربن  طبری کے اقوال کا حوالہ دیا ہے ان کے قلم سے عقیدت و احترام کے موتی ٹپکتے  نظر آتے ہیں ۔ علی بن ربن  طبری نے بھی بھانپ لیا تھا کہ رازی اس کے عام شاگردوں کی طرح نہیں ہیں بلکہ ان میں ایسی صلاحیتیں پوشیدہ ہیں جن کے باعث وہ ایک روز آسان حکمت کا درخشندہ ستارہ بنیں گے ، اس لیے انہوں نے اس جو ہر قابل کو چمکانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ۔

ملازمت

علی بن ربن طبری  چونکہ ایک طویل عرصے تک شاہی طبیب کے منصب پر فائز رہ چکےتھےاور حکومت میں ان کا بہت اثر و رسوخ تھا ۔ اس وجہ سے ان کا تلمذ اور ان کے دیے ہوئےسرٹیفکیٹ رازی کے بہت کام آئے ۔ چنانچہ علی بن ربن طبری کی وفات کے کئی سال بعد جب ’’رے‘‘ کے سرکاری شفا خانے کے افسرِ اعلی کی جگہ خالی ہوئی تو رازی کا تقر راس عہدے پر عمل میں آیا ۔ یہاں رازی کے لیے اپنی طبی تحقیقات کو عملی جامہ پہنانے کا ایک سنہرا موقع میسر آیا ۔ شفا خانے میں ہرقسم کے مریض آتے تھے جن میں سے بعض  تو ایسے بھی ہوتے تھے جوپیچیدہ اور مشکل سے سمجھ میں آنے والی بیماریوں میں مبتلا ہوتے تھے ۔ رازی ان کے حالات سنتے ،غور وفکر سے ان کے مرض کی تشخیص کر تے ان کے لیے نسخہ لکھتے اور پھر اپنی تجویز کردہ دواؤں کے اثرات کا مطالعہ کرتے ۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ تمام امورا پنی بیاض میں قلم بند کر تے جا تے۔ رازی زندگی بھر رَے اور بغداد کے سرکاری شفا خانوں کے یکے بعد دیگرےافسر اعلی رہےاور ان تمام عرصے میں ان کا دستور یہی رہا ۔ اس وجہ سے جتنی طبی یادداشتیں رازی کے پاس حوالہ قلم ہو کر جمع ہو چکی تھیں ، اتنی کسی اور طبیب کے پاس جمع نہیں ہوئیں ۔ انھیں یادداشتوں کی بنا پر علم العلاج کے متعلق انہوں نے اپنی شہرہ آفاق کتابوں کو مرتب کیا جن کے باعث انہین شہرت دوام کے  حاصل ہوئی۔

جب ان کی شہرت اسلامی سلطنت کے دارالحکومت بغداد تک پہنچی توعباسی  خلیفہ المکتفی باللہ نے ان سے بغداد میں اب تک کا سب سے بڑا ہسپتال بنانے کا حکم صادر فرمایا۔ انہوں  نے ہسپتال کی تعمیر کے لیے بہترین جگہ کا انتخاب کرنے کے لیے ایک قابل ذکر طریقہ استعمال کیا۔ انہوں نے بغداد کے مختلف علاقوں میں تازہ گوشت کے ٹکڑے رکھوائے، کچھ دنوں کے بعد ان ٹکڑوں کو چیک کیا اور ہسپتال کی جگہ کے طور پر اس جگہ کا انتخاب کرنے کا مشورہ دیا جہاں گوشت کا ٹکڑا کم سے کم سڑا ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ جگہ ہسپتال بنانے کے لیے سب سے صاف ستھری جگہ ہوگی۔ رازی کا یہ طریقۂ کار  ماحولیاتی صحت کے خطرات کے بارے میں اس کی تشویش کی سطح کو ظاہر کرتا ہے۔

۹۰۳ء میں جب منصور بن اسحاق بن احمد ’’رے‘‘ کا گورنر مقرر  ہوا تو اس نے حکومت کی عنان ہاتھ میں لیتے ہی رے کے شفا خانے کو وسعت دینے کا منصوبہ بنایا اور رازی کو جو ان دنوں بغداد میں تھے رے  آنے کی دعوت دی ۔ رازی کو قدرتی طور پر رے کے ساتھ گہرا لگاؤ  تھا جو ان کا آبائی وطن بھی تھا اس لیے انہوں نے منصور کی یہ دعوت قبول کر لی ، چناں چہ ۹۰۴ء میں وہ بغداد سے رے آئے اور دوسری بار وہاں کے شفا خانے کے افسر اعلی مقرر ہوئے ۔ رازی سال بہ سال سے اپنے مطالعے اور ذاتی تجر بے کی بنا پر جو یادداشتیں تحریر کیا کرتے تھے، انہوں نے ان یادداشتوں کی مدد سے علم طب پر اپنی پہلی عظیم کتاب مرتب کی اور اپنے مربی منصور بن اسحاق والی رَے کے نام پر اس کتاب کا نام  منصوری رکھا ۔

منصوری کی تالیف سے رازی کی شہرت تمام عبا سی سلطنت میں پھیل گئی اور انہیں اپنے عہد کا سب سے بڑا طبیب سمجھا جانے لگا ۔ ۹۰۸ء میں بغداد کے مرکز می شفا خانے میں جو اس زمانے میں عالم اسلام کا سب سے بڑا شفا خانہ تھا انہیں افسر الاطبا کا عہد و پیش کیا گیا ۔ اسی سال رے میں رازی کے مربی منصور بن اسحاق کا زمانہ حکومت ختم ہو گیا تھا اس لیے رازی نے اس عہدے کو خوشی سے قبول کر لیا اور تیسری بار وہ ایک جلیل القدر منصب پر فائز ہو کر بغداد  آئے۔ وہ اس عہدے پر چودہ برس تک متمکن رہےاور یہ تمام مدت انہوں نے عام معالجات کے علاوہ طبی تحقیقات اور تصنیف و تالیف میں گزاری ۔ ان کی سب سے بڑی کتاب جو حاوی کے نام سے مشہور ہے اسی زمانے میں مکمل ہوئی ۔ اس کے علاوہ انہوں نے بہت سی کتابیں اور رسالے مختلف موضوعات پر لکھے جن میں سے ایک کتاب ملوکی کوطبرستان کے گورنرعلی بن ورسودان کے نام پر اور ایک کتاب برع الساعة کوخلیفہ مقتدر کے وزیرابوالقاسم بن عبد اللہ کے نام معنون کیا ۔

رازی فن طب میں یگانۂ روز گار تھےاور علم العلاج کے اصول وعمل سے پوری طرح آگاہ تھے۔ پیچیدہ بیماریوں کے مریضوں کے علاج میں وہ ذاتی اجتہاد سے کام لیتےتھےاور اپنے تجر بات کی روشنی میں علاج کی نئی نئی راہیں نکالتے تھے۔ پھر ان تمام تجر بات اور ان کے نتائج کو اپنی شہرہ آفاق کتاب الحاوی میں قلم بند کرتےجاتےتھے۔ اس طرح اس نا در تصنیف نے ایک عظیم طبی انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت حاصل کر لی ۔

بغداد اور رے دونوں شفا خانوں میں یہ دستور تھا کہ عام بیماریوں کے مریضوں کو چھوٹے طبیب دیکھتے تھے، مگر جن مریضوں کی بیماریاں زیادہ پیچیدہ قسم کی ہوتیں ، انہیں شفا خانے کے بڑے طبیبوں کے پاس بھیج دیا جا تا تھا ۔ اگر کوئی مریض ایسے پیچیدہ مرض میں مبتلا ہوتا جس کی تشخیص یہ بڑے طبیب بھی نہ کر سکتے تو پھر اس کے معالجے کے لیے طبیب اعظم رازی کی طرف رجوع کیا جا تا تھا ۔

کبھی کبھی رازی بعض امرا کے بلاوے پر دوسرے شہروں میں جا تےتھےجہاں لوگ نہایت شاندار طریقے سے خیر مقدم کرتے تھے، چناں چہ انہوں نے خودلکھا ہے کہ ایک بار امیر ِخراسان نے اپنے علاج کے لیے دعوت دی ۔ اثناے راہ میں ایک مقامی رئیس کو جب اس کی آمد کی اطلاع ہوئی تو اس نے آگے بڑھ کر احترام سے ان کا استقبال کیا ۔ چند روز اپنے گھر میں ٹھہرایا اور  بہت خاطر مدارات کی ۔ پھر اپنے بیٹے کا جو کسی خطرناک مرض میں مبتلا تھا ان سے علاج کروایا ۔

اپنی عمر کے آخری دس بارہ سال انہوں نے اپنے آبائی وطن’’رے‘‘ میں گزارے جہاں وہ بغداد کی سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہو کر آ گئےتھے، لیکن یہاں انہیں ایک ابتلا سے دو چار ہونا پڑا۔ ان کی بینائی روز بروز کم ہوتی گئی اور آخر کار وہ بالکل نا بینا ہو گیا ۔ اندھے پن پر بڑھا پا مستزاد تھا ، اس لیے آخری ایام زبوں حالی میں گزرے ۔اسی حالت میں ۹۲ سال کی عمر میں۹۳۲ء میں داعی اجل کو لبیک کہا ۔

 اخلاق و اوصاف

رازی بہت فیاض تھے اور غر یوں محتاجوں پر کھلے دل سے خرچ کرنے کے عادی تھے ۔ اپنی اسی عادت کے باعث وہ بھی دولت مند نہ ہو سکے۔

فلسفہ

رازی نے اس زمانے کے دستور کے مطابق طب کے ساتھ فلسفے کا بھی مطالعہ کیا تھا ، لیکن وہ ارسطو کے فلسفے کےمخالف اور فیثا غورس اور ثالیس ملطی کے فلسفے کے حامی تھے حالاں کہ مسلمانوں کے نزدیک صرف ارسطو کا فلسفہ ہی قابل قبول تھا کیوں کہ اس میں کوئی بات اسلامی اصولوں کے خلاف نہیں تھی ۔ فیثاغورس اور ثالیس کے بعض فلسفیانہ خیالات اسلامی عقائد خلاف تھے اور مسلمان اسے باطل جانتے تھے رازی کی اس فلسفیانہ بے راہ  روی کے باعث وہ طبیب کی حیثیت سے جتنے صاحب عظمت تھے فلسفی کی حیثیت سے اتنےہی بد نام تھے۔ اگر وہ خاموشی سے ان فلسفیانہ عقائد کو اپنا لیتےتو شاید لوگ اس سے زیادہ تعرض نہ کر تے ،لیکن وہ با قاعدہ طور پر ان فلسفیانہ عقائد کی تبلیغ کرتےاور ان کی تائید میں مناظرے کرتے تھے، اس لیے علما کی اکثریت ان کے خلاف ہو گئی تھی ۔ چناں چہ کئی عالموں نے جن میں احمد بن طیب سرخی اور ناصرخسر و پیش پیش تھے ، اس کے فلسفیانہ عقائد کے رد میں کتابیں تصنیف کیں ۔

نئے کیمیکل کی دریافت

رازی کو کیمیا گری یعنی دھاتوں کو سونے میں تبد یل کر نے کی جولت آغاز جوانی میں پڑ گئی تھی وہ طب کا پیشہ اختیار کر نے کے بعد بھی نہ گئی ، چناں چہ وہ پارے اور تانبے کوسو نے میں تبد یل کر نے کی کوشش میں ہمیشہ اپنے فرصت کے لمحات صرف کرتا رہا لیکن ظاہر ہے کہ یہ ایک سعی لا حاصل تھی اس لیے جب بھی اس نے سونا بنانے کا دعوی کیا اس کو نا کامی کی خفت اٹھانی پڑی ، البتہ ایک اور نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ کوشش اصل مقصد میں ناکام ہونے کے باوجود دیگر مقاصد میں بڑی نتیجہ خیز نکلی یعنی گو اس سے سو نا تو نہ بن سکا مگر کیمیا میں جو ایک مستقل سائنس ہے اس نے ایسے انکشاف کیے جو سونے سے زیادہ بڑھ کر تھے ، چناں چہ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جابر بن حیان کے بعد رازی اسلامی دور کا دوسرا بڑا کیمیا دان تھا ۔ اس نے کیمیا پر جو کتا ہیں اور رسالے لکھے ان کی تعدادا کیس ہے ۔ اس میں اس نے متعدد کیمیائی عملوں کو نہایت وضاحت سے بیان کیا ہے ۔ اور ان آلات کی بھی تشریح کی ہے جو کیمیا میں استعمال ہوتے تھے ۔ رازی سے پہلے اور اس کے بعد بھی اکثر کیمیا گروں کا دستور یہ تھا کہ وہ کیمیائی عملوں کو پردہ راز میں رکھنے کی بڑی کوشش کر تے تھے اور عام اشیا مثلا دھاتوں کو عجیب وغریب ناموں سے پکارتے تھے جس سے ان کی تحریریں ایک معمہ  بن جاتی تھیں لیکن رازی نے ایک حقیقی سائنس دان کی حیثیت سے اس طریقے سے اجتناب کیا اور کیمیا پر جو کچھ بھی لکھا عام فہم زبان اور صاف انداز میں لکھا ۔ رازی کے عہد تک عام کیمیا گر مادوں کو جسم ، روح اور جو ہر میں تقسیم کر تے تھے جو سائنس کے نقطہ نظر سے ایک غلط اور فرضی تقسیم تھی ، لیکن رازی نے کیمیائی مادوں کو جمادات ، نباتات اور حیوانات میں تقسیم کیا اور اس طرح غیر نامیاتی(Inorganic) کیمیا اور نامیاتی (Organic) کیمیا کی ترقی کا راستہ کھول دیا۔ رازی نے بہت سی اشیاء کا وزن مخصوص (Specific Gravity) معلوم کیا اور اس مقصد کے لیے ایک خاص قسم کی ترازو سے کام لیا جس کا نام اس نے ’’میزان طبیعی‘‘ رکھا۔ موجودہ زمانے میں ایسی تراز و کو ماسکونی تراز و (Hydrostatic balance) کہتے ہیں ۔

تصانیف

رازی کی تصانیف کس قدر ہیں  اس سلسلے میں سب سے زیادہ قابل اعتماد تو رازی کی وہ فہرست ہے جو انہوں نے اپنی کتابوں کے متعلق خود مرتب کی ہے ، ضسے ابن ندیم نے اپنے کتاب الفہرست میں نقل کیا ہے،  اور جسے ابن القفطی نے بھی اپنی کتاب اخبار الحماء میں اپنے الفاظ میں نقل کیا ہے، ان کے بعد ابو ریحان بیرونی نے اپنی ایک کتاب «رسالہ ابی‌ریحان فی فهرست کتب محمدبن زکریا ‌الرازی»کے عنوان سے لکھا ہے، یہ کتاب ۱۹۳۶ میں پیرس سے شائع ہوئی ہے۔

روفیسر ڈاکٹر محمود نجم آبادی جو کہ تہران یونیورسٹی کے استاد ہیں اور بین الاقوامی سوسائٹی فار دی ہسٹری آف میڈیسن کے رکن ہیں، جو رازی کے کارناموں  کے متعلق ایک طویل عرصے ریسرچ و تحقیق کر رہے ہیں انہوں نے "مقلفات ومصنفات ابوبکر محمد بن زکریا رازی” کے نام سے ایک کتاب ترتیب دی ، جسے تہران یونیورسٹی نے ۱۳۳۹ء میں شائع کیا۔ اس کتاب میں ابن الندیم، البیرونی، ابن القفتی اور ابن ابی عصباء نے رازی کی تصانیف کے بارے میں جو کچھ کہا ہے ان کا ایک دوسرے سے موازنہ کیا گیا ہے اور رازی کی کل ۲۷۱ کتابیں شمار کی گئی ہیں۔

یہ صحیح ہے کہ رازی نے کیمیا پر متعدد کتابیں تحریر کیں ،لیکن اس کی حقیقی عظمت ان طبی کتابوں اور رسالوں پر مبنی ہے جن میں انہوں نے اپنی عمر بھر کی شان دارطبی تحقیقات کو سپر دقر طاس کر دیا ہے ۔  رازی نے مختلف طبی موضوعات پر جو چھوٹی چھوٹی کتابیں اور رسالے تصنیف کیے ان کی تصانیف سترہویں صدی عیسوی تک یورپ میں بہت مستند تصور کی جاتی تھیں، ان کے تراجم ہوئے اور یورپ کے درسگاہوں میں بطور نصاب پڑھائی جاتی رہیں،  رازی کی ان طبی تصنیفات کی تعداد ایک سو سے زائد ہے اور ان میں حاوی پہلے نمبر پر آتی ہے ۔

حاوی ایک عظیم طبی انسائیکلو پیڈیا ہے جس میں فاضل مصنف نے تمام طبی سائنس کو جو متقدمین کی کوششوں سے صدیوں میں مرتب ہوئی ، ایک جا جمع کر دیا اور پھر اپنی ذاتی تحقیقات سے اس کی تکمیل کی ۔ اس کتاب کو وہ یادداشتوں اور متفرق مسودوں کی صورت میں عمر بھر لکھتےر ہےمگر کتابی صورت میں مدون کرنے کی فرصت نہ مل سکی ۔ یہ کام ان کی وفات کے بعد اس کے شاگردوں نے انجام دیا اور اس کی تحریک ایک علم پرور شخصیت’’ابن العمید‘‘ نے کی جو آل بویہ کے اولین دور کے ایک حکمران رکن الدولہ کا وزیر تھا۔ عبدالعمید نے رازی کی وفات کے بعد حاوی کے مسودات ایک گراں قیمت کے عوض اس کی بہن سے خریدے ۔ پھر اس کے شاگردوں کا ایک بورڈ بنایا جس نے ان مسودات کو کتابی صورت میں مدون کیا اور اس طرح یہ نادر تصنیف وجود میں آئی ۔

حاوی کی پچیس جلد میں ہیں جو یورپ کی لائبریریوں میں بکھری ہوئی ملتی ہیں ،اس کتاب کو اصل عربی میں چھاپنے کی نوبت بھی نہیں آئی البتہ اس کا لاطینی ترجمہ دو با رطبع ہو کر مغربی دانش وروں پر رازی کے فنی کمالات کا سکہ بٹھا چکا ہے ۔ یہ ترجمہ پہلی بار ۱۳۸۹ء میں پرشیا سے اور دوسری با ر۱۵۴۲ء میں دینیس سے شائع ہوا تھا۔

رازی کی دوسری عظیم طبی تصنيف المنصوری ہے ۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے ۔ اس کتاب کو رازی نے اپنے ایک مربی منصور بن اسحاق حاکم رے کے نام پر معنون کیا تھا ۔ ضخامت میں یہ حاوی سے بہت چھوٹی تھی مگر چوں کہ علم وعمل طب کے تمام ضروری رموز اس میں آ گئے تھے اس لیے عام اطبا میں جو ہمیشہ ضخیم کتابوں پر مختصر مگر جامع تصنیفات کو ترجیح دیتے ہیں منصوری بہت مقبول رہی۔ اس کتاب کا لا طینی ترجمہ لبرالمنصورس (Liber Almansoris) کے نام سے پہلی مرتبہ ۱۴۸۱ء میں لنڈن سے شائع ہوا۔ اس کے  بعد اسے دوسری مرتبہ ۱۴۹۷ء میں وینس سے  اور تیسری مرتبہ ۱۵۴۴ءمیں باسل سے شائع کیا گیا۔

رازی کے تصانیف  میں سے بعض کی تفصیل حسب ذیل ہے :

  • کتاب طب الملوکی میں جسے رازی نے طبرستان کے حاکم علی سن درھسو ذان کے لیے لکھا تھا اس امر کی صراحت کی گئی ہے کہ غذاؤں سے کس طرح علاج کیا جا سکتا ہے ۔ رازی علاج بذریعہ غذا کا بہت بڑا حامی تھا چناں چہ اس کا یہ قول مشہور ہے کہ جب تک غذاؤں سے علاج کیا جا سکتا ہو ، دواؤں کا استعمال نہیں کر نا چا ہیے ۔
  • کتاب طب الفقرا میں یہ بیان ہے کہ جن مقامات پر طبیب کی خدمات میسر نہ آ سکتی ہوں ، وہاں لوگ معمولی دواؤں سے اپنا علاج کس طرح کر سکتے ہیں ۔
  • کتاب برع الساعتہ میں جسے رازی نے وزیر سلطنت قاسم بن عبید اللہ کی فرمائش پر تصنیف کیا تھا مختلف امراض کے لیے ایسی دوائیں بیان کی گئی ہیں جن کا فوری اثر ہوتا ہے ۔
  • ان کے علاوہ رازی کا ایک رسالہ گردے اور مثانے کی پتھری پر ہے جس کو عربی متن اور فرانسیسی ترجمے کے ساتھ ۱۸۹۲ء میں لنڈن سے شائع کیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں رازی نےمختلف موضوعات پر مشتمل  بہت سے مشہور رسالے بھی تحریر کئے  ہیں جن میں ایک رسالہ وجع مفاصل پر ہے۔ ایک رسالہ قولنج پر ہے۔ ایک رسالہ فصد پر ہے۔ ایک رسالہ بیماریوں کی حالت میں استعمال کی جانے والی غذاوں کی تفصیلات پر ہے۔ ایک رسالہ مثابہ امراض کی تشخیص پر ہے لیکن ان تمام کتابچوں میں سب سے مشہور رسالہ وہ ہے جو اس نے چیچک اور خسرے پر لکھا ہے اور جس کا نام کتاب الجدری و الحصبہ ہے ۔ (عربی میں چیچک کو’’ جدری‘‘ اور خسرے کو’صبہ‘‘ کہتے ہیں)۔ اس کتاب کی اہمیت اس امر سے ظاہر ہے کہ یہ دنیا کی پہلی تصنیف ہے جس میں چیچک اور خسرے کے اسباب ، علامات ، علاج اور حفظ ما تقدم پر پوری تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔ چناں چہ جدری والحصبہ کے علاج میں جو اصول رازی نے بیان کیے ہیں وہ آج بھی صحیح مانے جاتے ہیں ۔اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر اس کے ترجمے یور پی زبانوں میں کیے جا چکے ہیں ، چناں چہ اس کا لا طینی ترجمہ پہلی مرتبہ ۱۴۴۵ء میں وینیس سے اور اس کا انگریزی ترجمہ ۱۸۴۸ء میں لنڈن سے شائع ہوا تھا ۔

اشتراک کریں

۱ thought on “طبیبِ اعظم – ابو بکر محمد بن زکر یا رازی”

Comments are closed.