وہ معاشرتیں ہمیشہ مضبوط، زندہ اور صحت مند روایات کی حامل ہوتی ہیں جن کا ادبی سرمایہ اورثقافتی روایات صحت مند ہوں۔ مسلمانانِ ہند اس اعتبار سے خاصے بھرپور واقع ہوئے ہیں۔ برِ صغیر میں آمد کے نتیجے میں انہوں نے ایک طرف اپنے ادب و ثقافت کے اثرات یہاں کے ادب وثقافت پر مرتب کیے تو دوسر ی طرف یہاں کے ادب وثقافت سے بہت کچھ لیا۔ اردو زبان اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ فارسی اور عربی کے اثرات کے ساتھ ساتھ مقامی زبانوں کا مرکب ہونے کے باعث اردو میں اسلامی اور مقامی رنگوں کی آمیزش دیکھی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا ادب بھی یہاں کی دیگر زبانوں سے زیادہ صحت مند ہے۔ نیز ہماراثقافتی سرمایہ تحریری طور پر سب سے زیادہ اسی زبان میں محفوظ ہے
اردوزبان کی ادبی اہمیت
الف اردو زبان کا کلاسیکی سرمایہ ہماری تہذیب کے ساتھ ساتھ ہماری تاریخی روایات کا علمبردار بھی ہے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں مسلمانانِ ہند کے نظریات، ان کے بدلتے حالات، ان کے رجحانات اور تاریخی روایات کی زندہ تصاویر اردو ادب کی کلاسیکی تحریروں میں دیکھی جا سکتی ہیں
ب چونکہ اردو زبان نے دیگر زبانوں سے بہت کچھ حاصل کیا اس لیے اس کے ادب میں دیگر ادبیات کی جھلک بھی موجود ہے۔ نیز انیسویں صدی کے بعد مغربی اثرات نے بھی اردو ادب کو متاثر کیا چنانچہ اردو ادب میں عالمی ادبیات کا انجذاب بھی اس ادب کو برِ صغیر کے دیگر ادبیات سے وسیع تر کر دیتا ہے۔ علی گڑھ تحریک سے رومانوی اور ترقی پسند تحریک تک تمام تر رجحانات مغربی ادبی رجحانات اور رویوں کی دین ہی تھے
ج اردو ادب اہمیت اس امر میں بھی پوشیدہ ہے کہ اس کا ادب عالمی دنیا میں ہماری شناخت کا ایک اہم حوالہ بن چکا ہے۔ اردو ادب کے عالمی زبانوں میں تراجم نے اردو کے ساتھ ساتھ ہماری قومی شناخت کو بھی عالم گیریت بخشی ہے
اردو زبان کی ثقافتی اہمیت
کسی بھی معاشرت کے ثقافتی سرمائے کی سب سے بڑی محافظ زبان ہی ہوتی ہے۔ یہی معاملہ ہماری ثقافتی روایات اور اردو کے ساتھ ہے
الف ہمارا لوک ورثہ جس حد تک اردو زبان میں ہے، بجز عربی و فارسی کےکسی اور زبان میں نہیں ملتا مختلف علوم و فنون کی ترجمانی سب سے زیادہ اردو زبان میں کی گئی ہے
ب .موسیقی اور فنِ مصوری سمیت دیگر مقامی فنونِ لطیفہ کی تحصیل کیلئے جس قدر تحریری سرمایہ اردو زبان میں دستیاب ہے، کسی اور مقامی زبان میں موجود نہیں ادبیاورثقافتی ہر دو حوالوں سے اردو کی اہمیت مسلّم ہے
اردو کی تعلیمی اہمیت
تعلیمی عمل میں زبان کلیدی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ مدرس کی تدریس اورمعلم و طلبا کے مابین رابطے کا اہم ترین ذریعہ زبان ہی ہوتی ہے۔ طلبا اسی زبان میں آسانی سے تعلیم حاصل کر پاتے ہیں جو یا ان کی مادری زبان ہو یا وہ اس زبان پر فطری طور پر قدرت رکھتے ہوں۔ ہندوستان ایک مخلوط معاشرہ کا حامل ہے۔ اس میں لسانی اعتبار سے بہت تنو ع پایا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں بالعموم چار طرح کے طبقات موجود ہیں۔
الف وہ، جن کی مادری زبان اردو ہے اور وہ عموماً ابلاغ کے لیے اسی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔
ب وہ، جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے لیکن وہ باہم میل جول کے لیے اس زبان میں تبادلۂ خیال کر لیتے ہیں۔
ج وہ، جن کی مادری زبان مخلوط نوعیت کی ہے اور وہ اسی مخلوط زبان میں اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ البتہ اس مخلوط زبان پر اردو کے اثرات زیادہ ہیں۔
د وہ، جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے اور انہیں بالعموم اس کے استعمال کی ضرورت بھی نہیں پڑتی
یہ تقسیم ہم پر یہ حقیقت آشکار کرتی ہے کہ ہمارے ملک میں خواہ کسی کی مادری زبان اردو ہے یا نہیں، اسے سمجھنے والے دیگر زبانوں میں بھی ہیں۔ چنانچہ منطقی طور پر ہمارے ملک میں تعلیمی عمل کے لیے اردو کا بھی استعمال ہونا چاہیے۔ درج ذیل نکات اسی حقیقت پر دال ہیں
الف اردو زبان ہماری قومی یکجہتی کی علمبردار ہے اس لیے ہمیں طلبا کو اسی زبان میں تعلیم دینی چاہیے۔
ب غیر ملکی زبان میں تحصیلِ علم طلبا کے لیے سیکھنے کا عمل مشکل تر بنا دیتا ہے
اردو بطور صحافتی زبان
جہاں دیگر حوالوں سے اردو کی اہمیت مسلّم ہے وہیں صحافتی اعتبار سے اردو کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ خبروں کی فراہمی ہو یا خبروں تک رسائی، دونوں صورتوں میں زبان اہم ترین حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے صحافتی اور ابلاغی ادارے اپنی مقبولیت کی غرض سے معروف ترین زبان کا انتخاب کرتے ہیں
چونکہ اردو انگریزوں کی آمد تک برِ صغیر کی مقبول ترین زبان بن چکی تھی اسی لیے جلد ہی ضرورت محسوس کی گئی کہ اردو زبان میں صحافتی عمل شروع ہونا چاہیے۔ اس غرض سے ہری ہر دتہ نے۱۸۲۲ء میں ’جامِ جہاں نما‘ کا اجرا کیا۔ یہ اردو زبان میں شائع ہونے والا پہلا اخبار تھا۔ اسی اخبار کی بدولت پہلی مرتبہ ان قارئین کو بھی خبروں تک رسائی حاصل ہوئی جو انگریزی سے نا بلد تھے
جامِ جہاں نما کے بعد۱۸۵۰ء میں ’کوہِ نور‘ نامی ہفت روزہ معرضِ اشاعت میں آیا۔ اسی دور میں منشی نول کشور نے روز نامہ ’اودھ اخبار‘ کی داغ بیل ڈالی۔۱۸۵۰ء تک اردو صحافت کے رجحانات کافی حد تک بڑھ چکے تھے اور بہت سے اخبارات اردو زبان میں شائع ہونے لگے تھے
۱۸۷۰ء میں سر سید نے انگلستان کا دورہ کیا تو وہاں سے واپسی پر ’علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ ‘اور ’رسالہ تہذیب الاخلاق ‘کا اجرا کیا۔ یہ دونوں رسائل انگلستانی رسائل spectator” اور”tattler” کی پیروی میں شائع کیے گئے
بیسویں صدی میں تحریری آزادی کے سلسلہ میں مولوی ثنا اللہ نے ۱۹۰۲ء میں ہفت روزہ ’’وطن‘‘ شائع کیا۔ مولانا ظفر علی خاں نے۱۹۰۳ء میں معروف روز نامہ ’’زمیندار‘‘ کا اجرا کیا۔ مذکورہ دونوں اخبارات کے مالکان نہایت قوم پرست واقع ہوئے تھے چنانچہ ان اخبارات سے اردو صحافت صحیح معنی میں پھلنے پھلولنے کا موقعہ ملا۔
۱۹۱۱ء اور۱۹۱۲ء میں مولانا محمد علی جوہر نے’’ ہمدرد‘‘ اور’’ الہلال‘‘ شائع کیے۔ ان تمام اخبارات و رسائل کے نتیجے میں مسلمانوں کی تحریک میں ایک نئی روح پیدا کر دی۔
اس مختصر منظر نامہ کے بیان کا مقصد یہ ہے کہ برِ صغیر کی معروف ترین زبان ہونے کہ ناطے صحافتی سرگرمیوں کے لیے بھی نظرَ انتخاب بالعموم اردو پر ہی ٹھہری۔ یہ عمل اس حقیقت کا شارح ہے کہ صحافتی اعتبار سے بھی اردو کی اہمیت طے شدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کا ہر نیا ادارہ وسیلۂ اظہار کے لیے اردو ہی کو چنتا ہے۔