علامہ اقبال کی فارسی شاعری : تجزیاتی مطالعہ

ہندوستان میں صدیوں سے فارسی کے جو شعراء مقبول تھے اور آج بھی کسی نہ کسی حیثیت سے ان کو قبولیت عام حاصل ہے ان میں سعدی، رومی اور حافظ کے نام سرفہرست ہیں، علامہ اقبال نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی اس کو ہندوستان میں فارسی زبان کے زوال کا معاشرہ کہا جاسکتا ہے مگر اس معاشرے میں بھی فارسی زبان و ادب کا چلن ہمارے زمانے سے زیادہ ہی تھا اپنی کثیر الجہتی کی وجہ سے فطری طور پر حافظ کی شاعری دوسرے شعراء کے مقابلے میں میں زیادہ پڑھی جاتی تھی۔ اقبال حافظ سے خاص متاثر تھے، فارسی کے اس عظیم شاعر کے بارے میں اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا:

"جب حافظ کی کیفیت مجھ پر طاری ہوتی ہے تو اس کی روح میری روح میں حلول کر جاتی ہے، میری شخصیت شاعر میں مدغم ہو جاتی ہے اور میں خود حافظ بن جاتا ہوں”.

ایک مرتبہ اور اقبال نے کہا تھا کہ :

",میں دوہری شخصیت کا مالک ہوں، باہر والا عملی اور کاروباری، اندر والا ایک خواب دیکھنے والا فلسفی اور صوفی”۔

فن اور اسلوب کے اعتبار سے اگر دیکھا چائے تو اقبال کی شاعری پر حافظ کی گہری چھاپ نظر آتی ہے، لیکن آگے چل کر جب اقبال کی مثنوی "اسرارِ خودی” 1915ء میں شائع ہو کر جب منظر عام پر آئی تو لوگوں کو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ اقبال نے اپنی تمام تر حافظ دوستی کے باوجود حافظ اور دیگر متصوفین شعراء سے شدید اختلافات کئے ہیں اور ان کی فکر کو حرفِ غلط کی طرح کھرچ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

اس اختلافات کی سب سے بڑی وجہ تھی "عقیدہ وحدہ الوجود” اقبال نے سراج الدین پارل کو لکھے اپنے ایک خط میں نہ صرف حافظ بلکہ تمام وحدت الوجودی شعراء کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:

"شعرائے عجم میں بیشتر وہ ہیں جو اپنے فطری میلان کے باعث وجودی فلسفہ کی طرف مائل تھے ، اسلام سے پہلے بھی ایرانی قوم میں یہ میلانِ طبیعت موجود تھا۔۔۔۔ مسلمانوں میں ایک ایسے لٹریچر کی بنیاد پر پڑی جس کی بنا وحدۃالوجود تھی، ان شعراء نے نہایت عجیب و غریب اور بظاہر دلفریب طریقوں سے شعائر اسلام کی تردید کی ہے اور اسلام کی ہر محمود شئے کو ایک طرح سے مذموم بیان کیا ہے، اس نکتہ خیال سے نہ صرف حافظ بلکہ تمام شعر ان پر نظر ڈالنی چاہیے”۔ [10 جولائی 1916ء منقول از اقبال نامہ، ج1،ص :35-37]

اقبال کی فارسی شاعری

علامہ اقبال کی شاعری اگر چہ اردو اور فاری دونوں زبانوں میں تقسیم شدہ ہے لیکن اس کے باوجود ہر ایک زبان میں انہوں نے اپنی صلاحیت و استعداد کا لوہا منوایا ہے۔ علامہ اقبال کی شخصیت وہ شخصیت ہے جس نے شاعری میں عملی طور پر مقصدیت کو برتا اور عمل کر کے دکھایا ۔ وہ "ادب براۓ ادب” کے قائل نہیں تھے اور نہ شعر وادب کو صرف تفنن طبع کا ذریعہ سمجھتے تھے ، ان کی شاعری میں زندگی ، حرکت اور جد و جہد پیہم کو ایک عظمت حاصل ہے ۔ انہوں نے خودی کا ایک مخصوص فلسفہ پیش کیا ہے جسے ان کی شاعری میں مرکزیت حاصل ہے۔ انہوں نے عقل و خرد پرعشق کو ترجیح دی ہے، اقبال کی پوری شاعری انہیں افکار ونظریات کے اردگردگھومتی ہے، ان کی فارسی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ "شاعری جزویست از پیغمبری” انھیں کی شاعری کے بارے میں کہا گیا ہے۔

انہوں نے فارسی کے شعری سرمائے میں غزلوں کے علاوہ مثنویاں اور رباعیات بھی چھوڑی ہیں، جو پیام مشرق ، زبور عجم ، اسرار خودی اور اسرار ورموز کی شکل میں اہل نظر سے ہوئی خراج تحسین حاصل کر چکی ہیں ۔ اقبال کی ان فارسی تخلیقات نے فاری کے تن مردہ میں اپنے زندگی کی نئی لہر دوڑادی اور اسے ایک انقلاب تازہ تر سے ہم کنار کیا۔ ان کی فارسی شاعری بقا وغیرہ صرف اپنی فکری سرمائے ہی کی وجہ سے نہیں بلکہ فنی اعتبار سے انتہائی اہم ہے۔ فلسفیانہ خیالات کے اظہار میں فنی تقاضوں کو پوری طرح نبھا نہ پانے کا احتمال رہتا ہے لیکن اقبال نے کہیں بھی فن کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے۔ خاص طور سے اقبال کے کلام کا وہ حصہ جومکالموں یا گفتگو وغیرہ پرمشتمل ہے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، فنی تقاضوں کے ساتھ ساتھ اقبال نے جن مضامین کو اپنے اشعار میں باندھا ہے وہ انہیں کا مذاق ہے، ان کی دور رس نگاہوں سے یہ بات مخفی نہ تھی کہ خشک تقریر لوگوں کو اکتا دینے والی ہوتی ہیں لہذا ایسی صورت میں نصیحتوں کو بھی بہترین اسلوب نگارش درکار ہوا کرتی ہے ، چنانچہ ان کی نظم "شکوہ اور جواب شکوہ” نیز ” مکالمہ خدا و انسان” اس اسلوب کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

اقبال نے اپنی فارسی شاعری میں سنجیدہ اور سادہ اسلوب اپنایا ہے، انہوں نے فاری کے قدیم شعراء کے اسلوب کی کامیاب پیروی کی ہے۔ وہ صنائع لفظی کے لئے فکر و معنی کا خون نہیں کرتے ہیں۔ پھر بھی ان کے یہاں حسین تشبیہات و استعارات کی کمی نہیں ہے، بلکہ ترنم وموسیقیت کی فراوانی ہے، حسن فطرت کی جلوہ آرائیاں الگ اپنی بہار دکھا رہی ہیں تو شیرینی اور شوکت ادا کے جلوے الگ ہیں۔ زبان و بیان کی جن خامیوں کی طرف ناقدین نے اشارہ کیا ہے وہ خوبصورت خیالات کی روانی میں ذہن پر گراں نہیں گذرتیں۔ اسلم جے راج پوری ان کی انہیں خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

"ڈاکٹر صاحب کا تمام کلام اگر چہ آورد ہے لیکن اس میں انتہائی لطافت اور انتہائی ایجاز ہے یعنی فصاحت لفظی اور بلاغت معنوی دونوں کی پوری پوری رعایت محفوظ ہے۔ انداز بیان اور طرز ادا انوکھا اور دلکش ہے۔ ان کی توجہ خیالات کی رفعت اور معانی کی بلندی کی طرف زیادہ رہتی ہے، صنائع و بدائع اور تشبیہات و استعارات کے پیچھے وہ نہیں پڑتے لیکن باوجود اس کے لفظوں کی لطافت اور ترکیبوں کی نزاکت کو کہیں ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اس طرح اقبال کے کلام میں فکر کی بلندی کے ساتھ ساتھ احساس جمال کی تسکین کا پورا سامان موجود ہے۔

اشتراک کریں