تعارف
ابو سعید فضل اللہ بن ابوالخیر احمد (پیدائش: 7 دسمبر 967ء — وفات: 12 جنوری 1049ء) جنہیں شیخ ابو سعید ابوالخیر کے نام سے جانا جاتا ہے دسویں صدی عیسوی کے مشہور ایرانی عالم اور شاعر اور تصوف کی مشہور کتاب اسرارِ توحید کے مصنف ہیں یہ صوفیاء میں بہت نمایاں اور خاص مقام رکھتے ہیں اور ان کا تصوف اور شاعری سے بہت گہرا تعلق ہے۔
تعلیم و تربیت
بچپن میں انہوں نے ابو محمد عنازی سے قرآن پڑھنا سیکھا اور پھر اپنے والد کے مشورے پر اپنے عہد کے مشہور مفتی اور مصنف استاد ابو سعید انازی سے لغت اور ادب کی تعلیم حاصل کی۔
اس کے بعد انہوں نے مرو اور سرخس میں کئی سال تک فقہ اور حدیث کی تعلیم حاصل کی پھر کسی مجبوری کے تحت انہوں نے اپنی تعلیم ترک کر دی اور صوفیاء کے گروہ میں شامل ہو گئے۔
شاعری سے شغف
فارسی شاعری میں انہیں مولوی اور عطار کا ہم پلہ بتایا گیا ہے، ان کے بہت سارے اشعار و رباعیات عوام و خواص میں معروف ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے یہ سبھی اشعار دوسرے شعراء کے ہیں اس حقیقت کا اعتراف خود ان کے نسلی احفاد محمد بن منور بن ابی سعید اور روح لطف اللہ نے ان کے ملفوظات و ارشادات پر مشتمل کتابوں میں کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دادا جان نے اپنی زندگی میں صرف تین اشعار لکھے ہیں رہے وہ اشعار جو مجالس میں پڑھا کرتے تھے وہ ان کے بزرگوں کے ہیں۔
تصوف
جہاں تک بات ہے صوفیت کی تو اس میدان میں وہ حلاج، بایزید بسطامی اور ابوالحسن خرقانی جیسے اعلی درجے کے مفکرین میں شمار ہوتے ہیں۔ بچپن سے ہی ان کی ذہانت اور قابلیت اہل علم سے پوشیدہ و مخفی نہیں ہے۔
شیخ ابو الفضل سرخسی اور ابوالعباس قصاب آملی سے تصوف حاصل کرنے کے بعد شیخ ابو سعید اپنے اصل وطن واپس آئے اور سات سال تک قیام کیا پھر 40 سال کی عمر میں نیشابور چلے گئے۔
شیخ ابو سعید ابوالخیر نے اپنی پوری زندگی اپنے شاگردوں کی تربیت میں گزار دی۔ ان کے پوتے محمد بن منور نے 599ھ میں "اسرار توحید” کے نام سے ایک کتاب ترتیب دی۔ اس کتاب میں شیخ کی زندگی اور حالات کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔
ابو سعید مشرقی ثقافت میں سقراط سے ملتے جلتے ہیں اگرچہ انہوں نے صوفیانہ تعلیمات کے مجموعہ میں کوئی الگ کارنامہ نہیں چھوڑا اور نہ ہی کوئی اضافہ کیا لیکن ان کے کلام پر مشتمل کئی کتابیں دوسروں نے لکھی ہیں اور دو تین اہم مفید خطوط جو انہوں نے اپنے زمانے کے ایک مشہور فلسفی ابن سینا کو لکھے تھے وہ بھی موجود ہیں۔
اس حقیقت کے باوجود کہ انھوں نے صوفی تعلیمات پر کتابیں صورت میں کوئی اہم کام نہیں کیا لیکن شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوسعید کے ذہن میں ایک صوفیانہ عالمی نظریہ ایک مکمل اور منظم شکل میں موجود ہے۔
آثار
ابو سعید کے ملفوظات اور ارشادات پر مشتمل جو کتابیں مرتب کی گئی ہیں وہ یہ ہیں:
اسرار التوحید
یہ کتاب شیخ کے پوتے محمد بن منور بن ابی سعد بن ابی ظاہر بن ابی سعید کی تحریر کردہ ہے، جس میں انہوں نے شیخ کے ملفوظات و ارشادات کو جمع کیا ہے۔
رساله حالات و سخنان شیخ ابوسعید
یہ شیخ ابو سعید کے حالات و اقوال پر مشتمل ایکقالہ نما کتا ہے جسے ان کے پوتے روح لطف اللہ نے مرتب کیا ہے۔
سخنان منظوم ابوسعید
یہ ان اشعار کا مجموعہ ہے جنہیں ابو سعید محفلوں اور مجالسِ پند میں پڑھا کرتے تھے، ان میں تین اشعار کے علاوہ سب کے سب ان کے اساتذہ اور بزرگوں کے ہیں۔
نمونۂ کلام
گفتار نکو دارم و کردارم نیست
از گفت نکوئے بے عمل عارم نیست
دشوار بُوَد کردن و گفتن آسان
آساں بسیار و ہیچ دشوارم نیست
"میری باتیں تو بہت نیک اور اچھی ہیں لیکن میرا کردار ایسا نہیں ہے، اور اِن بے عمل خالی اچھی باتوں پر مجھے کوئی عار کوئی شرم بھی نہیں ہے، کچھ کر کے دکھانا مشکل ہوتا ہے جب کہ بس باتیں کرنا آسان ہے، میرے لئے آسان چیزیں تو بہت سی ہیں اور کچھ بھی مشکل نہیں ہے”