مالک میرے عطا کر مجھ کو وہ زندگانی
مسرور جس میں دل ہو چہرے پہ شادمانی
رنج و الم سے کٹ کر خوشیوں کی انجمن میں
چمکوں میں مثل انجم وہ رات دے سہانی
یہ کائنات ارضی محوثنا ہے یارب
سب کی زباں پہ یارب ترا ذکر جاودانی
رحمت کی تیرے مولا ہے انتہا نہ کوئی
پھیلی ہوئی ہے ہر سو یا رب تری نشانی
حرکت سے باز رہ کر ہو جائیں گے فنا سب
یہ کہہ رہی مسلسل دریاؤں کی روانی
ماحول ہے مکدر شادابیاں ہیں عنقا
نفرت کو دھونے والا نازل تو کر دے پانی
ہم بھول جائیں جس سے ماضی کی تلخیوں کو
رحمت سے اپنی ہم کو دے دے وہ کامرانی
چڑیاں چہک چہک کر پیغام دے رہی ہیں
انسان تو بھی کر لے یہ ذکر پھر زبانی
ہر چیز کو فنا ہے ہر شے ہے آنی جانی
قائم ازل سے تو ہے تیری ذات جاودانی
□□□□