فرمان رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ و سلم دیکھیں اور اپنے گردونواح کا سرسری جائزہ بھی لیں
دب الیکم داء الأمم قبلكم :الحسد والبغضاء، هي الحالقة، لا اقول تحلق الشعر ولكن تحلق الدين
تمہاری طرف تم سے پہلے امتوں کی بیماری چل نکلی ہے اور وہ حسد اور بغض ہے، یہ بیماری ایسی ہے جو بالکل صفایا کردیتی ہے، میں نہیں کہتا کہ بالوں کا صفایا کرتی ہے بلکہ دین کا صفایا کردیتی ہے،
تفوق اور برتری کی جنگ اندرون خانہ سے عالمی سطح تک پھیلی ہوئی ہےہر طاقتور کمزور پر چڑھ دوڑنے کے فراق میں ہے، ان سب کے پیچھے حدیث میں مذکور خرابیاں ہی ہیں
منبر ومحراب اور مدارس وجامعات’ جہاں سے ان خرابیوں کی بیخ کنی کی جانی چاہیے تھی وہ سب اسکی زد میں آگئے ہیں۔
بعض صاحب جبہ و دستار سر منبر جو لفظوں کے محل تعمیر کرتے ہیں علاج غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں ان کی بات ہی کیا کرنا ان کے لئے سات گناہ بھی معاف اللہ خیر کرے!
اب سادہ دل بندے جائیں تو جائیں کہاں؟ ابھی تک سلطان کی عیاری سے بچنے کی کوششیں کرتے تھے اب درویش کی عیاری نے تو آوے کا آوا ہی بگاڑ دیا ہے۔
تعجب اور افسوس کا بحر زخار یہ دیکھ کرمزید طغیانی کی صورت اختیار کرلیتا کہ نفاق کی مذمت کتاب وسنت کی روشنی میں بیان کرنے والے بے خوف وخطر نفاق عملی کا ارتکاب کرکے اس پر حکمت ودانائی کی ملمع سازی کرتے ہیں
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے نمناک
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ
حکمت ودانائی یقیناً مومن کی متاع گمشدہ ہے لیکن تملق اور سفلی وسطحی حرکتوں کو یہ نام دینا اسکی توھین ہے. کسی کو منزل مقصود پر پہنچانا یا خود اپنی محنت اور جانفشانیوں سے ترقی کے منازل طے کرنا اچھا ہے لیکن کسی حقدار کو گراکر یا اسکے خلاف لگائی بجھائی کرکے ماحول کو اس قدر مکدر بنا دینا کہ شریف الطبع شخص کا دم گھٹنے لگے انسانیت کی سطح سے اتر کرحیوانیت کا روپ دھارن کرنا ہے۔
بس ایک ہی دیا روشن تھا ساری بستی میں
ہوا اندھیرے لگائی بجھائی کرنے لگے
ساغر اعظمی
ہر جگہ اور ہر میدان میں بہت سارے ایسے اشخاص ہوتے ہیں جو سطور بالا میں ذکر کردہ بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اور اس بیماری کو ہر جگہ پھیلانے کی مذموم کوشش کو ترقی کا معراج سمجھتے ہیں اور نوبت بایں جا رسید کہ مستحقین کو اسکے واجبی حق سے محروم کروانا انکا ہنر ٹھہرتا ہے۔
جب سے بونے مری بستی میں بسے ہیں آکر
روز جھگڑے قد وقامت کے لیے ہوتے ہیں
ساغر اعظمی
دراصل ایسے لوگ کسی بھی عہدے یا منصب پر فائز ہوجائیں لیکن اخلاق اور کردار میں بونے ہی ہوتے ہیں ایسے لوگوں سے صحت مند معاشرہ کی تشکیل اور خوشگوار ماحول کے تعمیر کی توقع عبث اور فضول ہے اس طرح کی اوچھی حرکتیں کرنے والے عارضی طور کچھ نام ونمود تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن انجام کار ذلت اور رسوائی ہی ہوتی ہے۔
تمام شعبہاۓ حیات اور تمام میادین عمل میں اس طرح اوچھی حرکتیں کرنے والے سیاہ بخت مل جائیں گے جن کا کام ہی ہوتا ہے لگائی بجھائی اور نفرت کے شعلوں کو ہوا دینا دراصل ایسے لوگ ذہنی وقلبی مریض ہوتے ہیں ایسے بیمار صفت افراد سے خیر کی توقع عبث ہے۔
اللہ نے بدن انسانی میں گوشت کا ایک ایسا ٹکڑا رکھا ہے جو تمام اعضا کا رئيس وزعیم ہے جس طرح قوم کے سردار اور سپہ سالار کی چھاپ اسے کے ماتحتوں کے اعمال و کردار پر ہوتی ہے اسی طرح دل جو بدن کا سب سے اہم حصہ ہے اسکی چھاپ اعضائے بدن پر لازمی ہوتی ہے۔
اب اگر کسی کا دل بیمار ہو تو اس بیماری کے مضر اثرات سے گردش پیش کے لوگوں کا بچنا نا ممکن ومحال ہوتا ہے اسی لئے حدیث میں اس شخص کو سبــ سے افضل ومعتبر قرار دیا گیا جس کا دل اخلاقی آلائشوں سے پاک و صاف ہو اور جس دل سے بغض وحسد کی چنگاری اور ظلم وستم کے شرارے نہ پھوٹتے ہوں۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا:
ای الناس افضل قال کل مخموم القلب وصدوق اللسان
صحابہ نے کہا صدوق اللسان تو ہم جانتے ہیں مخموم القلب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا
ھوالتقی النقی لا اثم فیہ ولا بغی ولا غل وَلا حسد۔
وہ دل جو اللہ سے ڈرنے والا اور آلائشوں سے مبرا ہو جس میں گناہ اور ظلم کے لئے جگہ نہ ہو اور جو بغض وحسد سے دور ہو آج معاشرہ کو اندر سے جو چیزیں کھوکھلا کررہی ہیں اور اسکی تعمیر وترقی میں جو سد راہ ہیں ان میں مذکورہ بیماریاں سر فہرست ہیں معاشرہ جتنی جلدی ان کا علاج ڈھونڈ لے اسی قدر اسکے لئے بہتر ہے۔اسکے برعکس بتدریج قعر عمیق میں گرنے سے اسے کوئی روک نہیں سکتا۔
آج ہر طرف نفرت کی گرم بازاری, ظلم وجور کی ستم رانی اور سموم کفر کے سیاہ جھونکوں نے انسانیت کو مرجھا کر اس مقام پر لا کھڑا کردیا جہاں ہر مضبوط اور طاقتور کمزور کو تہہ تیغ کرنے سے دریغ نہیں کررہا ہے۔
عالمی نقشے پر اسرائیل دوسالوں سے برابر اہل غزہ کو تہہ تیغ کررہا ہے اس دوران اہل غزہ روتے رہے بلبلاتے رہے چیختے رہے چلاتے رہے غزہ کے محلے کے محلے تباہ ہوگئے لاکھوں بچے یتیم اور ہزاروں عورتیں بیوگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئیں لیکن دنیا کے کانوں پر جوں نہیں رینگتا اب بعد از خرابی بسیار اسرائیل کو سبق سکھانے کا آغاز ہوچکا ہے لیکن اس دوران دل دہلانے والی اور لرزہ براندام کرنےوالی ظلم وستم کی وہ کون سی داستان ہے جو اہل غزہ پر رقم نہ کی گئی ہو۔
ابھی گذشتہ ہفتہ اپنے ملک کی راجدھانی سے قریب شہرعلی گڑھ میں گوشت کے تاجروں کوگئو کشی کے الزام میں جس بے دردی اور سفاکانہ طریقے سے زدوکوب کیا گیا ان کے لہو لہان جسم کو دیکھ کر کوئی بھی انسان اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتا ان چاروں کے جسم کا کوئی ایسا حصہ نہیں جسے لوہے کی راڈوں اور دیگر ہتھیاروں سے زخمی نہ کیا گیا ہو ابھی تک آدمی قید زبون شہر یاری ہے قیامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے معاشرے کا وہ طبقہ جو خودکو مہذب, شائستہ اور سنجیدہ کہتا ہے اسکی رحم دلی کا یہ عالم ہے کہ وہ کمزورں اور محکوم طبقہ کو بلا مطلب اپنے گروپیش دیکھنا گوارا نہیں کرتا جبکہ یہی محکوم طبقہ ہیں جو ان کا بوجھ اپنے سر اٹھا کر انکی ضروریات کی تکمیل کرتا ہے اسکے باوجود ان سے نفرت کرنا ‘انکو کمتر اور حقیر سمجھ کر ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھنا اس بات کا غماز ہے کہ ایسے لوگوں کا دل سیاہ ہوچکا ہے اور وہ صف وحوش وکلاب میں کھڑا ہونا اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہیں ان دزدان انسانیت کو جتنی سرعت سے معاشرہ اپنے مابین سے بے دخل کرے اتنا اسکے لئے کارآمد ہے۔