مذہبی گروہ کا کہنا ہے کہ تہوار اور میلے ہر قوم کی اپنی مذہبی اور ثقافتی اقدار و نظریات کے ترجمان ہوتے ہیں اور اسلام چونکہ ایک الگ مستقل الہامی دین ہے اس لیے اس کی اپنی روایات و اقدار ہیں جن کی نمائندگی کے لیے خود اسلام کے پیغمبر حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے دو تہوار (عید الفطر،عید الاضحی) مقرر کر دیے ہیں، اور ان تہواروں پر خوشی تفریح اور اظہار جذبات کی حدود بھی عملی طور پر طے کر دی ہیں جب کہ اس سے پہلے دور جاہلیت میں مروج دیگر تہواروں اور میلوں پر یکسر خط تنسیخ پھیر دیا۔چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دور جاہلیت میں مدینہ کے لوگ سال میں دو تہوار منایا کرتے تھے۔جب نبی صلّی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو صحابہ کرام سے فرمایا:
إن الله قد ابدلكم بهما خيرا منهما:يوم الفطر ويوم الاضحى (صحيح سنن نسائى ١٤٦٥)
اللہ تعالی نے تمہیں ان دونوں تہواروں کے بدلے میں دو اور تہوار عطا کر دئیے ہیں جو ان سے بہتر ہیں اور وہ ہیں،عید الفطر اور عید الاضحٰی
مذہب اسلام میں ان دو عیدوں کے علاوہ اور کوئی عید نہیں ہے۔
لہٰذا اب کسی نئے یا پہلے سے مروج غیر مسلموں کے تہوار کو اسلام میں داخل کرنا یا ازخود کوئی تہوار مقرر کر لینا نہ صرف نا جائز بلکہ دین میں اضافہ(بدعت جاری کرنے) کے مترادف ہے۔
لیکن موجودہ دور میں مسلمانوں نے نہ صرف دین میں نئی عیدوں کا ایجاد کیا بلکہ غیر مسلموں کے تہواروں سے متأثر ہو کر ان کے ساتھ تہواروں میں برضا و رغبت شریک ہونے لگے۔انہیں تہواروں میں سے ایک تہوار ہے "ویلنٹائن ڈے” یہ تہوار 14 فروری کو نہایت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، اور اس تہوار کے دن محبوب اپنی محبوبہ کو تحائف دیتا ہے اور اس کے علاوہ محبوب ہر وہ کام کرتا ہے جسے شریعت میں بہت بڑا جرم مانا جاتا ہے، مطلب یہ دن فچاشی کا دن ہے۔
ویلیںٹائن ڈے تاریخ کے آئینے میں
ہر تہوار چاہے اس کا تعلق مذہب سے ہو یا ثقافت سے، اس کا ایک تاریخی پس منظر ہوتا ہے۔
ویلیںٹائن ڈے بھی ایک کھوکھلی تاریخ رکھتا ہے مگر اس تاریخ سے قطع نظر یہ "دن” اب مغرب میں محبت کے اظہار، بے قرار دلوں کے اور مچلتے ہوئے جذبوں کے لیے گردو غبار کا دن بن گیا ہے۔
ویلیںٹائن ڈے کے موقع پر اخبارات میں نوجوانوں، بوڑھوں، بچوں کے جذبات شائع ہوتے ہیں،ان پیغامات میں ہماری اقدار،بدلتے ہوئے معاشرتی رویے، فرد کی بیچارگی رسم و رواج کے نام پر فطری جذبات کچلنے کی روایت، زندگی کو زندگی کے بجائے قید خانے میں تبدیل کرنے کا عمل،قربتوں، فاصلوں، ملنے اور بچھڑنے، بچھڑ کر ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے کے کہانی، ٹوٹے ہوئے دلوں کے نغمے، روتی ہوئی آنکھوں کے آنسو، غرض دنیا بھر کے سلسلے ان پیغامات میں موجزن ہوتے ہیں۔
ان پیغامات پر خوشی یا مشتعل ہونے کے بجائے ہمیں اپنی طرز حیات، معاشرے اور معاشرتی رویوں کا بغور جائزہ لینا ہوگا۔
بے شرمی کی تاریخ
اس کے تعلق سے جو روایت سامنے آتی ہے وہ صرف انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کی ہے جس میں لکھا ہے:
ویلیںٹائن ڈے کے بارے میں سب سے پہلی روایت روم میں قبل مسیح کے دور سے ملتی ہے۔جب روم کے بت پرست مشرکین ۱۵ فروری کو جشن مناتے تھے جو Feast of the wolf یا Feas of lupercaoius کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ جشن وہ اپنے دیوی دیوتاؤں کے اعزاز میں انھیں خوش کرنے کے لیے مناتے تھے۔ ان دیوی دیوتاؤں میں Pan (فطرت کا دیوتا) Februata ( عورتوں اور شادی کی دیوی) Pastor gol Lupercalious( رومی دیوتا جس کے کئی دیویوں کے ساتھ عشق و محبّت کے تعلقات تھے) شامل ہیں۔ اس موقع پر ایک برتن میں تمام نوجوان لڑکوں کے نام لکھ کر ڈالے جاتے تھے جس میں سے تمام لڑکے باری باری ایک پرچی اٹھاتے اور اس طرح قرعہ اندازی کے ذریعہ منتخب ہونے والی لڑکی اس لڑکے کی ایک دن ایک سال یا تمام عمر کی ساتھی (sexual companion) قرار پاتی۔یہ دونوں محبت کے اظہار کے طور پر آپس میں تحفے تحائف کا تبادلہ کرتے اور بعض اوقات شادی بھی کر لیتے تھے۔ جب روم میں عیسائیت منظر عام پر آئی تو عیسائیوں نے اس جشن کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی۔اس مقصد کے لیے 14 فروری کی تاریخ کا انتخاب کیا گیا،جس دن رومیوں نے ایک عیسائی پادری "ویلنٹائن” کو سزائے موت دی تھی۔ واقعہ یوں ہے کہ رومی بادشاہ Claudius کے عہد میں روم کی سرزمین مسلسل کشت و خون کی وجہ سے جنگوں کا مرکز بنی رہی اور یہ عالم ہو گیا کہ ایک وقت میں Claudius کو اپنی فوج کے لیے مردوں کی تعداد بہت کم نظر آئی،جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ روم کے نوجوان اپنی بیویوں کو چھوڑ کر پردیش لڑنے کے لیے جانا پسند نہیں کرتے تھے۔ بادشاہ نے اس کا حل یہ نکالا کہ ایک خاص عرصے کے لیے شادیوں پر پابندی عائد کر دی تاکہ نوجوانوں کو فوج میں آنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔اس موقع پر ایک پادری "سینٹ ویلیںٹائن” نے خفیہ طور پر نوجوانوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا۔جب یہ راز فاش ہوا تو بادشاہ Claudius کے حکم پر سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال کر سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا۔جیل میں یہ پادری جیلر کی بیٹی پر فریفتہ ہوگیا جو روزانہ اس سے ملنے آیا کرتی تھی۔لیکن یہ ایک راز تھا کیونکہ عیسائی قوانین کے مطابق پادریوں اور راہبوں کے لیے شادی یا محبت ممنوع تھا۔اس کے باوجود عیسائی ویلنٹائن کی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ جب رومی بادشاہ نے اسے پیشکش کی کہ اگر وہ عیسائیت کو چھوڑ کر رومی خداؤں کی عبادت کر لے تو اسے معاف کر دیا جائے گا۔ بادشاہ اسے اپنی قربت دےگا اور اپنی بیٹی سے اس کی شادی بھی کر دے گا لیکن اس نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں اسے رومی جشن سے ایک دن پہلے 14 فروری 270ء کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
مرنے سے پہلے اس نے جیلر کی بیٹی کو ایک خط لکھا جس کا خاتمہ From your velentine کے الفاظ سے کیا۔
ویلنٹائن کے نام سے کم ازکم تین مختلف پادری ہیں اور تمام کی موت کا دن 14 فروری ہے۔ 496ء میں یورپ Gelasius نے سرکاری طورپر 15 فروری کے رومی فیسٹول Lupercalia کو بدل کر 14 فروری کو سینٹ ویلیںٹائن ڈے منانے کا اعلان کیا اور لاٹری کے ذریعہ لڑکی کے انتخاب کی رومی رسم میں یہ رد و بدل کیا کہ پرچی میں نوجوان لڑکی کی نام کے بجائے عیسائی پادریوں کے نام لکھے جاتے اور تمام مرد اور عورتیں ایک ایک پرچی اٹھاتے۔
اس کا مقصد یہ تھا کہ ہر مرد یا عورت جس عیسائی پادری کے نام کا کی پرچی اٹھایا اسے اگلے سال تک اسی پادری کے طور طریقوں کو اپنانا ہوتا تھا۔(ویلنٹائن ڈے تاریخ حقائق اور اسلام کی نظر میں: عبد الوارث ساجد/٣٥)
ایک عیسائی پادری”ویلنٹائن”کے حوالے سے منایا جانے والا یہ دن اس "یوم” کی تاریخ تہوار رسوم و رواج، تحریف در تحریف کے عمل سے گزر کر تاریخ میں ایسی شرمناک شکل اختیار کر چکا ہے جس کی عملی، عقلی،فکری بنیادیں ابھی تک مغرب تلاش کر رہا ہے۔
بر صغیر میں یہ تہوار مختلف نام نہاد مفکروں اور اباحیت پسندوں کے ذریعے اپنا پاؤں پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا بھر پور طریقے سے اس کی تشہیر کر رہا ہے۔ سینٹ ویلیںٹائن ڈے کے بارے میں فضول دلائل کے ذریعے مسلمانوں کو قائل کرنی کی کوشش کو جا رہی ہے کہ اس تہوار کو منانے میں دینی اعتبار سے کوئی حرج یا برائی نہیں ہے۔ یقیناً آزاد خیال لوگوں کے لیے اس تہوار میں اعتراض والی کوئی چیز نہیں ہے۔ لیکن وہ اس حقیقت سے کیوں آنکھیں چراتے ہیں کہ اگر اس تہوار میں کوئی برائی نہیں تھی تو یورپ کے بعض ملکوں نے اس پر کیوں پابندی عائد کی تھی۔ کیا یورپ و امریکہ میں عیسائی قوم بھی اسی شان و شوکت سے مسلمانوں کا کوئی تہوار مناتی ہے؟ لازماً اس کا جواب نہیں ہے۔
ہندؤوں نے سینٹ ویلیںٹائن ڈے کا تہوار منانے کو اپنی ثقافت پر حملہ قرار دیا۔ سوچیے! ایک غیر مسلم دوسرے غیر مسلم کے تہوار کو اپنی ثقافت کے لیے خطرہ قرار دے رہا ہے، اور ایک ہم ہیں کہ والہانہ انداز میں غیر مذہب کے تہوار کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔
تاریخ "ویلنٹائن” کو محبت کا جذبہ رکھنے والا ایک بزرگ کہے یا بدکردار انسان، یہ ایک الگ بحث ہے مگر یہ بات اٹل حقیقت ہے کہ "ویلنٹائن ڈے”بے حیائی کو فروغ دینے کا باعث ہے۔ اس کا مقصد صرف اور صرف عورت اور مرد کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے اور جنسی بے راہ روی کو محبت کا لبادہ پہنانا ہے۔ ایک مسلم معاشرہ اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتا کہ ایک مرد غیر عورت کو یا ایک عورت کسی غیر مرد کو پھول پیش کرے اور اس کے ساتھ اخلاقیات کی حدود عبور کرے۔ چاکلیٹ، پھولوں کے تحفوں کے ساتھ ساتھ لو اسٹوریز پر مشتمل کتب اور فحش فلمیں ایک دوسرے کو پیش کریں۔
یہ رسومات اہل مغرب کے لیے تو ٹھیک ہے مگر ہمارے معاشرے کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔
اللہ تعالٰی ہم تمام لوگوں کو اس پر خطر فتنہ سے بچائے۔ آمین
ازقلم
متعلم صفا شریعت کالج ڈومریا گنج