قصیدہ کی تعریف —- اقسام، اجزائے ترکیبی اور آغاز و ارتقاء

 قصیدہ کی ہیئت

”قصیدہ“ کے لغوی معنی قصد و ارادہ کے ہیں۔ اصطلاح میں  اُس نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی کی مدح یعنی تعریف کی جائے یا کسی کی ہجو یعنی بُرائی کی جائے۔

غزل کی طرح قصیدے کا پہلا شعر بھی مطلع کہلاتا ہے اور اس کے دونوں مصرعوں میں قافیہ وہ ردیف ہوتا ہے بعض قصیدے بغیر ردیف کے ہوتے ہیں، باقی اشعار کے دوسرے مصرعوں میں قافیہ وہ ردیف یا صرف قافیہ ہوتا ہے .غزل ہی کی طرح قصیدے میں بھی مقطع ہوتا ہے لیکن قصیدے میں کچھ چیزیں غزل سے مختلف ہوتی ہیں مثلاً درمیاں میں کئ مطلعے ہو سکتے ہیں اور مقطع ضروری نہیں کہ قصیدے کا آخری شعر ہو۔

قصیدے کی اقسا م

قصیدے کی دو قسمیں ہوتی ہیں

  • خطابی قصیدہ
  • تمہيدی قصیدہ

خطابی قصیدہ

وہ ہے جس میں شاعر تمہید باندھے بغیر مدعا بیان کر دے .مطلب یہ کہ اگر قصیدہ مدحیہ ہے تو شاعر ممدوح کو خطاب کرے اور اس کے اُوصآف کو بیان کرنا شروع کر دے .ہجویہ ہے تو براہ راست اس کی مذمّت کرنے لگے تھے .اصل مدعا وعظ وہ نصیحت ہے تو بلا کسی تمہید کے آغاز ہو جائے

تمہیدی قصیدہ

وہ ہے جس میں اصل مدعا سے پہلے تمہید باندھی جائے پھر مدعا بیان کیا جائے .یہ تمہید تشبیب یا نسیب کہلاتی ہے اور بہار و خزاں جس میں عشق اور پند و نصیحت کے مضامین پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ اسی کی رعایت سے قصیدے کو بہاریہ .عشقیہ اور واعظیہ کہا جا سکتا ہے۔

قصیدے کے اجزائے ترکیبی

نہ صرف اردو بلکہ عربی اور فارسی میں بھی تمہیدیہ قصائد کا رواج رہا ہے، یعنی قصیدہ نگار مدح یا ہجو کرنے سے پہلے تمہید باندھتا ہے .پھر اصل موضوع پر آتا ہے .تمہیدیہ قصیدے کے عموماً پانچ اجزاء ہوتے ہیں :

  1. تشبیب
  2. گریز 
  3. مدح
  4. مدّعا 
  5. دعا

ذیل میں ان پانچوں اجزاء کی وضاحت کی جاتی ہے .

1: تشبیب

قصیدے کی تمہید کو تشبیب یا نسیب کہتے ہیں .تشبیب کے موضوعات مختلف ہو سکتے ہیں .اس میں شباب و شراب کا ذکر کیا جا سکتا ہے، بہار کی منظر کشی کی جا سکتی ہے، تشبیب میں خود ستائی یعنی اپنے اوصاف بیان کرنے کی بھی گنجائش ہے .یہ بھی ممکن ہے کہ تشبیب پند و نصائح پر مشتمل ہو یا اس میں بے ثباتیِ دنیا کا بیان ہو غرض یہ کہ تشبیب کے موضوعات لامحدود ہیں۔

تشبیب کو قصیدے کا سب سے اہم حصّہ خیال کیا جاتا ہے .اس لئیے شاعروں نے اس پر بہت محنت کی ہے۔

غالبؔ کو اپنی تشبیب پر بڑا ناز تھا انہوں نے بہادر شاہ ظفر کی مدح میں ایک قصیدہ لکھا ہے جس کی تشبیب بہت دلکش ہے، پہلی تاریخ کا چاند انھیں ایسا لگتا ہے جیسے کوئ شخص تسلیم بجا لانے کو جھکا ہوا ہے، شاعر سوال کرتا ہے کہ اے مہ نو یہ بتا کہ تو جھک کر کسے سلام کر رہا ہے

ہاں  مہ  نو  ،   سنیں  ہم  اسکا   نام
جس کو تو جھک کے کر رہا ہے سلام

2: گریز

تشبیب کے بعد شاعر مدح کی طرف قدم بڑھا تا ہے۔ وہ براہِ راست مدح نہیں کرتا بلکہ بات سے بات پیدا کر کے مدح کی طرف آتا ہے،  اس بات سے بات پیدا کرنے کو گریز کہتے ہیں، غالب کے قصیدے سے تشبیب کی جو مثال او پر پیش کی جا چکی اس میں شاعر پوچھتا ہے کہ اے مہ نو آخر تو کس کو جھک کے سلام کر رہا ہے، جواب نہیں ملتا تو کہتا ہے کہ تو اس کا نام نہیں جانتا تو لے میں بتاتا ہوں .وہ تاجدار بہادر شاہ ہے

تو نہیں جانتا تو مجھ سے سن
نام شاہنشۂ بلند مقام

قبلۂ جان و دل بہادر شاہ
مظہر ذولجلال والاکرام

یہ گریز کی مثال ہوئی .

3: مدح

.اس کے بعد شاعر اپنے ممدوح کی تعریف کرتا ہے اور اس میں خوب مبالغہ سے کام لیتا ہے،  یہی قصیدے کی خوبی ہے۔ قصیدے میں خاص طور پر مدح کے حصّے میں شاعر پر شکوہ الفاظ کا استعمال کرتا ہے اس سے مدح میں زور پیدا ہوتا ہے مدح مثال ملاحظہ ہو:

شہسوارِطریقۂ انصاف
نو بہار حدیقۂ اسلام

جس کا ہر فعل صورت اعجاز
جس کا ہر قول معنیء الہام

4: مدعا

قصیدے کا چوتھا جز مدعا یا عرض مطلب ہے، یعنی مدح گوئی کے بعد قصيده نگار اپنا مدعا بیان کرتا ہے جیسے غالب نے ایک قطعے میں اپنی مالی مشکلات بیان کرنے کے بعد کہا ہے:

میری تنخوا کیجئے ماہ بہ ماہ
تا نہ ہو مجھ کو زندگی دشوار

لیکن یہ قصیدے کا لازمی جز نہیں یعنی یہ ضروری نہیں کہ ہر قصیدے میں شاعر اپنا مدعا بیان کرے۔

5: دُعا

قصیدے کا آخری جز دعا ہے یعنی شاعر اپنے ممدوح کو درازی عمر یا بلندی اقبال وغیرہ کی دعا دے کر قصیدہ ختم کر دیتا ہے، جیسے غالب نے اپنے قصیدے میں بہادر شاہ کو دعا دی کہ تمہاری سلطنت قیامت تک باقی رہے:

ہے ازل سے روانیء آغاز
ہو ابد تک رسائیء انجام

قصیدے کا آغاز و ارتقاء

قصیدے نے سر زمیں عرب میں جنم لیا اور وہاں بے حد مقبول ہوا لیکن قدیم شعراۓ عرب نے قصیدہ گوئی کو جھوٹی خوشامد اور کار بر آری یعنی اپنا کام نکالنے اور انعام پانے کے لیے استعمال نہیں کیا .عرب شعراء قصیدے میں اپنے قبیلے ۔اپنے گاؤں .کسی بزرگ یا اپنے محبوب کی تعریف بغیر کسی غرض کے صدق دل سے کرتے ہیں .

اس وقت قصیدے میں جھوٹ اور مبالغے کا بھی گزر نہ تھا .اس لئے قصیدہ نگار جو کچھ لکھتا ہے .سننے اور پڑھنے والے اس پر یقین کرتے تھے .لیکن آگے چل کر یہ صورت نہ رہی اور شاعر اپنے حصول مطلب کے لیے استعمال کرنے لگے. عرب سے یہ صنف ایران پوھنچی .وہاں کی مخصوص تہذیب نے اسے متاثر کیا نتیجہ یہ کہ قصیدے میں تصنعے ۔ بناوٹ ۔ مبالغہ آرائ اور جھوٹ کا دور دور ہو گیا فارسی کے بلند پایا شاعروں نے قصیدے کی طرف توجہ کی اور اسے بہت فروغ دیا لیکن قصیدہ اب مصلحت کا شکار ہو چکا تھا اور اسے کام نکالنے کے لئے استعمال کیا جانے لگا تھا .

اردو میں قصیدہ نگاری کی شروعات دکن سے ہوئی سلطان محمّد قلی قطب شاہ نے ١٦١١ ء کے قریب قصيدے لکھے .ان قصائد کی زبان کو دکنی اردو کہنا بجا ہے کیوں کہ دکنی الفاظ کی کثرت ہے .دکن کے قصیدہ گو شعراء میں نصرتیؔ کا نام بھی اہم ہے اس کے بعد شمالی ہند میں سودا نے قصیدہ گوئ میں بڑا نام ادا کیا اس صنف سے انکی طبیعیت کو خاص مناسبت تھی .

انھون نے مدحیہ و ہجویہ قصائد بھی لکھے اور شہر آشوب بھی کہے۔ قصیدہ نگاری کے لیے جو چیزیں ضروری ہیں مثلاً زور بیان .شوکت الفاظ مضمون نیز پر کششت دلچسپ گریز ۔پر جوش اور مبالغہ آمیز مدح وہ سب سوداؔ کے قصیدوں میں موجود ہے. لکھنو میں مصحفیؔ و انشاءؔ نے بھی بہت سے قصیدے لکھے لیکن عہد سوداؔ کے بعد قصیدہ نگاری کا دوسرا اہم نام مومنؔ ذوقؔ. اور غالبؔ کا ہے .مومن کسی دربار سے وابستہ نہ تھے نہ انعام و اکرام کے طلبگار تھے لیکن اظہارِ تشکر کے طور پر انھوں نے بھی قصیدے کہے .

غالب نے کئی قصیدے لکھے اور اس میدان میں بھی اپنا راستہ سب سے الگ نکالا .قصيده نگاری میں ان کی توجہ مدح سے زیادہ تشبیب پر رہتی ہے .غالب کے قصیدے اپنا انفرادی رنگ رکھتے ہیں .لیکن اس عہد کے سب سے اہم قصيده گو ذوقؔ ہیں .ان کے قصیدے گہرا علمی رنگ لئیے ہوئے ہیں اور ان میں اصطلاحات کا کثرت سے استعمال ہوا ہے .

منیرؔ شکوہ آبادی .امیرؔ مینائی اور جلالؔ لکھنوی لکھنو اسکول سے تعلق رکھتے ہیں .قصیدہ گوئی میں انہیں اعلی مقام حاصل ہے نعتیہ قصیدہ گوئی میں محسنؔ کاکوری نے قابل رشک مقام حاصل کیا .قصيدے اس کے بعد بھی کہے گیۓ لیکن پھر کوئی ایسا قصيده نگار پیدا نہیں ہوا جس کا نام قابلِ ذکر ہو۔

اشتراک کریں