تعارف سعید سرمد کاسانی
فارسی زبان کے تقریباً تمام بزرگ شعراء نے رباعیات کو اپنا میدانِ خاص بنایا، ایک بہترین رباعی گو شاعر کی حیثیت سے خیام نیشاپوری کے بعد جس شاعر کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی وہ ہیں سعید سرمد،
سعید سرمد کی تاریخ ولادت کا درست علم نہیں ہو سکا ہے وہ ایران کے ارمنی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، مذہبی اعتبار سے یہودی یا مسیحی تھے لیکن آغاز جوانی میں مذہب اسلام کی تعلیمات اور کشش کی وجہ سے مشرف بہ اسلام یوئے، تحصیل علم کے بارے میں بھی وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اتنا ضرور ہے کہ علم وفضل میں درجہ کمال پر پہنچے ہوئے تھے اور اسلام قبول کر لینے کے بعد ان کے ہنر وکمال میں مزید اضافہ ہوا اور وہ اپنے وقت کے ایک بر گزیدہ عالم دین کی حیثیت سے متعارف تھے۔
سرمد کی ہندوستان آمد
سرمد کا آبائی پیشہ تجارت تھا، ان دنوں اکثر ایرانی سیاح تجارت کی غرض سے سندھ کے راستے ہوکر ہندوستان آتے تھے چنانچہ سرمد بھی اسی راستے سے ہندوستان پہنچے اور در بہ در کی ٹھوکریں کھاتے اور زندگی کے نشیب و فراز کے تھپیڑوں کو سہتے ہوئے شاہجہاں آباد یعنی دہلی پہنچے اور شہزادہ دارا شکوہ کی نظر التفات کے سبب عوام الناس میں خصوصی قدرو منزلت حاصل کی۔
سرمد کے قتل کے اسباب
کہتے ہیں دارا شکوہ ان کوبہت عزیز رکھتا تھا اور ان کی بیان کردہ ہر بات پر صد فی صد یقین رکھتا تھا۔ دار ا شکوہ اور سرمد کی بے پناہ قربت اور نگزیب عالمگیر کے ندیمان خاص کو ایک آنکھ نہ بھائی وہ طرح طرح کے حیلے اور بہانوں سے بادشاہ کو سرمد کی طرف سے بدظن کرنے لگے اور علما کی جانب سے ان پر کفر کے فتوے لگائے جانے لگے اوراس کا نتیجہ سرمد کی شہادت کی شکل میں نمودار ہوا۔ ان کی شہادت سے متعلق بھی تذکرہ نگاران متفق الرائے نہیں ہیں ’تذکرۃ الخیال‘ کے مولف نے ان کی شہادت کے متعلق وجہ بیان کرتے ہوئے ان کی ایک رباعی نقل کی ہے جس میں سرمد نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ آپ ﷺ افلاک پر نہیں گئے بلکہ خود افلاک آپﷺ کے سینے میں سما گیاتھا، چنانچہ کہتے ہیں :
ہر کس کہ سرحقیقتش باور شد
او پہن تر از سپہر پنہاں ور شد
ملا گوید کہ بر فلک شد احمد
سرمد گوید فلک بہ احمد در شد
’’ترجمہ: ہر وہ شخص جس نے حقیقت کی جھلک کو حاصل کر لیا ہے یعنی سچائی کو پا لیا ہے، وہ وسیع فلک سے بھی زیادہ وسیع ہو گیا یعنی اس کی نظروں میں فلک کی پہناوری ہیچ ہو گئی ہے۔ ملا یہ کہتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ افلاک پر گئے جبکہ سرمد یہ کہتا ہے کہ فلک احمد کے پاس آگیا۔‘‘
علمائے دین کے مزاج پران کا یہ خیال سخت گراں گزرا اور انہوں نے فتویٰ جاری کیا کہ سر مد کا خیال معراج جسمانی کے خلاف اور کفر کے مترادف ہے لہٰذا ایسے انسان کو دار پر چڑھا دیاجائے جبکہ صاحب ’ریاض الشعرا‘ میں ان کے قتل کی ایک وجہ یہ بھی بیان کرتے ہیں ملا قوی نام کے ایک شخص جو کہ عہد عالمگیری میں قاضی القضاۃ تھے انہیں سرمد کے پاس بھیجا گیا تاکہ وہ ان کی برہنگی کی وجہ دریافت کریں چنانچہ انہوں نے سرمد سے برہنہ رہنے کا سبب پوچھنا چاہا توسرمد نے کہا کیا کروں شیطان قوی ہے فی البدیہہ یہ رباعی پڑھی :
خوش بالای کرد ہ چنین پست مرا
چشمی بدو جام بردہ دست مرا
او در بغل من ست و من در طلبش
دردی عجبی برہنہ کردست مرا
’’ترجمہ: خوش بالائی ہی میری پستی کا سب سے بڑا سبب ہے، میں مست ہو گیا ہوں، ان نشیلی آنکھوں کے جام نے مجھے مست کر دیا ہے وہ میری بغل میں یعنی دسترس میں موجود ہے اور میں اسی کی طلب میں سرگرداں ہوں،ایک درد نے مجھ کو برہنہ کر دیا ہے۔‘‘
ملا قوی سرمد کے اس جواب سے سخت ناراض ہوئے اور ان کے قتل کا فتویٰ جاری کردیا، ان کو لباس پہننے کی تاکید کی گئی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ علماء نے بادشاہ سے کہا کہ سرمد کو کلمہ پڑھنے کے لیے کہا جائے کیونکہ سرمد کبھی لا الہ سے زیادہ کلمہ نہیں پڑھتے تھے لہٰذا جب علما نے سرمدکو کلمہ پڑھنے کو کہا تو عادت کے مطابق صرف لا الہ پڑھا اور جب پورا کلمہ پڑھنے کو کہا گیا تو سرمد نے جواب دیا کہ میں ابھی تو عالم نفی میں ہی مستغرق ہوں مرتبہ اثبات تک نہیں پہنچا ہوں اور اگر الا اللہ کہوں گا تو جھوٹ ہوگا۔ علما نے کہا اگر سرمد توبہ نہ کریں تو قتل کے مستحق ہیں اور بلا تامل قتل کا فتویٰ صادر کیا گیا لیکن سزا کا کوئی اثر نہیں پڑا انھوں نے پوری ثابت قدمی کے ساتھ خود کو موت کے حوالے کردیا۔ وہ قلعے سے قتل گاہ تک اپنی رباعیات پڑھتے ہوئے آئے۔ بعد میں اس کی یہ رباعیاں اس کی شہرت دائمی اور حیات سرمدی کا سب سے بڑا سبب بن گئیں۔ جب جلاد تلوار لے کر آگے بڑھا تو مسکرا کر خیر مقدم کیا سرمد نے موت کا استقبال اپنے اس شعر سے کیا:
عمریست کہ آوازہ منصور کہن شد
من از سر نو جلوہ دہم دار ورسن را‘‘
’’ترجمہ: ایک عمر گزر گئی یعنی طویل وقت گزر گیا قصہ منصور کہن ہو چکا ہے میں دار ورسن کو نئے سرے سے آباد کروں گا۔‘‘
سرمد کی قتل کا یہ واقعہ 1069ء میں اورنگ زیب عالم گیر کی تخت نشینی کے تقریباً تین سال بعد وقوع میں آیا ان کی قبر دہلی کی جامع کے مشرق کی جانب واقع ہے۔
سرمد کے افکار
تصوف کے بارے میں انہوں نے کئی ایک تصنیفات چھوڑ میں لیکن ان کا نظریہ تصوف کچھ ہندوانہ قسم کا تھا جو مسلمانوں کے نظریہ تصوف سے مختلف تھا، ان خیالات و تصورات کی وجہ سے ان کے یہاں الحادیت وزندیقیت کے اثرات ملتے ہیں لیکن مذہبی عقائد سے صرف نظر ان کی ادبی شان مسلم ہے، البتہ ان کے اندر یکسوئی اور سنجیدگی کی کمی ضرور تھی جس کی بنا پر انہوں نے کوئی ٹھوس علمی کام نہیں کیا ہے۔
رباعیاتِ سرمد
سرمد کی رباعیاں سادہ، سلیس اور عام فہم فارسی زبان میں ہیں ان کی یہ رباعیاں حقیقت ، معارفت اور شریعت کے اسرار و رموز کو جاننے کا بیش بہا خزینہ ہیں، ان کے یہاں دنیا کی بے ثباتی و ناپائیداری، تصوف کی لالہ کاری ودل پذیری اور کردار کی پختگی وعظمت وغیرہ جیسے موضوعات پر رباعیات ملتی ہیں ان کے بعد جتنی بھی صوفیانہ رباعیات کہی گئیں وہ سب سرمد ہی کی خوشہ چین معلوم ہوتی ہیں، رباعیات کی شکل میں موجود ان کا یہ حسین گلدستہ جس پر گردش ایام کے سرد وگرم کا کوئی اثر نہیں پڑ ا ہے یہ سرسبز وشاداب گلدستہ ہمیشہ اذہان وقلوب کو معطر ومترنم کرتا رہاہے اور کرتا رہے گا۔
اپنی رباعیوں میں سرمد نے فلسفیانہ عقائد اور خیالات کا بخوبی علم ہوتا ہے، وحدت الوجود، جبر و اختیار ، زاہدوں کی ریا کاری اور تصوف کے دیگر مسائل کو اس نے موضوع بنایا ہے،
رباعیات سرمد کے مطالعے سے جو اہم بات مشاہدے میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ رباعی گوئی میں سرمد خیام کی تقلید و پیروی کرتے نظر آتے ہیں اور اس کا اظہار انہوں نے اپنی ایک رباعی میں بھی کیا ہے کہ و ہ غزل میں حافظ اور رباعی گوئی میں خیام کے مقلد ہیں اور ان کو اپنی اس تقلید پر فخر وخوشی کا احساس ہوتا ہے لہٰذا کہتے ہیں :
بافکر و خیال کس نہ باشد کارم
در طور غزل طریق حافظ دارم
اما بہ رباعی ام مرید خیام
نہ جر عہ کش بادہ او بسیارم
’’ترجمہ: میں کسی کی فکر اور خیال سے کوئی سروکار نہیں رکھتا ہوں۔ غزل گوئی میں میں نے حافظ کو اختیار کیا ہے لیکن رباعی گوئی میں خیام کا مرید ہوں۔ میں اس فن میں خیام پر فوقیت نہیں رکھتا ہوں۔‘‘
مندرجہ بالا رباعی سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرمد نے رباعیات کے علاوہ غزلیں بھی کہی ہیں ان کی غزلوں کا کوئی مجموعہ نہیں ملتا البتہ غزلوں کے چند اشعار بعض تذکروں میں ضرور ملتے ہیں لیکن ان کی غزلوں کے ان جستہ جستہ اشعار سے ان کی غزل گوئی کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔
سرمد کے یہاں عشق حقیقی کاذکر بڑے ہی والہانہ انداز میں کیا گیا ہے کیونکہ عشق ہی وہ ہمہ گیر احساس ہے جو تمام کائنات کو جلوہ گہہ معشوق بنا دیتا ہے اور کائنات کے ہر ذرے میں جلوۂ معشوق کی کار فرمائی نظر آتی ہے گو کہ عشق کا راستہ بہت مشکل، دشوار اور پیچیدہ ہے اگر کسی کو یہ دولت میسر آجاتی ہے تو عاشق کائنات کی تمام اشیاء سے بے نیاز اور بے خبر ہو جاتا ہے اس کو کسی کی ضرور ت نہیں رہتی عشق کی دولت اس کو دنیا کی تمام نعمتوں وآسائشوں سے بے نیاز کر دیتی ہے
از منصب عشق سر فراز م کردند
و زمنت خلق بی نیازم کردند
چوں شمع دریں بزم گدازم کردند
از سوختگی محرم رازم کردند
’’ترجمہ : مجھ کو منصب عشق سے سرفراز کردیا گیااور مخلوق کی منت وسماجت کی شرمساری سے بے نیاز کر دیا گیا شمع کی طرح مجھ کو اس محفل یعنی دنیا میں پگھلایا گیااور پھر اسی سوختگی کے سبب مجھ کو محرم راز بنا دیا گیا۔‘‘
سعید سرمد نے عشق حقیقی کی کیفیات کو بڑے ہی جالب اور اثر آفرین انداز میں بیان کیا ہے سرمد کی تمام رباعیات میں عشق حقیقی کی سچی والہانہ ترجمانی ملتی ہے اس کی نظیر کسی دوسرے صوفی شاعر کے یہاں بہ مشکل ہی نظر آتی ہے۔
وہ عشق میں گزرنے والی کیفیات کو کماحقہ بیان کر نے سے تو قاصر بلکہ بے بس نظر آتے ہیں کیونکہ یہ کیفیت جس پر بھی طاری ہوتی ہے وہ چاہ کر بھی اس کو بیان نہیں کر سکتا کیونکہ عشق، عاشق کے لبوں پرمہر لگا دیتا ہے یہی سبب ہے کہ سرمد بھی ان کیفیات عشق کو بیان نہیں کر پا رہے ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ دولت عشق کی بے پناہ اہمیت وافادیت کو بڑے پرشکوہ انداز میں بیان کرتے ہیں اوراس راستے میں آنے والے مشکل مراحل کا بڑی خوبصورتی سے ذکر کرتے ہیں مثلاًوہ اپنی ایک رباعی میں کہتے ہیں :
در مسلک عشق جز نکو را نکشند
لاغر صفتان و زشت خود برا نکشند
گر عاشق صادقی زکشتن مگریز
مردار بود ہر آن کہ او را نہ کشند
’’ترجمہ: مسلک عشق میں وہی لوگ شہید ہوتے ہیں جو نیک صفت اورمبارک ہوتے ہیں۔ بد اطوار یا کم ہمت لوگوں مرتبے کو نہیں پہنچ سکتے، تو اگر ایک سچا عاشق ہے تو قتل ہونے سے مت ڈر کیونکہ اس دنیا میں مردار پر تلوار نہیں چلائی جاتی ہے یعنی اس دنیا میں مصائب وتکالیف کا سامنا اعلیٰ ظرف لوگوں کو ہی کرنا پڑتاہے۔‘‘
سرمد جاہ ومرتبہ اورمال ومتاع دنیا کو پندار اور وہم تصور کرتے ہیں اورجہاں تک ممکن ہو سکے اس سے دور رہنے کی تاکید کرتے ہیں :
اندیشہ جاہ و مال دنیا غلط ست
این وہم و خیال فکر بیجا غلط ست
در خانہ تن وطن نسازی ہرگز
از بہر دو روز این تمنا غلط ست
’’ترجمہ: اس دنیا کی فکر کرنا اور جاہ ومال کے لیے پریشان ہونا غلط ہے یہ دنیا وہم اور فکر بے جا ہے جو کہ غلط ہے، یہ جان ہمیشہ اس جسم میں باقی نہیں رہے گی چنانچہ دو دن کی زندگی کی خاطر اس کی یعنی دنیا کی فکر کرنا غلط اور بے جا ہے۔‘‘
وہ انسان کو قناعت کی زندگی بسر کرنے کی تلقین کرتے ہیں کیوں کہ دنیاوی مال و اسباب کی چاہ میں سوائے حیرت، پریشانی اور تکالیف کے کچھ اور ہاتھ نہیں آ سکتا اس لئے حیات جاوداں کے خواہش مند ہو تو دنیاوی حرص وہوس کو اپنے دل سے نکال کر باہرکر دو :
تا چند در اندیشہ دنیا باشی
آوارہ دشت و کوہ و صحرا باشی
دامان قناعت ست بیار وسیع
از دست بدہ دریں جہاں تا باشی
’’ترجمہ: تو کب تک دنیا کی فکر میں مبتلا رہے گا آخر کب تک، تو کب تک دشت وصحرا میں آوارہ یعنی بے کا ر بنا گھومتا رہے گا قناعت کا دامن بہت وسیع ہوتا ہے تو کب تک اس دامن سے کنارہ اختیار کیے رہے گا یعنی تجھ کو چاہیے کہ تواس دنیا میں سکون سے رہنے کے لیے قناعت کے دامن کو تھام لے تاکہ تجھ کو سچی راحت ومسرت حاصل ہو جائے۔‘‘
سعید سرمد کے یہاں بہت سی ایسی رباعیات ملتی ہیں جن کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ وحدۃ الوجود کے قائل ہیں اور اس بارے میں ان کے نظریات وہی ہیں جو دوسرے صوفی شعرا کے یہاں نظر آتے ہیں انھوں نے متعدد رباعیات میں عقیدۂ توحید کی بڑی واضح تشریح پیش کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں وحدۃ الوجود سے متعلق جو بھی خیالا ت ادا کیے گئے ہیں اسلوب و طریقہ تعبیر تو ایک دوسرے سے مختلف لیکن فکر ایک ہے اس سلسلے کی صر ف دو رباعیاں نقل کرنے پر اکتفا کریں گے :
ہر چند کہ صد دوست بمن دشمن شد
از دوستی یقین دلم ایمن شد
وحدت بگذیدیم از کثرت رستیم
آخر من از و شدم و اواز من شد
’’ترجمہ: ہر چند کہ سو دوست دشمن بن جائیں، ایک دوست کے فیضان سے دل امان میں ہے یعنی اگر سیکڑوں دوست بھی دشمن بن جائیں اپنے محبوب کی رضا کے لیے تو بھی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، کثرت سے گزر کر ہم وحدت کی جانب آگئے آخر میں اس سے ہو گیا اور وہ میرا ہو گیا یعنی فرق دوئی مٹ گیا اور ہر جگہ ذات واحد کا ہی جلوہ نظر آنے لگا۔‘‘
چون معنی و لفظ ما و او را بنگر
چون چشم و نگہ جدا و یکجا بنگر
یکدم زکسی جد ا نیابی ہرگز
مانند گل و پوست تماشہ بنگر
’’ترجمہ: لفظ اور معنی دیکھو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، آنکھیں اور نگاہ جدا ہیں لیکن ان کو ایک جگہ دیکھ ایک لمحہ کی بھی جدائی ممکن نہیں ہے دیکھو ہم پھول اور خوشبو کی طرح ایک ہیں یعنی کائنات کے ہر ذرے میں صرف اورصرف اس ذات واحد کی ہی کارفرمائی ہے۔‘‘
سرمد سعید نے بیشماررباعیات کہی ہیں اوراکثران کے یہاں مضامین کی تکرارپائی جاتی ہے مثلاً بے ثباتی وناپائیدارئ دہر، توحید ومعرفت، جبروقدر، امید، رضا بالقضا، حرص وہوس اور شرابِ غفلت وغیرہ جیسے مضامین کو مختلف پیرایوں میں بیان کیا گیا ہے مگر ان کا وصف خاص یہ ہے کہ محدود مضامین کی تکرار کے باوجود بھی ان کی رباعیات کا ایک ایک لفظ اہل دل کے نزدیک جان سے پیارا اور عزیز ہے، ان کی تمام رباعیات حقیقی ومجازی بیخودی کی کیفیات سے لبریز ہیں ان کے یہاں جدت، ندرت اورشدت بڑے پیمانے پرموجود ہے فرسودہ وکہنہ مضمون بھی ان کے جالب وجاذب اسلوب بیان کے سبب نیا اورانوکھا محسوس ہونے لگتاہے مثلاً دنیاوی مال ومنال اورجاہ وحشمت حاصل کرنے کی طلب اس کو تباہ وبرباد کردیتی ہے انھوں نے اس مضمون کو اپنی رباعیات میں بار ہا ادا کیا ہے اور ہر بار ان کا خوبصورت انداز بیان قاری کو ان کا گردیدہ بنا دیتا ہے مثلاً وہ کہتے ہیں :
ای دل تو درین زمانہ گمراہ شدی
پابند ہواؤحرص جانکاہ شدی
زین دام بلا اگر نہ جستی آخر
سرتا بقدم درد وغم وآہ شدی
’’ترجمہ: اے دل تو اس غم دہر سے گم راہ ہو گیا ہے، تو حرص وہوس کے لیے کب تک اپنی جان کو پریشان کرتا رہے گا تجھ کو اس دام وفا یعنی دنیا سے اس قدر محبت کیوں ہے، تو، تو درد، رنج اور آہ ہو گیا ہے یعنی دنیاوی مصائب ومسائل نے تجھ کو تباہ حال کر دیا ہے۔‘‘
اسی مضمون کو اپنی ایک اور رباعی میں اور بھی زیادہ خوبصورت ودلنشین انداز میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
با دام ہوا ؤ حرص تا ہم نفسی
پابند خودی شام وسحر در قفسی
آزاد چو سرو باش در گلشن دہر
گر سنبل ونسرینی وخور وخسی
’’ترجمہ: تیری ایک سانس بھی ہوا و حرص سے خالی نہیں ہے، تیری خودی تیرے ایک قفس بند ہوگئی ہے یعنی تو خودی کی طاقت کو بروئے کار لانے کے بجائے اس سے پیچھا چھڑانے کی کوشش میں سرگردان ہے، تو چمن مراد دنیا میں سرو کی طرح زندگی گزار یعنی خود کو بندشوں میں نہ جکڑ لے تو، تو سنبل ونسرین ہے خار و خس نہیں۔‘‘