یہ حالی کی بصیرت کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ انہوں نے غالب کے کلام کو غالب ہی سے سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ یہ نہ صرف غالب کی بلکہ اردو ادب کی بھی خوش نصیبی ہے کہ غالب کو حالی جیسا شاگرد ملا جو علم و ادب کاسچا شیدائی فن شعر کا مزاج داں اور بالغ نظر نقاد تھا۔ حالی نے اردو شاعری کو حیات نو بخشی۔ غالب سے حالی کی ملاقات محض اتفاق تھی۔ زمانے کی ناقدر شناسی نے غالب کو دقت پسند اورمہل گو شاعر مشہور کر دیا تھا۔ ذوق غالب سے بہتر شاعر سمجھے جاتے تھے اس دور میں محاورہ کو شعر میں ڈھالنا قافیوں کے انبار لگادینے ہی کو شعری فنکاری سمجھتے تھے۔ شاعری صرف غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی۔ غالب سے اپنی ملاقات کا ذکر حالی ان الفاظ میں کرتے ہیں:
جس زمانے میں میرا دلی جانا ہوا تھا مرزا اسد اللہ غالب مرحوم کی خدمت میں اکثر جانے کا اتفاق ہوتا تھا اور اکثر ان کے اردو اور فارسی دیوان کے اشعار جو سمجھ میں نہ آتے تھے ان کے معنی ان سے پوچھا کرتا تھا اور چند فارسی قصیدے انہوں نے دیوان میں سے بھی پڑھائے تھے‘‘
انہیں غالب سے بے پناہ عقیدت تھی۔1869 میں غالب کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت حالی دہلی میں موجود تھے حالی کو غالب سے ادبی و ذہنی قربت تھی۔ ان کے لیے غالب کی جدائی ایک نا قابل برداشت صدمہ تھا۔ وہ غالب کی موت کو ایک زبردست قومی نقصان تصور کرتے ہیں۔ غالب کی وفات پر جو مرثیہ لکھا ہے اس کے ہر مصرع سے ان کی محبت ،عقیدت و ملال جھلکتا ہے۔ غالب کی موت ان کے نزدیک ایک ادبی دور کا خاتمہ ،ایک تہذیب کی موت تھی۔ اس مرثیہ میں حالی نے غالب کی شاعرانہ عظمت اور شخصیت کو یوں ابھارا ہے کہ ہندوستان کا تہذیبی منظر روشن ہوجاتا ہے۔ بقول ڈاکٹر سید عابد حسین :
’’ غالب کی سیرت کا وہ نقشہ کھینچا ہے کہ اس سے بہتر تصویر ہماری نظم و نثر میں نہیں ملتی۔ یونانیوں کے ذہن میں جو تصور انسانیت کا تھا اس کی جھلک غالب کی ذات میں نظر آئی اور اسے انہوں نے شعر کا جامہ پہناکر شہرت دوام بخشی ہے۔‘‘
حالی کو غالب سے بڑی عقیدت تھی۔ غالب کے انتقال کے بعد انھوں نے "یاد گار غالب” لکھی جو 1897 میں شائع ہوئی۔ اس سوانح میں غالب کے حالات زندگی اور ان کی سیرت پر بڑے محققانہ اور شگفتہ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے ۔ وہ تصویر کے دونوں رخ پیش کرتے ہیں
یادگار غالب کا وصف یہ ہے کہ اس میں غالب کے مستند حالات قلمبند کیے گئے ہیں اور غالب کے کلام پر ناقدانہ نظر ڈالی گئی ہے ۔ یہ ایسی سوانح عمری ہے جو اردو کے سرمائے میں ایک بیش بہا اضافہ تصور کی جاتی ہے ۔ یہ ایک جامع سوانح حیات ہے ۔ کیونکہ حالی نے غالب کو بہت قریب سے دیکھا تھا اور ان کی شخصیت اور تہذیبی وادبی افکار کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ "یادگار غالب” میں حالی "حیات سعدی” کے مقابلے میں زیادہ غیر جانبدار اور بے لاگ نظر آتے ہیں۔
غالب جیسی اہم ادبی شخصیت کے اٹھ جانے سے صحیح معنوں میں بزم شعر سونی ہو گئی ۔ غالب اور حالی دونوں کے مزاج میں نمایاں فرق تھا۔ حالی سے غالب کا تعلق زیادہ سے زیادہ دس بارہ سال رہا وہ بھی مسلسل نہیں مگر اس قلیل عرصے میں انہیں غالب سے ایک لگاو پیدا ہو گیا ذہنی وابستگی رہی۔ حالی نے غالب سے استفادہ کیا۔ ان کے ادب کمالات کو سمجھنے پرکھنے اور تجزیہ کرنے کی سعی کی اور ادبی تاریخ میں ان کا مقام متعین کیا۔ اگرچہ غالب کے اور بھی شاگرد تھے جیسے مرزا ہر گوپال تفتہ، میر مہدی حسن مجروح وغیرہ لیکن غالب کے کلام پر ان کی حقیقی عظمت کا احساس عام کرنے ان کی مقبولیت میں اضافہ کرنے، ان کے کلام کو عوام تک پہنچانے میں جو کردار ’’یادگار غالب‘‘ نے ادا کیا وہ اردو ادب میں یادگار رہے گا۔ غالب کی حقیقی عظمت پر توجہ سب سے پہلے حالی نے کی۔ ’’یادگار غالب‘‘ غالب کی اولین سوانح عمری ہے۔ سوانح عمری سے بڑھ کر یادگار تنقیدی کارنامہ بھی ہے۔ اس میں غالب کی زندگی اور شخصیت کی کامیاب تصویر کشی ہے۔ ان کی نثر نگاری اور شاعری کا جائزہ لیا گیا۔ سوانح کے اعتبار سے کسی قدر تشنہ ہے۔ کتاب کا صرف چوتھائی حصہ سوانح حیات سے متعلق ہے۔ انہوں نے حالات زندگی تفصیل سے پیش نہیں کی۔ حالی کے دل میں غالب کے لیے جو عقیدت و احترام کا جذبہ کارفرما تھا وہ غالب کی وفات کے بعد بھی برقرار رہا۔
حالی نے زیادہ زور غالب کے کمال فن کو ظاہر کرنے پر صرف کیا ہے۔ کارناموں کے مقابلے میں حیات کو کم اہمیت دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حالی کی ملاقات غالب سے اس وقت ہوئی جبکہ غالب کا عہد شباب گزر چکا تھا۔ حالی نے غالب کی جوانی کارنامہ نہیں دیکھا تھا اس لیے ان کی ایام شباب کی کامیاب تصویر کشی نہ کرسکے۔ حالی نے غالب کی سیرت کے اہم نقوش کو ابھارا ہے اس کے ساتھ ان کی کمزوریوں کا بیان بھی کر دیا ہے۔ خانگی معلومات کو بھی پیش کیا ہے۔ حالی نے غالب کے قیام لکھنؤ کا بھی ذکر کیا ہے۔ ایام غدر میں غالب کو جن مصائب سے دوچار ہونا پڑا خصوصیت کے ساتھ ان کے چھوٹے بھائی مرزا یوسف کی موت کا ان کو جو صدمہ ہوا ان پر یادگار غالب میں روشنی ڈالی ہے ۔
عہد حاضر کی تحقیق نے یادگار غالب کے بہت سے واقعات کی تردید کی ہے۔ ان کی تحقیقی نا ہمواریوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یادگار غالب کے بیشتر بیانات تشنہ معلوم ہوتے ہیں۔ حالی ذاتی طور پر غالب سے قریب تھے۔ غالب کی رفاقت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ جتنی مستند سوانح عمری کی توقع حالی سے کی جاسکتی تھی وہ ’’یادگار غالب‘‘ سے پوری نہیں ہوتی ۔