کیا ہے کرپٹو کرنسی؟
کرپٹوکرنسی میں لفظ ” کر پٹو” کا مطلب ہے ایسی ٹیکنالوجی کہ جس میں ایک خاص کمپیوٹر کوڈ کی شکل میں (Encryption and Decryption) کے ذریعے پیغام کو مطلوبہ شخص تک پہنچایا جاتا ہے اور یہ پیغام صرف مطلوبہ شخص ہی پڑھ سکتا ہے۔
بنیادی طور پر یہ مکمل (Decentralized System) سسٹم ہوتا ہے جو کسی ایک مرکزی سرور (Central Server) سے (connect) نہیں ہوتا ۔ اس کو P-to-P یا Peer to Peer نیٹ ورک بھی کہا جاتا ہے کہ جس میں ہر کمپیوٹر اپنے نیٹ ورک میں موجود ہر دوسرے کمپیوٹر سے بغیر کسی مرکزی سرور (Central Server) کے آپس میں کنیکٹ ہوتے ہیں۔
اسی نیٹ ورک کی ایک قسم کو کمپیوٹر سائنس کی زبان میں بلاک چین (Block Chain) ٹیکنالوجی کہا جاتا ہے جس میں کرپٹوکرنسی بنائی جاتی ہے۔
کر پٹو کرنسی کی حقیقت
کر پٹو کرنسی کی اصل یہ ہے کہ یہ بنیادی طور پر یہ ایک اثاثہ Assest ہے جس کا حسی (Physically) کوئی وجود نہیں ہوتا بلکہ اسکا وجود کمپیوٹر نیٹ ورک کی حد تک ہی رہتا ہے۔ یہ کر پٹوگرافی کی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے جس کی وضاحت اختصاراً او پر ہم نے کر دی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اس بات کی یقین دہانی کراتی ہے کہ رقم کی منتقلی (Transaction) انتہائی محفوظ طریقے سے بغیر کسی مرکزی نیٹ ورک (Centralized Network) کے، دھو کے اور جعل سازی سے محفوظ رکھتے ہوئے عمل میں لائی جائے گی۔
کر پٹو کرنسی کی تاریخ
کر پٹوکرنسیاں کچھ عرصہ قبل ہی اس نام سے مشہور ہوئی ہیں جبکہ اس سے قبل یہ ور چوئل کرنسی کے نام سے پہچانی جاتی تھیں۔ کر پٹوکرنسی کی تاریخ کو بنیادی طور پر دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ (۳)
دورِ اول
ابتدائی دور میں ” در چوکل کرنسیاں اسی سوچ کی بنیاد پر قائم کی گئیں جس بنیاد پر موجودہ حکومتی کرنسیاں ہوتی تھیں ۔ یعنی کہ یہ کرنسیاں کسی ادارے یا حکومت کی پشت پناہی میں وجود میں لائی جاتی تھیں اور ان حکومتوں / اداروں کی یہ ذمے داری ہوتی تھی کہ وہی ان کرنسیوں کا مکمل نظام سنبھالیں ۔ یعنی یہی حکومتیں ادارے ان کرنسیوں کو جاری کریں ، ان کے لین دین کا نظام محفوظ بنائیں اور جعل سازی اور دیگر دھوکہ دہی پر مبنی عوامل سے ان کرنسیوں کو محفوظ رکھیں ۔
اس فکر پر 1980 عیسوی کے بعد کئی کرنسیاں وجود میں لائی گئیں۔ ذیل میں اس دور کی چند کرنسیاں درج ہیں
- ای گولڈ E- Gold
- لنڈن گولڈ London Gold
- ڈی جی کیش DG Cash
یہ کرنسیاں اداروں کی طرف سے بنائی جاتی تھیں۔ وہی ان کا نظام سنبھالتے تھے لیکن ان میں چند خرابیاں تھیں ۔ مثلاً : اداروں کا دیوالیہ ہو جانا یا صارفین کی رقم لے کر ادراے کا غائب ہو جانا یا مخصوص ممالک کی طرف سے قانونی مسائل کا ہونا۔ ان مسائل کےباعث یہ کرنسیاں زیادہ نہ چل سکیں ۔
اس دور میں ورچوئل کرنسی کی اس فکر کو دیکھتے ہوئے چند اداروں کی طرف سے حکومتی کرنسیوں کے لین دین کو ڈیجیٹلا ئیز (Digitalize) کیا گیا جس کو ہم اپنے دور میں بطور مثال: ایزی پیسہ (Easy Paisa)،چیزکیش Jazz Cash یا مختلف بینکوں کی آنلائن بینکنگ (Online Banking) کی ایپس (Apps) کو دیکھ سکتے ہیں ۔
دورِ دوم
پہلے دور میں ورچوئل کرنسیوں کی اُس وقت کی صورتحال میں ناکامیوں کی وجہ سے یہ فکر پروان چڑھی کہ ایسی کرنسیوں کو وجود میں لایا جائے جو ڈی سینٹرلائیز ڈسٹم (Decentralized System) پر قائم کی جائیں کہ جس کے تمام معاملات آن لائن ہوں۔ اس کی بنیاد میں کوئی حکومت یا کوئی اداراہ یا کوئی معین فرد نہ ہو۔ بنیادی طور پر اس سوچ کی وجہ یہ تھی کہ دنیا سے ڈالر کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے اور کرنسیوں پر سے حکومتوں کی بالا دستی کو ختم کیا جائے ۔ اس سوچ کے لیے بلاک چین Block Chainٹیکنالوجی کا استعمال عمل میں لایا گیا۔
پہلی کرنسی جو اس سوچ پر عمل کرتے ہوئے 2009 عیسوی میں وجود میں لائی گئی وہ بٹ کوائن Bit Coin ہے۔ اس کی تفصیل ان شاء اللہ ہم آگے بیان کریں گے۔
یہی سلسلہ آگے چلا اور اس فکر پر کی کرنسیاں وجود میں لائی گئیں۔
کر پٹوکرنسی کی اقسام
تا وقت کتابت دنیا میں کم و بیش 23000 کی تعداد میں مختلف کر پٹوکرنسیاں اپنا وجود رکھتی ہیں ۔ ان میں سے کچھ کوائنز (Coins) ہیں اور چند ٹوکن (Token) ہیں ۔
کوائینز (Coins)
یہ خود ایک مستقل بلاک چین پر مائینگ (Mining) کے عمل کے ذریعے وجود میں لائے جاتے ہیں۔ یہ مکمل طور پر ڈی سینٹر لائیز ڈ ( De-Centralized) ، دھو کہ جعل سازی سے محفوظ اور ایک مقررہ مقدار تک ہی بنائے جا سکتے ہیں۔
ٹوکنز (Tokens):
یہ پہلے سے قائم شدہ بلاک چین کہ جس پر کوئی کوئن بن چکا ہو اس پر قائم ہوتے ہیں۔
چند مشہور کرنسیوں ( کوائنز ) کا اجمالی ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔
- بِٹ کوائن Bit – Coin
- لاےٹ کوائنLite – Coin
- ایتھیریمEthereum
- فینٹمFantom
- ڈوج کوائنDoge – Coin
- بائینینس کوائنBinance – Coin
- ڈیش کوائنDash – Coin
- آئیکین کوائنIcon – Coin
- ریف کوائنReef – Coin
- پولی گونPolygone
کر پٹو کرنسی کے وجود کا طریقہ کار
کر پٹوکرنسی جدید ٹیکنالوجی کر پٹو گرانی کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔ اس کی مناسبت سے اس کو کرپٹو کرنسی کہا جاتا ہے جسکی مختصر وضاحت ابتداء میں کر دی گئی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی بنیاد بلاک چین (Block-Chain) ٹیکنالوجی پر ہوتی ہے جس کی مختصر وضاحت ذیل میں کی جارہی ہے۔
بلاک چین ٹیکنالوجی کی تعریف
بلاک چین (BlockChain) کی مختلف تعریفات کی گئی ہیں۔ ان تمام تعریفات کا خلاصہ چند سطور کی صورت میں کیا جارہاہے۔
یہ مختلف کمپیوٹرز میں تقسیم ایک ڈیجیٹل کھاتے (Distributed Ledger) کو کہتے ہیں جس میں ڈیٹا (Data) مختلف بلاکس (Blocks) کی صورت میں اس کے نیٹ ورک میں موجودتمام کمپیوٹرز میں ریکارڈمحفوظ ہورہا ہوتا ہے اور جعل سازی کا کوئی امکان نہیں ہوتا، نیز تمام بلاکس آپس میں کنیکٹ ہوتے ہیں۔
بلاک چین ٹیکنالوجی کا طریقہ کار
چونکہ اس سسٹم کا بنیادی استعمال لین دین کے معاملات کے لیے ہوتا ہے اس وجہ سے اس عمل کو ٹرانزیکشن (Transaction) کا نام دیا گیا۔ بنیادی طور پر ہر بلاک (Block) چند چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے:
- ڈیٹا بھیجنے والے کی پرائیوٹ کی (Private Key) یہ ڈیٹا بھیجنے والے کے بطور دستخط استعمال کی جاتی ہے۔
- ڈیٹا وصول کرنے والے کی پبلک کی (Public Key) ، بطور مثال بینک کا اکاؤنٹ نمبر،
- ٹرانزیکشن (Transaction) کی تفصیل ( وقت ، تعداد، دیگر معلومات )
چونکہ اس ٹیکنالوجی کا زیادہ تر استعمال رقوم کی ترسیل کے لیے ہوتا ہے تو ہم طریقہ کار کی وضاحت کے لیے رقم کی ٹرانزیکشن کا طریقہ ہی بیان کریں گے۔
جب کوئی صارف کسی بھی شخص کو رقم ٹرانسفر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ دونوں صارفین کے پاس ایسے کمپیوٹر ہوں کہ جو اس ٹیکنالوجی کو سمجھ سکتے ہوں ۔ جس صارف کو رقم ٹرانسفر کرنی ہو وہ سب سے پہلے اپنی پبلک کی ( Public Key) داخل کرے گا پھر رقم کی تفصیلات ( مثلاً تعداد وغیرہ ) داخل کرے گا پھر اپنی پرائیوٹ کی (Private Key) داخل کرے گا۔ تصدیق کے مرحلے سے گزر کر جس صارف تک یہ رقم ٹرانسفر ہوئی ہوگی اس کے پاس چلی جائے گی جس کو وہ شخص اپنی پرائیوٹ کی (Private Key) درج کر کے اپنے اکاؤنٹ میں حاصل کرلے گا۔ یہ سارا عمل نیٹ ورک میں ایک نئے بلاک کی صورت میں تشکیل پا جائے گا اور نیٹ ورک میں موجود تمام سٹم میں وہ ریکارڈ محفوظ اور اپڈیٹ ہو جائے گا۔
تصدیق کے مرحلے کی ضرورت اس وجہ سے پیش آتی ہے کہ آن لائن خرید و فروخت میں اس بات کا احتمال رہتا ہے کہ خریدار بیچنےوالے کو پہلے رقم بھیج دے اور پھر اپنی رقم کی ادائیگی کو واپس اپنے اکاؤنٹ میں ریورس کرنے یا پھر جو رقم صارف کسی اور کو بھیج رہا ہے وہ اس کے پاس حقیقت میں تھی بھی یا نہیں یا اس نے جعلی رقم بنا کر کسی اور کو بھیج دی۔ اس کو ڈیل سپینڈنگ (Double-Spending)کہتے ہیں۔
عموماً ٹرانزیکشن میں یہ کام بینک وغیرہ کا ہوتا ہے کہ وہ ٹرانزیکشن کو دھوکہ دہی اور جعل سازی سے محفوظ رکھیں لیکن کر پٹوکرنسی میں کوئی ادارہ شامل نہیں ہوتا تو اس احتمال کو دور کرنے کے لیے تصدیق کے عمل کی ضرورت پیش آئی۔ اس عمل کے لیے مختلف کر پٹوکرنسی میں مختلف طریقے استعمال ہوتے ہیں۔ بٹ کوائن میں ” مائینگ” کا عمل ہوتا ہے جس کو ” پروف آف ورک” کہا جاتا ہے۔ اس کی وضاحت ہم ان شاء اللہ آگے کریں گے۔ کچھ کرنسیاں اس تصدیق کے لیے سٹیکنگ کا عمل استعمال کرتی ہیں جس کو پروف آف سٹیک سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ مائیٹنگ کی بنسبت سستا اور آسان عمل ہوتا ہے۔
سٹیکنگ کا طریقہ کار
اس میں اگر کوئی صارف یہ چاہتا ہے کہ دولوگوں کے درمیان ہونے والی ٹرانزیکشن کی تصدیق کرے تو اس کے لیے اس کو پہلے کچھ کو ائنز لاک کرنے ہوتے ہیں تا کہ اس کا احتمال ختم ہو جائے کہ یہ صارف جعلی تصدیق نہ کر دے، جب یہ صارف تصدیق کا عمل مکمل کر چکا ہو تو نئے کوائنز کی تشکیل ہو جاتی ہے اور وہ کوائنز اس صارف کے اکاؤنٹ میں آجاتے ہیں، اور اس عمل کے نتیجے میں ایک نیا بلاک نیٹ ورک میں بن جاتا ہے۔ (۶)
بٹ کوائن
جیسا کہ ہم نے پیچھے ذکر کیا کہ ورچوئل کرنسیوں کا دوسرا دور اس فکر کے ساتھ پروان چڑھا کہ کوئی ایسی کرنسی وجود میں لائی جائے جوڈی سینٹ لائیز ڈسٹم (Decentralized System) پر قائم ہو۔ اسکے تمام معاملات آن لائن ہوں۔ اس کی بنیاد میں کوئی حکومت یا کوئی اداراہ یا کوئی معین فرد نہ ہو۔ بنیادی طور پر اس سوچ کی وجہ یہ تھی کہ دنیا سے ڈالر کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے اور کرنسیوں پر سے حکومتوں کی بالا دستی کو ختم کیا جائے۔
پہلی کرنسی جو اس سوچ پر عمل کرتے ہوئے 2009 عیسوی میں وجود میں لائی گئی وہ بٹ کوائن (Bit-Coin) ہے۔ اس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس کا موجد ستوشی نا کا موٹوہے۔ 2009 عیسوی میں ایک مقالہ منظر عام پر آیا جس میں یہ وضاحت کی گئی کہ ایک ایسا سٹم ہو جو مکمل طور پر ڈی سینٹرلائیز ہو اور اس میں وہ تمام خوبیاں جو ہم نے اوپر بیان کیں وہ ہونی چاہئیں۔ اس خواب کو t ستوشی نا کا موٹو نے عملی جامہ پہنایا اور بٹ کوائن پیر ٹو پیر پیمنٹ سسٹم Bit-coin Peer To Peer Payment System کے نام سے ایک کرنسی کا اجرا کیا اور اس کا کوڈ اوپ سورس ( Open Source) رکھا جس کو ہر کوئی پڑھ سکتا ہے۔ یہ ستوشی نا کا موٹوکون تھا ؟ کس جگہ سے اس کا تعلق تھا؟ اس کی تفصیلات کسی کو بھی معلوم نہیں۔ آیا یہ ایک شخص تھا یا کوئی گروپ تھا۔ کسی کواس کی تفصیلات کا کوئی علم نہیں ، 2010 عیسوی میں اس نے یہ پروگرام دیگر ڈیویلپرز کے حوالے کیا اور خود غائب ہو گیا۔
بٹ کوائن میں ٹرانزیکشن کا طریقہ کار ہم ایک مثال سے سمجھتے ہیں:
حسن کے پاس ایک بٹ کوائن ہے جس کی وہ ٹرانزیکشن کرنا چاہتا ہے، اس ٹرانزیکشن کا کوڈ 01001 ہے۔ زید کے پاس پرائیوٹ کی (Private (Key) بطور مثال Hass123an ہے جس کا علم صرف اسی کو ہے جس کا استعمال وہ رقم کی ترسیل کے لیے بطور دستخط استعمال کرے گا۔ اس بٹ کوائن کی تفصیلات بطور نقل (کاپی ) نیٹ ورک میں موجود تمام کمپیوٹرز میں موجود ہیں جن کو نوڈ ز کہتے ہیں۔ حسن اس بٹ کوائن کو زید کو بھیجنا چاہتا ہے۔ زید کی ایک پبلک کی ( Public Key) بطور مثال 15719092 ہے جس کو سمجھنے کے لیے اکاؤنٹ نمبر سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح زید کی ایک پرائیوٹ کی (Private Key) بھی ہے جس کو وہ رقم وصول کرنے کے لیے بطور دستخط استعمال کرے گا جس کا علم قانو نا صرف اس کو ہی ہے۔
حسن نے یہ ارادہ کیا کہ میں یہ بٹ کوائن زید کو بھیجتا ہوں۔ تو اس کے لیے اس نے بٹ کوائن کی مقدار، زید کی پبلک کی (Public Key)، اور اپنی پرائیوٹ کی (Private Key) درج کی جو کہ ایک بلاک کی صورت اختیار کر گئی ۔ بعد از تصدیق یہ بٹ کوائن حسن کے اکاؤنٹ سے نکل کر زید کے اکاؤنٹ میں آجائے گی۔ اس عمل کی نقل نیٹ ورک میں موجود ہر کمپیوٹر میں موجود ہے نیز اب اس ٹرانزیکشن کا کوڈ بھی تبدیل ہو چکا ہے۔ بطور مثال اب کوڈ 10110 ہے تا کہ ایک کوڈ کی متعدد ٹرانزیکشن جمع نہ ہونے پائیں۔
یہ بطور مثال بٹ کوائن کی ٹرانزیکشن کا طریقہ کار مختصراً ذکر کیا گیا۔ اس میں ایک احتمال باقی ہے وہ یہ کہ کیا حسن واقعتا اس بٹ کوائن کا مالک تھا بھی یا اس نے جعل سازی کے تحت یہ کوائن فرضی طور پر بنا رکھا تھا ؟ عام زندگی میں اس سوال کا جواب کوئی ادارہ یا بینک وغیرہ دیتے ہیں جس کے تحت وہ یہ ذمے داری لیتے ہیں کہ معاملہ ہر قسم کی جعل سازی سے پاک ہے لیکن بٹ کوائن چونکہ ایک ڈی سینٹر لائیز ڈ ٹیکنالوجی پر قائم ہوتا ہے تو اس میں کوئی ادارہ یا بینک یہ کام نہیں کر سکتا۔ اس احتمال کو دور کرنے کے لیے تصدیق کا عمل بنایا گیا جس میں یہ احتمال دور کیا جاتا ہے کہ واقعتا حسن اس بٹ کوائن کا مالک تھا اور وہ اس میں کوئی دھوکہ دہی کا معاملہ نہیں کر رہا۔ ہم نے ذکر کیا کہ مختلف کرنسیوں میں یہ تصدیق کا عمل مختلف طریقوں سے ہوتا ہے۔ کچھ کرنسیوں میں سٹیکنگ“ کا عمل ہوتا ہے جبکہ بٹ کوائن میں یہ تصدیق کا عمل ” مائیننگ کے ذریعے ہوتا ہے۔
مائینگ
اس عمل میں مائینز” (مائیٹنگ کا عمل کرنے والا شخص) کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اس ٹرانزیکشن کو او پر ذکر کردہ احتمال سے پاک بنائے۔
چونکہ بٹ کوائن کا نظام بلاک چین ٹیکنالوجی پر قائم ہے اور اس میں تمام ریکارڈ نیٹ ورک میں موجود تمام کمپیوٹرز/ نوڈز میں ہوتا ہے۔ مائیر کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ ٹرانزیکشن جس کا ایک مخصوص کوڈ ہوتا ہے وہ اس کو چیک کرتا ہے کہ یہ بٹ کوائن حسن کے پاس کیسے آیا اور وہ اس ٹرانزیکشن سے قبل اس کو کسی اور جگہ پر خرچ تو نہیں کر چکا۔ جب مائینز مطمئن ہو جاتا ہے تو وہ اس ٹرانزیکشن کی تصدیق کر دیتا ہے اور بٹ کوائن حسن کی ملکیت سے نکل کر زید کی ملکیت میں آ جاتا ہے۔ اس عمل کو مائیٹنگ کہتے ہیں۔ اس کو پروف آف ورک بھی کہا جاتا ہے۔ یہ عمل انتہائی محنت طلب اور بے انتہا مہنگا ہوتا ہے۔ اب سوال یہ آتا ہے کہ جو شخص اتنی محنت اور سرمایہ خرچ کر کے اس تصدیق کے عمل کو سر انجام دیتا ہے اس میں اس کا کیا فائدہ ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ مائینز کے اس عمل کی وجہ سے نئے بٹ کوائینز وجود میں آتے ہیں جو اس مائینر کو ملتے ہیں۔ تا وقت کتابت ان نئے ملنے والے بٹ کوائینز کی تعداد 6. 25 ہے۔ اس جواب میں اس بات کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے کہ نئے بٹ کوائنز کا وجود کیسے ہوتا ہے۔ لیکن یہ بٹ کوائن ایک مخصوص تعداد تک ہی وجود میں آئیں گے جو کہ 21 ملین ہے اس کے بعد یہ مزید نئے وجود میں نہیں آئیں گے جس سے افراط زر (Currency) کا اشکال بھی دور ہو جاتا ہے۔ پھر جب کوئی شخص ٹرانزیکشن کی تصدیق کرے گا تو اس پر فیس رکھی جائے گی جس کی ادائیگی کی ذمے داری بٹ کوائن بھیجنے والے کی ہوگی ۔ کر پٹو کرنسی زر ( Currency) یا مبیع(Asset) کی، کر پٹو کرنسی کیسے وجود میں آتی ہے؟ نیز دیگر تکنیکی اشیاء کی وضاحت کے بعد اس کا شرعی حکم جاننا ضروری ہے لیکن اس سے قبل یہ ضروری ہے کہ یہ طے کیا جائے کہ اس کی حیثیت زر (Currency) کی ہے یا میچ (Assest) کی؟ یہاں ہم زر (Currency) اور مبیع (Assest) کے تعلق سےاختصارکے ساتھ کچھ گفتگو کریں گے۔
زر (Currency) ماہرین معاشیات کی نظر میں
ماہرین اقتصاد نے زر (Currency) کی مختلف تعریفات کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس کو آلہ تبادلہ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہوں۔ نیز وہ قیمتوں کا پیمانہ ہو اور اس کے ذریعے قدر کو محفوظ رکھا جا سکے اور اسکو قبولیت عامہ حاصل ہو۔ اس کو معاشیات کی اصطلاح میں زر Currency کہتے ہیں ۔
ذکر کردہ تعریف سے زر (Currency) کی تین خصوصیات ہمیں واضح ہوتی ہیں :
- آلہ تبادلہ کے طور پر استعمال ہو سکتی ہو:
کسی بھی چیز کا زر (Currency) ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کوبطور آلہ تبادلہ استعمال کیا جاسکتا ہو۔
ابتدائی زمانے میں لوگ بارٹر سٹم کے تحت خرید و فروخت کیا کرتے تھے۔ اس میں یہ طریقہ کار ہوتا تھا کہ اگر کسی شخص کو آٹا چاہیے اور اس کے پاس جو (barley) ہوتی تو وہ کسی ایسے شخص کو ڈھونڈتا جس کے پاس آٹا ہو اور اس کو جو (barley) چاہیے ہوتی تو یہ دونوں آپس میں دونوں اشیاء کا تبادلہ کر لیتے ۔
اس سلسلے میں یہ دشواری تھی کہ اگر کسی کو آٹے کی حاجت ہے اور اسکو کوئی ایسا شخص نہ ملتا جس کے پاس آٹا تو ہوتا لیکن اس کو جو (barley) کی حاجت نہ ہوتی تو یہ معاملہ منعقد نہیں ہو پاتا تھا۔ اس وجہ سے لوگوں نے فروخت کے لیے کچھ متبادل راستے نکالے کہ جو آلہ تبادلہ کے طور پر استعمال ہو سکتے ہوں اور ہر کسی کو اس کی ضرورت ہو۔ اسی سلسلے نے آگے چل کر درہم و دینار کی صورت اختیار کی اور موجودہ دور میں کرنسی نوٹ آلہ تبادلہ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں، لہذ زر (Currency) کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ آگرہ تبادلہ کے طور پر استعمال ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ قیمتوں کا پیمانہ ہو
- کسی بھی چیز کا زر (Currency) بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اشیاء کی قیمتوں کا پیمانہ ہو، اس کاتعین کسی دوسرے زر (Currency) سے کیا جاتا ہے۔ مثلاً : سونا زر (Currency)حقیقی ہے اور قیمتوں کا پیمانہ ہے۔ اس کی قیمت کا تعین کسی دوسرے زر (Currency) سے کیا جائے گا، دینار کی قیمت مثلا 12 درہم ہے۔
قدر محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہو،
یعنی اس کی اپنی ایک ذاتی قدر ہو جو کہ ہر وقت یکساں رہے۔ اس میں کمی یا زیادتی نہ ہو کیونکہ اگر زر (Currency) میں بھی کمی یا زیادتی ہو گی تو وہ بھی اثاثہ بن جائے گا، موجودہ دور میں زر (Currency) کی قدر میں کمی و زیادتی واقع ہوتی ہے لیکن یہ دیگر اشیاء کی بنسبت ہوتی ہے۔ ان کی ذاتی قدر برقرار رہتی ہے۔
زر (Currency) شریعت کی نظر میں
شرعی اعتبار سے زر (Currency) کی دو اقسام
شرعی اعتبار سے زر (Currency) کی دو اقسام بیان کی جاتی ہیں:
- زر حقیقی
- زر عرفی اصٹلاحی
زرحقیقی شریعت کی اصطلاح میں اس زر کو کہتے جس کی ذاتی قدر ہو، لوگوں کے تعامل سے وقتی طور پر پیدا نہ ہوئی ہو ۔ اگر اس میں لوگوں کا تعامل بطور زر (Currency) ختم بھی ہو جائے تو بطور میچ (Assest) اس کی حیثیت برقرار رہتی ہے۔ علمائے کرام نے صرف سونے اور چاندی کوزر (Currency) حقیقی شمار کیا ہے۔
زر عرفی/ اصطلاحی شریعت کی اصطلاح میں اس زر Currency کو کہتے ہیں جس کی اپنی کوئی مستقل حیثیت نہ ہو بلکہ لوگوں کے تعامل سے اس کی قیمت قائم ہوئی ہو یا کسی حکومت یا ادارے کی طرف سے اسکو بطور زر (Currency) رائج کیا گیا ہو۔ مثلاً : اس وقت دنیا میں موجود تمام کرنسی نوٹ ۔
زر (Currency) کی صفات
تاریخ اسلامی کے ابتدائی ادوار میں ہمیں بطور زر (Currency) صرف سونے اور چاندی کا استعمال ہی نظر آتا ہے لیکن شریعت اسلامیہ نے یہ پابندی ذکر نہیں کی کہ سونا اور چاندی کے علاوہ دیگر اشیاء کو زر Currency نہیں بنایا جاسکتا بلکہ اس معاملے میں وسعت رکھی گئی ہے اور جس چیز کے اندر شرعی اصولوں اور ضوابط کی روشنی میں زر ( Currency) بنے کی صلاحیت موجود ہو اس کو بطور زر (Currency) معاشرے میں رائج کیا جا سکتا ہے اور اس پر وہی احکامات لاگو کیے جائیں گے جو سونے اور چاندی میں زر (Currency) ہونے کی وجہ سے لاگو کیے جاتے ہیں۔ شرعی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں زر (Currency) کی تین خصوصیات ملتی ہیں کہ جس چیز میں یہ تین خصوصیات شامل ہوں اس کو زر (Currency)بنایا جاسکتا ہے اور معاشرے میں بطور زر (Currency) رائج کیا جاسکتا ہے۔
شرعی طور پر زر (Currency) کی صفات
زر (Currency) کی شرعی صفات مندرجہ ذیل ہیں:
- زر (Currency) کو قبولیت عامہ حاصل ہو، کسی بھی چیز کا شرعازر (Currency) ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اسکو کسی بھی معاشرے کا ایک بڑا طبقہ بطور زر(Currency) قبول کرتا ہو یا کسی حکومت یا صاحب اقتدار ادارے نے اسکو بطور زر (Currency) معاشرے میں نافذ کیا ہو۔
- قیمتوں کا پیمانہ ہو
- قدر محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہو
کر پٹوکرنسی بطور زر
ہم نے اوپر زر (Currency) کی خصوصیات معاشی و شرعی لحاظ سے ذکر کر دی ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کر پٹوکرنسی میں زر (Currency) بنے کی اہلیت موجود ہے؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ بالکل کر پٹو کرنسی میں زر (Currency) بننے کی اہمیت موجود ہے۔ یہ ان تمام صفات کو قبول کرتی ہے جو زر (Currency) میں پائی جائیں۔
- کرپٹو کرنسی کا بطور آلہ استعمال موجود ہے
- کرپٹو کرنسی کے ذریعے قیمتوں کا پیمانہ لگایا جاسکتا ہے
- کرپٹو کرنسی میں قدر کو محفوظ رکھنے کی اہلیت موجود ہے
- کرپٹو کرنسی کواس کے جاننے والے حضرات کے درمیان مقبولیت عامہ حاصل ہے
یہ ثابت ہوا کہ کر پٹوکرنسی میں زر ( Currency) بنے کی مکمل صفات پائی جاتی ہیں۔ البتہ چونکہ اس کی اپنی کوئی ذاتی قدر نہیں ہوتی بلکہ لوگوں کے تعامل سے اس میں قدر پیدا ہوتی ہے تو اس کو زر (Currency) حقیقی نہیں کہہ سکتے بلکہ اس کا شمار زر (Currency ) عرفی / اصطلاحی میں کیا جائے گا ۔
کر پٹو کرنسی بطور مبیع (Asset)
عربی زبان میں ہر وہ چیز جس کو خریدا جائے اس کو بیچ (Assest) کہا جاتا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے معاملات کے اندر یہ آسانی رکھی ہے کہ ہر چیز جائز اور حلال ہے سوائے اس چیز کے جو شرعی دلائل کی وجہ سے حرام ہو۔ دوران بحث یہ ذکر کیا گیا کہ زر (Currency) عرفی کی قدر چونکہ لوگوں کے تعامل کی وجہ سے ہوتی ہے اور اگر لوگوں کا تعامل اس چیز سے بطور زر (Currency) ختم ہو جائے تو اس کی حیثیت بطور مبیع (Assest) کی ہو جاتی ہے۔ یہی معاملہ کر پٹو کرنسی کا ہے۔ اس کو ہم نے زر ( Currency) اس وجہ سے شمار کیا ہے کیونکہ اس میں جہاں دیگر زر (Currency) کی خصوصیات وصفات پائی جاتی ہیں اور اس میں قدر لوگوں کے تعامل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر زر(Currency) کی حیثیت سے لوگوں کا تعامل اس سے ختم ہو جائے تو اس کو مبیع (Assest) شمار کیا جائے گا۔ شریعت نے خریدو فروخت کے معاملے میں مبیع (Assest) کے تعلق سے چند شرائط لاگو کی ہیں ۔ اگر مبیع (Assest) میں وہ شرائط پائی جائیں تو اس کی خرید و فروخت جائز ہوتی ہے:
-
مبیع(Assest) مال منتفع ہونا
کسی بھی چیز کی خرید و فروخت کے لیے ضروری ہے کہ مال ہو اوراس سے فائدہ حاصل کرنا شرعی و عقلی طور پرمباح ہو ۔ مال” عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں: ” کوئی ایسی چیز جس کی طرف لوگوں کی طبیعت مائل ہو۔
لہذا اگر کوئی ایسی چیز ہے جس کی طرف لوگوں کی طبیعت مائل ہو اور اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہو تو اس کی خرید و فروخت کی جاسکتی ہے۔ یہاں یہ اشکال آتا ہے کہ کرپٹو کرنسی زر (Currency) عرفی ہے اور زر (Currency) عرفی لوگوں کی طبیعت اور ان کے عرف کی وجہ سے زر (Currency) بنتا ہے تو جب لوگوں کا تعامل ہی اس سے ختم ہو گیا تو وہ مال کیسے بن سکتی ہے؟
اس اشکال کا جواب ایسے ممکن ہے کہ اگر ہم تاریخ کے اوراق میں نظر دوڑائیں تو ہمیں متروکہ کرنسی نوٹ کی مثال ملتی ہے کہ لوگوں کے تعامل کی وجہ سے اس کو زر ( Currency)عرفی کا درجہ حاصل ہوا تھا لیکن جب لوگوں کا تعامل اس سے ختم ہوا تو وہ مبیع (Assest) بن گئے اور ان کا استعمال یا تو لوگ تحقیق وغیرہ کے مقصد کے لیے کرتے ہیں یا پھر آثار قدیمہ جمع کرنے کا شوق جن حضرات کو ہوتا ہے وہ ان کو اپنے پاس رکھتے ہیں۔ اگر کسی کرنسی پر سے لوگوں کا بطور زر ( Currency) تعامل ختم ہو جائے تو اگر کسی مقصد کے لیے ان کو بطور مبیع (Assest) خریدا جائے تو ان کی خرید و فروخت ہو سکتی ہے نیز اس خرید و فروخت میں کرنسی والے احکامات لاگو نہیں ہوں گے۔
-
مبیع(Assest) معدوم نہ ہو
خرید و فرووخت کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز کو خریدا جارہا ہے وہ اصلاً موجود ہو۔ یہ بات پیچھے گزر چکی ہے کہ کر پٹوکرنسی اپنا ایک مستقل وجود رکھتی ہے ۔
-
بیع بیچنے والے کی ملکیت و قبضے میں ہو
بیچنے والے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جس چیز کو وہ بیچ رہا ہے وہ اس کی ملکیت و قبضے میں ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو شریعت نے اس کو وہ چیز بیچنے سے منع فرمایا ہے
-
مبیع) (Assest) مقدور التسلیم ہو
بیچنے کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ بیچنے والا سامان کو خریدار کے حوالےکرنے کی استطاعت رکھتا ہو۔
-
مبیع (Assest) معلوم ہو:
سامان کے لیے ضروری ہے کہ اس کی مقدار اور جنس معلوم ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو خرید وفروخت کے معاملے میں جہالت پائی جائے گی جس سے شریعت مطہرہ نے روکا ہے۔ (۱۳)
حاصل کلام
کر پٹوکرنسی کی حیثیت بطور زر (Currency) اگر ختم ہو جاے تو یہ بطور مبیع (Assets) ان کی خرید وفروخت ہو سکتی ہے۔
کر پٹو کرنسی کا شرعی حکم:
ہمارے معاشرے میں ایک عمومی مزاج رائج ہے کہ جب کبھی بھی ترقی کرتی ہوئی دنیاکے ساتھ کوئی نئی چیز وجود میں آتی ہے تو عوام الناس اس کا شرعی حکم جاننے کے لیے علمائے کرام کی طرف رجوع کرتی ہے جو کہ بلا شبہ ایک قابل تعریف امر ہے لیکن ساتھ ایک افسوس ناک امر یہ ہوتا ہے کہ اگر علما اس پر محققین کی آراء کی روشنی میں حرمت کا فتوی دیتے ہیں تو علماء دقیانوس اور ترقی سے دور شخصیات جیسے القابات سے نوازے جاتے ہیں اور اگر علماء محققین کی آراء کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے حلال ہونے کا فتوی دیتے ہیں تو لوگ اس میں سرمایہ کاری بغیر سوچے سمجھے شروع کر دیتے ہیں اور اگر اس میں نقصان ہو جائے تو علماء کو ہدف تنقید بنایا جاتایہ رویہ قطعا غیر مناسب رویہ ہے حالانکہ نبی ﷺ نے بیان فرمایا : إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اخطا فلہ أَجْرٍ – یعنی : جب فیصلہ کرنے والا کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کرے اور فیصلہ صحیح ہو تو اسے دو ثواب لتے ہیں اور جب کسی فیصلے میں اجتہاد کرے اور غلطی کر جائے تو اسے ایک ثواب ( اپنی محنت کا ) ملتا ہے۔ غور فرمائیں کہ نبی ﷺ نے دونوں صورتوں میں علماء کے لیے ثواب اور نیکی کی بشارت دی ہے نہ کہ یہ فرمایا کہ اگر وہ غلط ہوں تو ان کو ہدف تنقید بنایا جائے ۔
اس تمہید کے بعد یہ بات عرض ہے کہ کر پٹو کرنسی پر جو بھی حکم آگے آنے والے سطور میں ذکر کیا جائے گا اس کا قطعا یہ معنی نہیں ہوگا کہ قارئین فقط اس تحریر کی بنیاد پر کر پٹوکرنسی میں سرمایہ کاری شروع کردیں بلکہ جن احباب کو اسکی با قاعدہ معلومات ہوں اور تجربہ ہو، معاشی صورتحال اور اس ٹیکنالوجی کو سمجھنے کی طاقت ہو تو وہ ذاتی دلچسپی کی بنیاد پر اس میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔
گزشتہ تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی زر ( Currency) عرفی ہے۔ اگر اس پر سے لوگوں کا تعامل بطور زر (Currency) کے ختم ہو جائے تو اس کی صورت مبیع (Assest) کی بن جائے گی، چونکہ اس وقت اس کی حیثیت زر(Currency) کی ہے تو اس پر زر (Currency) کے احکامات نافذ ہوں گے ۔
زر (Currency) کی آپس میں خرید و فروخت کو شریعت کی اصطلاح میں بیع الصرف ” کہا جاتا ہے۔ بیع الصرف کے صحیح ہونے کی دو شروط ہیں:
- دو ایک جیسی کرنسیوں کے آپس کے لین دین میں یہ شرط ہے کہ ان کی تعداد بالکل برابر ہو کمی بیشی جائز نہیں ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ جس مجلس میں معاہدہ ہو رہا ہے اس مجلس میں دونوں کرنسیوں پر قبضہ حاصل کیا جائے۔ کر پٹوکرنسی میں بطور مثال اگر کسی نے بٹ کوائن کو بٹ کوائن کے بدلے خریدنا ہے تو دونوں کی مقدار بلکل برابر ہونی چاہیے۔ کمی بیشی جائز نہیں ہے۔ ایک بٹ کوائن کے بدلے ایک بٹ کوائن کا تبادلہ ہی ہوسکتا ہے۔
- اگر کرنسی کی جنس الگ ہے تو کمی بیشی جائز ہے لیکن جس مجلس میں لین دین کا معاملہ ہو رہا ہے اس مجلس میں دونوں طرفین کا کرنسی پر قبضہ حاصل کرنا ضروری ہے۔ ادھار جائز نہیں ہے ۔ مثلاً : اگر زید نے عمر سے ایک بٹ کوائن کے بدلے دولائٹ کوائن کا معاہدہ کرنا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ جس مجلس میں یہ معاہدہ ہو رہا ہے اس میں عمر کے پاس بٹ کوائن ٹرانسفر ہو جانا چاہیے اور زید کےپاس دو لائٹ کو ائن ٹرانسفر ہو جانا چاہیے۔
کر پٹو کرنسی سے متعلق دیگر احکامات
ہم نے عرض کیا کہ چونکہ کر پٹوکرنسی ایک زرہے تو اس پر شرعی طور پر زر کے احکامات لاگو ہوں گے، زرکی آپس میں خرید و فروخت کے تعلق سے جو شروط اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بیان کی گئی ہیں وہ ہم نے اجمالاً ذکر کردیں۔ دیگر احکامات جو زر کے تعلق سے شریعت کے ہمیں ملتے ہیں ان کا بھی اجمالی ذکر ضرروی ہے۔ ان احکامات کو ہم کر پٹوکرنسی پر لاگو کرتے ہوئے سمجھتے ہیں :
- اگر کر پٹو کرنسی میں کسی کو قرض دیا جائے تو اس پر سود لینا جائز نہیں ہے۔
- اگر کسی شخص کے پاس اتنی مقدار میں کوئی بھی ایک یا متعدد کرپٹو کرنسیاں موجود ہیں جن کی قیمت 52 تولہ چاندی کے برابر ہوں تو سال گزرنے پر اس کر پٹوکرنسی کے مالک پر زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہو گی ۔
موجودہ دور میں کرپٹو کرنسی میں ہونے والی ٹریڈنگ کی اقسام:
کر پٹوکرنسی میں متعدد اقسام کی ٹریڈنگ کی جاتی ہے۔ ہم نے یہ ذکر کیا کہ کرپٹوکرنسی کیونکہ زر ہے۔ اصل میں اس کا لین دین حلال ہے لیکن موجودہ دور میں کر پٹوکرنسی میں ٹریڈنگ کی کچھ ایسی صورتیں ہیں جو جائز نہیں ہیں ۔ بنیادی طور پر کر پٹوکرنسی میں تین طریقوں سے ٹریڈنگ کی جاتی ہے
- سپاٹ ٹریڈنگ
- مارجن ٹریڈنگ
- فیوچر ٹریڈنگ ۔
ہم بالترتیب ان اقسام کی کچھ تفصیل اور شرعی تعلیمات کی روشنی میں اس کا حکم ذکر کرتے ہیں:
سپاٹ ٹریڈنگ:
سپاٹ ٹریڈنگ میں صارف کرنسی کوخریدتا ہے اور اس کے اکاؤنٹ میں وہ رقم ظاہر ہونے لگتی ہے ، جب صارف چاہے اس رقم کو بیچ سکتا ہے۔ کرنسی کی خرید و فروخت کے لیے یہ لازم ہے کہ مجلس العقد میں اس پر قبضہ حاصل کیا جائے۔ چناچہ حدیث کے الفاظ ہیں کہ حضرت براء بن عازب ؓسے دینار کی درہم سے یا سونے کی چاندی سے بیع کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: زید بن ارقم ؓسے پوچھو، وہ زیادہ جاننے والے ہیں، چنانچہ میں نے حضرت زیدؓ سے پوچھا تو انہوں نے کہا: براءؓ سےپوچھو، وہ زیادہ جاننے والے ہیں، پھر دونوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے سونے کے عوض چاندی کی ادھار بیع سے منع فرمایا ہے۔
چونکہ اس میں کرنی صارف کی ملکیت اور قبضے میں مجلس العقد میں ہی آجاتی ہے اس وجہ سے اس ٹریڈنگ میں لین دین کرنا جائز ہے۔
فیوچر ٹریڈنگ:
اس میں صارف مستقبل کی کسی معین تاریخ میں کسی چیز کی خرید وفروخت کا معاہدہ کرتا ہے۔ مثلاً محمد نے زید سے فروری کی دس تاریخ کو کہا کہ میں آپ سے 10 بٹ کوائن خرید رہا ہوں اور مارچ کی دس تاریخ کو آپ کو واپس بھیج دوں گا، مارچ کی دس تاریخ کو دونوں ملیں گے اور جو قیمت دس فروری کو طے ہوئی تھی اگر قیمت اس سے زیادہ ہوئی تو اضافی رقم زید محمد کو دے گا اور اگر قیمت کم ہوگی تو زید اس میں جو فرق ہوگا وہ منہا کر کے محمد سے بٹ کوائن لے کر بقیہ رقم محمد کو دے گا۔ یہ واضح طور پر جوا ہے چانچہ جوئے کی تعریف یہ ہے کہ دو فریقین کسی معاہدے پر مقررہ وقت کے ساتھ ایک رقم لگا ئیں اور وقت کسی ایک کا کوئی نقصان اور دوسرے کا فائدہ ہو جائے، اس سے شریعت مطہرہ نے منع کیا ہے: ی
ایھا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرَ وَالْأَنصَابَ وَالْأَنصَابَ وَالْأَنصَابِ مِنْ رَجْلَامِ رَجْلٌ اَتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔ (۱۶)
اےایمان والو! یہ شراب اور یہ جوا اور یہ آستانے اور پانسے سب گندے شیطانی کام ہیں لہذا ان سے بچتے رہوتا کہ تم فلاح پاسکو۔
دوسری جو شرعی قباحت اس میں موجود ہے وہ یہ کہ اس میں صارف کو Leverage ملتا ہے جو کہ سود کی واضح صورت ہے کہ صارف کو قرضہ دیا جاتا ہے اور پھر اس پر منافع حاصل کیا جاتا ہے اور یہی سود ہے ۔
چناچہ حدیث نبوی سلاین پیام ہے :
لَعَنَ رَسُولُ اللهِ اكِلَ الرِّبَا وَمَوْكِلَهُ وَشَاهِدَهُ وَ كَاتِبَه – (۱۷)
رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے ، کھلانے ، اس کے گواہ اور لکھنے والے سب پر لعنت فرمائی ہے۔ (3)
مارجن ٹریڈنگ:
اس میں صارف کو اگر 20 بٹ کوائن خریدنے ہیں لیکن اس کے پاس رقم صرف دو بٹ کوائن خرید نے کی ہے تو یہ بروکر (Broker) سے رابطہ کرے گا اور وہ اس کو لوریج (Leverage) دے گا جس سے وہ 20 بٹ کوائن کی خریداری کر سکے گا. لیوریج (Leverage) سود کی واضح صورت ہے کہ صارف کو قرضہ دیا جاتا ہے اور پھر اس پر منافع حاصل کیا جاتا ہے اور یہی سود ہے ، چناچہ حدیث نبوی ہے :
لَعَنَ رَسُولُ الله الله اكل الرِّبَا وَ مُؤْكِلَهُ وَشَاهِدَهُ وَ كَاتِبَا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے، کھلانے ، اس کے گواہ اور لکھنے والے (سب) پر لعنت فرمائی ہے۔
خلاصۂ کلام:
کرپٹوکرنسی زر (Currency) ہے۔ اسکا استعمال لین دین میں کیا جاتا ہے۔ اپنی اصل میں یہ جائز ہے کیونکہ اس میں زر کی تمام صفات پائی جاتی ہیں۔ اس میں متعدد اقسام کی ٹریڈنگ ہوتی ہے جن میں سے صرف سپاٹ ٹریڈنگ جائز ہے۔ نیز یہ ٹریڈنگ اس وقت کرنا درست ہوگا جب کسی حکومت یا قانون کے تحت اس کو غیر قانونی نہ سمجھا جاتا ہو، اگر کسی حکومت یا قانون میں اسکو غیر قانونی شار کیا جاتا ہے تو اس ملک یا جگہ پر اس کی ٹریڈنگ درست نہیں ہوگی۔
هذا ما عندی والله تعالى أعلم بالصواب، ونسأل الله التوفيق والنجاح في الدارين