یہ ایک ایسا حساس مسئلہ ہے جس پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکول یا مدارس میں بچوں کو دی جانے والی سزا (چاہے وہ جسمانی ہو یا ذہنی) کے نقصانات پر آہین ہند میں بھی بات کی گئی ہے اور واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے بچوں میں خوف اور ڈر پیدا ہوگا؛ جس کی وجہ سے وہ پڑھائی چھوڑ سکتے ہیں یا کوئی غلط قدم اٹھا سکتے ہیں۔
ماضی اور حال میں ایسے نہ جانے کتنے واقعات ہوئے یا ہوتے رہتے ہیں جس میں بچوں نے اپنی جانیں تک گنوا دی ہیں۔ پہلے یونیورسٹی اور کالج میں ریگنگ (Ragging) جیسا گھناؤنا عمل نہ جانے کتنی جانیں لے چکا ہے، اس پر پابندی نے ایک حد تک روک لگائی ہے؛ مگر کارپورل پنشمنٹ میں آئین ہند میں دفع ہونے کے باوجود کسی خاص قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، اور آئے دن ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ کارپورل پنشمنٹ سے جہاں جسمانی تکلیف ہوتی ہے یا جسمانی اذیت نہ بھی ہو تو ذہنی تکلیف یا مینٹل ہراسمنٹ (Mental Harassment) ہونا لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتا ہے، جس سے بچے کے اندر احساس کمتری کا جذبہ غالب ہوتا جاتا ہے اور وہ زندگی کے ایسے شعبے میں بھی جس میں وہ اچھی کارکردگی کر سکتا تھا ناکام ہوتا چلا جاتا ہے، ان سب کا ذمہ دار وہ جسمانی یا ذہنی اذیت کا خوف ہی ہوتا ہے۔
آئین ہند ایسی سزا دینے والے کے لیے جیل اور جرمانہ یا دونوں عائد کرتا ہے؛ مگر اکثر ٹیچر اور اسکول و مدارس آئین کی ناواقفیت کی بنا پر ایسا عمل بار بار دہراتے رہتے ہیں، اگر آئین کی ناواقفیت کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو اخلاقی اور انسانی تقاضا بھی اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتا کہ بچوں کو ایسی سزائیں دی جائیں جس سے وہ جسمانی اور ذہنی طور پر کسی بھی درجے میں متاثر ہوں یہاں تعذیب و تادیب کا فرق بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہیے جو کہ بالکل واضح ہے۔