طلبہ کے ساتھ سخت گیری اور تشدد

تعلیم میں بچوں پر سختی بہ قول ابن خلدون بچوں میں مکر و فریب، جھوٹ اور نفاق کے خصائل پیدا کرتی ہے۔ استاد کا بچوں پر سختی کرنا، مار دھاڑ سے کام لینا درحقیقت اپنی نااہلی کو تشدد کے پردے میں چھپانے کے مرادف ہے۔ جسمانى تشدد كی وجہ سے کم سن بچوں کی صلاحیت دب جاتی ہے، اور ذہنی نشو ونما رک جاتی ہے اور عام طور پر اس کا ظہور احساس کمتری کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ جھوٹ، مکر و فریب، اور دغا جیسی ناپسندیدہ چیزیں ان کی خصلت ثانیہ بن کر رہ جاتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ انسانی فضائل کو حاصل کرنے میں نامراد ہو جاتے ہیں، اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی خواہشیں، امنگیں دم توڑ جاتی ہیں، نتیجتاً وہ اپنی موت خود مرجاتے ہیں۔ ابن خلدون کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:

"وذلك أن إرهاف الحد بالتعليم مضر بالمتعلم سيما في أصاغر الولد لأنه من سوء الملكة ومن كان مرباه بالعسف و القهر من المتعلمين أو المماليك أو الخدم سطا به القهر،و ضيق على النفس في انبساطها،وذهب بنشاطها، ودعاه إلى الكسل، و حمل على الكذب و الخبث، وهو التظاهر بغير ما في ضميره خوفا من انبساط الأيدي بالقهر عليه، وعلمه المكر و الخديعة لذلك، وصارت له هذه عادة و خلقا، و فسدت معاني الإنسانية التي له من حيث الاجتماع والتمرن،وهي الحمية و المدافعة عن نفسه و منزله، و صار عيالا على غيره في ذلك، بل وكسلت النفس عن اكتسب الفضائل و الخلق الجميل، فانقبضت عن غايتها و مدى إنسانيتها، فارتكس و عاد في أسفل السافلین.”

اس کی تفصیل یہ ہے کہ پڑھائی لکھائی کے تعلق سے طلبہ پر، خصوصاً کم سن بچوں پر سختی اور تشدد اس لئے نقصان دہ ہے کہ اس سختی کی وجہ سے بچوں کی صلاحیتیں دب جاتی ہیں۔ زیر تربیت جن طلبہ، غلام، اور خادم خدام کا سابقہ مار ڈھاڑ، مرائی پٹائی اور سخت گیری سے رہتا ہے، ان پر یہی سخت گیری حاوی ہو جاتی ہے، ان کی اندرونی خوشی اور امنگوں کا گلا گھونٹ دیتی ہے، ان کے حوصلے پست کر دیتی ہے، انہیں سستی اور کاہلی سے دوچار کر دیتی ہے؛ بلکہ یہ حد سے گزری ہوئی سخت گیری انہیں ” جھوٹ”، دغا بازی، مکاری اور دھوکہ دہی کا عادی بنا دیتی ہے۔

"جھوٹ”  یہ بھی تو ہے کہ انسان اپنے اوپر دست درازی اور پٹائی کے ڈر سے اپنے ضمیر کے خلاف بولے، اور مکاری یہ بھی تو ہے کہ کوئی عمل اپنے شوق سے نہیں بلکہ مجبوری میں کرے۔

پھر یہ غلط اور گندی باتیں ان طلبہ اور ما تحت غلاموں اور خادموں کی عادت اور فطرت بن جاتی ہیں، ساتھ ہی ساتھ وہ تمام بھلے اوصاف اور انسانی جذبات   -جنہیں انسان، معاشرت اور انسانی میل جول سے سیکھتا ہے جیسے کہ غیرت و خودداری، اپنی ذات اور عزت و آبرو کا دفاع وغیرہ وغیرہ- اپنی موت آپ مر جاتے ہیں، اور پھر ایسا انسان دوسروں پر بوچھ بن کر رہ جاتا ہے، کمالات و فضائل اور عمدہ خصائل و اوصاف کی تحصیل سے جی چراتا ہے، اعلی انسانی اقدار کی کون کہے ؛ وہ معمولی انسانی خوبیوں سے بھی خود کو عاجز پاتا ہے اور بالآخر وہ انسان ہو کر کے بھی ” انسانیت” سے کوسوں سے دور، بہت دور ہو جاتا ہے۔

تعلیم و تربیت بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں ہمارے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا اسوہ ہی مشعل راہ ہے ۔ جس دین کی شروعات ہی لفظ إقرأ سے ہو، اور جس کی تعلیمات کی تمام تر توجہ تعلیم و تربیت پر مرکوز ہو، اس دین کو ماننے والی امت کی تعلیمی، تربیتی حالت سب سے زبوں تر ہے،  ظاہر اس کی وجوہات میں طرز تعلیم و تربیت کا فقدان، غیر اسلامی طور و طریقہ، سنت نبوی کی مخالفت بجا طور پر ذمہ دار ہے اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ غیر انسانی، غیر اسلامی رویہ دینی  تعلیمی اداروں میں بھی پایا جاتا ہے۔ اگر کوئی اس طرز عمل پر آواز اٹھاتا ہے تو وہی تنقید و ملامت کا نشانہ بن کر رہ جاتا ہے؛ چہ جائے کہ اس کی نیت میں خلوص ہی کیوں نہ رہا ہو ۔  اگر تعلیم و تدریس کے طریقے میں معیار کے ساتھ محبت کی آمیزش ہو  تو نصاب کی کمیوں کو بہت حد تک پورا کیا جاسکتا ہے۔

اشتراک کریں