شمس الرحمن فاروقی: اردو ادب کے ایک عہد ساز نقاد اور ادیب

تعارف

اردو ادب کی دنیا میں شمس الرحمٰن فاروقی ایک ایسا نام ہے جو اپنی علمی گہرائی، تحقیقی بصیرت اور ادبی تخلیقی صلاحیتوں کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ان کی شخصیت اور خدمات نے اردو ادب کو ایک نئے معیار تک پہنچایا۔ فاروقی صاحب نہ صرف نقاد تھے بلکہ شاعر، ناول نگار، محقق، مترجم، لغت نویس، اور ادبی صحافی بھی تھے۔ ان کی خدمات کا دائرہ اردو کی کلاسیکی اور جدید دونوں اصناف تک پھیلا ہوا تھا، جس نے اردو ادب کو عالمی ادب کے مقابلے میں کھڑا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

ابتدائی زندگی

شمس الرحمٰن فاروقی 30 ستمبر 1935 کو اعظم گڑھ، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا، جہاں ادب اور علم کے چرچے عام تھے۔ ان کے والد مولوی خلیل الرحمٰن فاروقی ایک علمی شخصیت تھے، جن سے فاروقی صاحب نے ابتدائی علمی رجحانات اور مطالعے کی محبت حاصل کی۔ نوجوانی میں ہی انہیں اردو اور انگریزی ادب سے خاص شغف پیدا ہوگیا۔

فاروقی صاحب نے گورکھپور سے بی اے اور 1955 میں الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا، جہاں انہوں نے یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی۔ بعدازاں وہ سول سروس کے امتحان میں کامیاب ہو کر پوسٹل سروس سے وابستہ ہو گئے۔ سرکاری ملازمت کے دوران بھی ان کا ادبی سفر جاری رہا، جس میں انہوں نے اردو ادب کی مختلف جہتوں پر کام کیا۔

ادبی سفر کا آغاز

فاروقی صاحب کا ادبی سفر بطور نقاد شروع ہوا۔ انہوں نے 1966 میں ادبی جریدہ "شب خون” جاری کیا، جو جدیدیت کے علَم برداروں کے لیے ایک پلیٹ فارم بن گیا۔ ترقی پسند تحریک کے مقابلے میں جدیدیت کے اصولوں کو متعارف کرانے اور فروغ دینے میں "شب خون” نے کلیدی کردار ادا کیا۔

یہ جریدہ تقریباً 40 سال تک جاری رہا اور اردو ادب میں ایک نئی فکر کی بنیاد رکھی۔ اس دوران فاروقی صاحب نے کئی مشہور ترقی پسند ادیبوں جیسے عصمت چغتائی، سردار جعفری، اور بیدی کو بھی "شب خون” کے صفحات پر جگہ دی، جو ان کی وسیع النظری کی مثال ہے۔

تحقیقی کارنامے

"شعر شور انگیز"

شمس الرحمٰن فاروقی کی تصنیف "شعر شور انگیز” اردو تنقید میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ میر تقی میر کی شاعری پر مشتمل اس کتاب کی چار جلدیں اردو ادب کے نقادوں اور محققین کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ فاروقی صاحب نے میر کی شاعری کو نہایت باریک بینی سے پرکھا اور ان کے اشعار میں پوشیدہ معنی کو آشکار کیا۔

داستانی ادب

فاروقی صاحب کی داستانی ادب میں خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ انہوں نے "داستان امیر حمزہ” جیسے طویل اور مشکل کام کو ایک بار پھر زندگی بخشی۔ ان کی تحقیق اور تدوین نے اس صنف کو دوبارہ مقبول بنایا۔

ناول نگاری کا فن

"کئی چاند تھے سرِ آسماں"

فاروقی صاحب کا شہرہ آفاق ناول "کئی چاند تھے سرِ آسماں” اردو فکشن میں ایک انقلابی اضافہ ہے۔ یہ ناول نہ صرف اردو دنیا بلکہ ہندی اور انگریزی قارئین میں بھی مقبول ہوا۔ اس ناول میں انہوں نے مغلیہ دور کے ثقافتی اور سماجی پہلوؤں کو ایک منفرد انداز میں پیش کیا۔

شاعری اور دیگر اصناف

فاروقی صاحب شاعری میں بھی ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ ان کے اشعار میں گہرائی اور فکری بلندی پائی جاتی ہے۔ وہ زبان اور اس کے استعمال پر گہری گرفت رکھتے تھے، جس کی جھلک ان کی شاعری، نثر، اور تنقید میں نظر آتی ہے۔

فاروقی کے منفرد نظریات

جدیدیت کا فروغ

فاروقی صاحب نے ترقی پسند تحریک کے اثرات کے مقابلے میں جدیدیت کو فروغ دیا۔ ان کا ماننا تھا کہ ادب کو کسی خاص نظریے یا تحریک کے تحت محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے آزاد اور متنوع ہونا چاہیے۔

اردو اور عالمی ادب

فاروقی صاحب نے اردو ادب کو عالمی ادب کے برابر لانے کے لیے کئی اہم اقدامات کیے۔ انہوں نے انگریزی زبان میں اردو ادب کا ترجمہ کیا اور اردو کے کلاسیکی ادب کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا۔

اعزازات اور خدمات

شمس الرحمٰن فاروقی کو ان کی ادبی خدمات پر کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔

  • سرسوتی سمان (1982): میر پر تصنیف "شعر شور انگیز” کے لیے۔
  • ساہتیہ اکادمی ایوارڈ (1986): شاعری پر کتاب "تنقیدی افکار” کے لیے۔
  • پدم شری (2009): حکومت ہند کی جانب سے۔
  • صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی (2010): حکومت پاکستان کی جانب سے۔
  • ڈی لِٹ اعزازی ڈگری: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔

ان کی شخصیت کا پہلو

فاروقی صاحب کی شخصیت کی سب سے بڑی خوبی ان کا منظم اور مربوط ذہن تھا۔ وہ انتہائی سادہ مزاج اور وسیع القلب انسان تھے۔ انہوں نے ہمیشہ علم کو فروغ دینے اور اردو ادب کو بہتر بنانے میں اپنی زندگی گزاری۔

فاروقی صاحب کا علمی ورثہ

فاروقی صاحب کی تصانیف، تراجم، اور تحقیقی کام اردو ادب کا ایک عظیم خزانہ ہیں۔ ان کی کتابیں نہ صرف طلبہ بلکہ ادبی ماہرین کے لیے بھی ایک اہم حوالہ ہیں۔ ان کی لائبریری، جس میں ہزاروں کتابیں موجود ہیں، علم کا ایک خزانہ ہے۔

وفات

25 دسمبر 2020 کو شمس الرحمٰن فاروقی اپنے آبائی شہر الہ آباد میں انتقال کر گئے۔ ان کی وفات اردو ادب کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان تھی۔

نتیجہ

شمس الرحمٰن فاروقی کی شخصیت اور خدمات اردو ادب کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ان کی تخلیقات اور نظریات نے اردو ادب کو نئی جہتیں دی ہیں۔ ان کا علمی ورثہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

اشتراک کریں