اُردو میں انشائیہ نگاری : ایک تجزیاتی مطالعہ

انشائیہ کیا ہے؟

انشائیہ اردو کی سب سے کم عمر صنف ادب ہے ۔ انشائیہ انگریزی میں Personal Essay کہلا تا ہے ۔انشائیہ میں خیالات و تاثرات جو کسی بھی چیز سے متعلق ہوتے ہیں انہیں اس انداز سے پیش کیا جا تا ہے کہ ایک نئی بصیرت حاصل ہوتی ہے ۔ انشائیہ میں فلسفیانہ نکتہ رسی بھی ہوتی ہے لیکن ہلکے پھلکے انداز میں پیش کی جاتی ہے۔ انشائیہ میں غزل کا سا انداز ہوتا ہے یعنی گہری سے گہری بات خوش گوار انداز میں پیش کی جاتی ہے۔ انشائیہ میں کسی خاص ترتیب کے ساتھ خیالات کا اظہار نہیں ہوتا ۔ اسی وجہ سے اسے غیر منظم ادب پارہ بھی کہا جا تا ہے مختصر طور پر انشائیہ وسعت علم ، احساس ، شعریت اور حکیمانہ نزاکت خیال سے عبارت ہوتا ہے۔

انشائیہ کی تعریف

اس کی تعریف انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا میں یوں کی گئی ہے :

اوسط لمبائی کا نثری مضمون ، جس میں سہل اور سرسری انداز میں صرف اس موضوع سے بحث کی جاتی ہے جو لکھنے والے کو متاثر کرتا ہے ۔ انشائیہ میں شخصی احساسات اور تاثرات کو بنیادی اہمیت حاصل رہتی ہے ۔

انشائیہ، مضمون اور مقالہ میں فرق ⁦

مضمون اور مقالہ درحقیقت ایک صنف کے دو روپ ہیں۔ دونوں کے درمیان فرق صرف یہ ہے کہ کہ مضمون قدرے مختصر ہوتا ہے۔ اس کا انداز تاثراتی اور مفہوم سادہ ہوتا ہے، جب کہ مقالہ نسبتاً طویل اور عالمانہ ہوتا ہے۔ مقالہ میں مضمون کی نسبت زیادہ گہرائی ہوتی ہے اور وہ زیادہ ٹھوس ہوتا ہے مدلل اور محقق انداز میں لکھا جاتا ہے اور اس کے اسلوب میں بھی یکسانیت ہوتی ہے جبکہ مضمون کے اسلوب میں یکسانیت کا ہونا ضروری نہیں ہے۔
مقالہ اور مضمون منصوبہ بند طریقے پر قلمبند کیا جاتا ہے ان دونوں کے بر عکس انشائیہ غیر منصوبہ بند ہوتا ہے تحریر غیر مربوط اور خیالات منتشر ہوتے ہیں۔ اور اس میں نجی خیالات اور ذاتی تاثرات کا دخل ہوتا ہے۔ کہیں کا کہیں ختم ہو جاتا ہے تشنگی اور موضوع کے تعلق سے تشنگی پیدا کر دیتا ہے۔ ان تمام صفات کے ساتھ ساتھ عام طور پر مختصر ہوتا ہے۔

انشائیہ کا ارتقاء

انشائیے کے ابتدائی نقوش اردو کی اولین ادبی کتاب "سب رس” میں ملتے ہیں ۔ انشائیہ نگار نئے معنی ومفاہیم پیدا کرتا ہے ۔ "سب رس” کے مصنف ملا وجہی کے پاس یہ خصوصیت ملتی ہے۔

سرسید احمد خاں کے انشائیوں سے اس صنف کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے ۔ خاص طور سے "امید کی خوشی” پر انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ انشائیہ کی ہر تعریف پر پورا اترتا ہے ۔ سرسید ہی کے زمانے میں محمد حسین آزاد کا "نیرنگ خیال” انشائیوں کا ایک قابل قدر مجموعہ ہے۔ ہے۔شرر نے بھی اس صنف ادب میں بعض اچھے نمونے تخلیق کیے ہیں ۔ حسن نظامی نے اس صنف ادب کو فروغ دینے میں بڑا ہم حصہ ادا کیا ۔ انہوں نے سینکڑوں انشایئے بے شمار موضوعات پر لکھے ہیں۔

انشایئے کے سلسلے میں مزید جو اہم نام ملتے ہیں ان میں ناصر علی دہلوی ، مولانا ابوالکلام آزاد ، فرحت اللہ بیگ ، رشید احمد صدیقی ، مہدی افادی ، پطرس بخاری ، سجادانصاری ، مہدی افادی ، شوکت تھانوی شفیق الرحمن ، کرشن چندر ، سعادت حسن منٹو ، ابراہیم جلیس ، کٹھیالال کپور ، مشتاق احمد یوسفی ، یوسف ناظم اور مجتبی حسین کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔

مشہور انگریزی ادیب جانسن نے انشائیہ کی اہم خصوصیت بڑے ہی مختصر انداز میں بیان کی ہے ۔ وہ انشائیہ کو Lose sally of mind یعنی ذہن کی آزاد تر نگ کہتے ہیں۔ لفظ "ترنگ” انشائیہ کی روح کو ظاہر کرتا ہے ۔ کیونکہ انسان تر نگ میں آ کر اہم موضوع پر بے تکلف انداز میں باتیں کر سکتا ہے ۔ انشائیہ میں انشائیہ نگار کے داخلی جذبات ، احساسات ، تاثرات ، اس کا انداز فکر ، اس کا فلسفہ حیات غرض کہ اس کی پوری داخلی شخصیت نمایاں ہوتی ہے۔
اس صنفِ ادب کا موجد "مونٹین” اسے ذاتی شیبہ ( Self Portrait ) قراردیا ہے ۔

انشائیہ کے مواد اور ہیئت دونوں پر شخصیت کی چھاپ ہوتی ہے ۔ انشائیہ نگار کے خیالات ، احساسات اور تاثرات کو اصولوں اور پابندیوں کی زنجیر نہیں پہنائی جاسکتی ۔ اس کے تاثرات کی رَو کوئی بھی رخ اختیار کرسکتی ہے ۔ اس وجہ سے اسے غیر منظم ادب پارہ بھی کہا جاتا ہے۔ مختصرطور پر انشائیہ کی تین خصوصیات ہوتی ہیں ۔احساس شعریت ، وسعت علم اور حکیمانہ نزاکت خیال ۔ ہراعلی درجے کے انشائے میں یہ تینوں باتیں ملتی ہیں۔

 

اشتراک کریں