30/ستمبر 23ء کی شام بڑی خوشگوار تھی، ہلکی ہلکی بارش کی وجہ سے موسم سہانا ہوگیا تھا، چائے کی انتظار میں بیٹھا کہ موبائل کی گھنٹی بجتی ہے، دوسری طرف ڈاکیا ایک پارسل لانے کی اطلاع دے رہا تھا، مجھے یقین تھا یہ نایاب بھائی کا ہی پارسل ہوگا، اور پھر میرے ہاتھوں میں ایک خوبصورت، دیدہ زیب سر ورق والی کتاب "میں نے رام اللہ دیکھا” تھی۔
کتابوں سے محبت بھی نا! کیا ستم ڈھاتی ہے یہ ‘مظلوم’ ہی سمجھ سکتا ہے۔ "ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر” ایسے موقعے پر ‘جون ایلیا’ ہی یاد آتے ہیں کہ "میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں”، ایک اور کتاب کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اب باری آئی مطالعہ کی، کتابوں سے محبت میں کمی نہیں آئی؛ لیکن غم روزگار مطلوبہ محبت اور وقت دینے سے مانع رہتا ہے۔ رفتہ رفتہ، دھیرے دھیرے ہی سہی، ‘مرید البرغوثی’ کا یہ آخری جملہ، آخری سطر نظر نواز ہو ہی جاتی ہے: "عرصہ دراز سے ایک سوال مجھے پریشان کئے ہوئے ہے، جس کا آج تک جواب نہیں ملا: روح کے رنگ پھیکے کیسے پڑ جاتے ہیں؟ ہتھیاروں کے بغیر جسم زخمی کیسے ہوجاتا ہے؟ ” یعنی کتاب مسک الختام کو پہونچ جاتی ہے۔
زیر نظر کتاب مشہور فلسطینی ادیب اور شاعر ‘مرید البرغوثی’ کی کتاب "رأيت رام اللہ” کا اردو ترجمہ ہے، جس کو ‘نایاب حسن’ نے اپنے گہربار قلم سے سرانجام دیا ہے۔ یہ کتاب فلسطین اور فلسطینی کاز کو سمجھنے کے لئے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے، کتاب کا اسلوب نگارش بھی بہت البیلا اور شاندار ہے۔ مصنف کتاب کی پیدائش فلسطین کے "دیر غسانہ” میں 1948ء میں ہوئی، انہوں نے اپنی تعلیم قاہرہ یونیورسٹی سے 1967ء میں مکمل کی، یہ انہی دنوں کا واقعہ ہے جب عرب اور اسرائیل کی ایک خونخوار جنگ ہوئی تھی جس کو(six day war) چھ دن کے جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس جنگ کے بعد اسرائیل نے جو فلسطینی ملک سے باہر تھے ان کا فلسطین میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا تھا، انہی لوگوں میں ‘مرید البرغوثی’ بھی تھے، تا آنکہ 1993ء میں اوسلو معاہدہ (oslo accords) ہوتا ہے، جس سے کچھ فلسطینیوں کی واپسی یا اپنے وطن کو دیکھنے کی راہ ہموار ہوتی ہے، انہی میں ایک ‘مرید البرغوثی’ بھی تھے، جو 30 سال بعد 1996ء میں اپنے وطن کی زیارت کے لئے واپس آ رہے تھے، یہ اسی سفر کی داستان ہے، جو ان کی اپنی اور ہر فلسطینی کی اپنے وطن سے محبت، جوش، ولولہ کو بیان کرتی ہے، یہ کتاب محض داستان سفر ہی نہیں ہے بلکہ 1948ء اور 1967ء کے بعد سے اہل فلسطین پر گزری ہر شام غم کا بیانیہ بھی ہے۔ ‘مرید البرغوثی’ کی خودنوشت سوانح بھی، اسرائیل کے ذریعہ ڈھائے گئے ظلم و ستم کا قصہ بھی اور فلسطینیوں کی داستان الم بھی۔
کتاب معروف فلسطینی نژاد امریکی مفکر اور شرق شناس ایڈورڈ سعید کے مقدمہ سے شروع ہوکر نو ابواب پر مشتمل ہے، جس میں اس "پل” کا تذکرہ ہے جس سے گزر کر ‘مرید’ جلا وطن ہوگئے تھے، اور پھر اسی سے گزر کر اپنے وطن "رام اللہ” اور جائے پیدائش "دیر غسانہ” کی زیارت کو آئے تھے، اس "چوک” کا منظر نامہ بھی ہے جہاں ‘مرید’ کو ایک ایسی بھیڑ کے سامنے مشاعرہ پڑھنا پڑا تھا جن کا ادب اور شاعری سے کوئی تعلق نہیں تھا، اس "وقت کے حصار” کا عنوان بھی ہے جہاں ان کی والدہ نے اپنا سب سے بڑا سبق سکھایا کہ زندگی کی اصل قدر و قیمت علم سے ہے اور یہ ہر قربانی کا مستحق ہے، "عمو بابا” کا عنوان بھی ہے جس میں "تمیم” (مرید کا بیٹا) ‘مرید’ کو عمو عمو (چچا) کہتا ہے، ‘مرید’ اس کی تصحیح کرتے ہیں کہ میں آپ کا چچا نہیں بابا ہوں ہو تو وہ ‘مرید’ کو عموبابا (چچا ابا) کہنے لگتا ہے، "نقل مکانی” کا عنوان بتلاتا ہے کہ جس سے آدمی پیار کرتا ہے اس کے ساتھ گزرا ہوا زمانہ مختصر لگتا ہے، چاہے وہ طویل ہی کیوں نہ ہو، وہ جانتا ہے کہ ایک محفوظ عاشق اور خوف زدہ محبوب ہونے کا کیا مطلب ہے، اس کی دوری میں قرب اور قرب میں دوری پوشیدہ ہوتی ہے، اور وہ ایک ہی وقت میں اپنی دونوں حالتوں سے پیار کرتا ہے، اس کا ہر گھر کسی دوسرے کا گھر بھی ہے، اس کی مرضی دوسرے کی مرضیوں پر منحصر ہے، "تجدید ملاقات” کے عنوان میں ‘مرید’ کے دوست "ناجی العلی” کی قبر کا بیان ہے جب ‘مرید’ اسے نقشے کی مدد سے "ومبلڈن” کے جنگلوں سے گزرتے ہوئے تلاش کر رہے تھے، "قیامت خیز شب و روز” کا عنوان ‘مرید’ کی ‘رام اللہ’ میں گزری آخری رات کا بیانیہ ہے، جب رات بھر مرید کو نیند نہیں آتی ہے، اور عہد ماضی کی داستان الم و غم اپنے تکیے کو بتا رہے ہوتے ہیں۔
ان سب عنوانات کو مرید البرغوثی نے کچھ اس طرح تحریر کیا ہے کہ جس میں بچپن کے احوال، خاندانی پس منظر، تعلیم و تربیت، اور ان کے دوستوں پر گزرے سخت دن، ان کی قربانیاں، ان کی بکھری ہوئی یادیں – جو کہ پوری فلسطینی قوم سے مختلف نہیں ہیں- کے ساتھ ساتھ فلسطینی تہذیب و ثقافت، اور قضیہ فلسطین بھی سما گئے ہیں۔
ان سب عنوانات کو یکجا کرنے کا مطلب ہے کہ کتاب کو مختلف خشک و دلچسپ پیرائے میں ڈھالنا دینا جس سے قاری کو یک گونہ عدم دلچسپی کا سامنا ہو سکتا ہے مگر ‘مرید البرغوثی’ کی یہ خصوصیت اور امتیاز کہ لیجئے کہ ان کے پاس کتاب کو ایک ایسے خوبصورت پیرائے میں پیش کرنے کا ہنر ہے جو قاری کو کسی ناول کی طرح آخری سطر تک جکڑے رکھتا ہے، اور ساتھ ساتھ قضیہ فلسطین کے تعلق سے اہم مواد کی طرف رہنمائی بھی کرتا ہے۔