جب کوئی شخصیت بقید حیات ہوتی ہے تواس کے اوصاف وکمالات مختلف لوگوں سے مختلف مواقع پرمختلف معاملات میں انفرادی طورسے سابقہ پڑنے کیوجہ سے پنہاں رہتے ہیں لیکن اس کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی اس کے اوصاف وکمالات لوگوں کی زبانی ایک ایک کرکے آشکارا ہونے لگتے ہیں، اور جب منجملہ اسکی خوبیاں لوگوں کے سامنے آجاتی ہیں تب اس کی اہمیت کاصحیح اندازہ ہوتا ہے، اسی لئے یہ بات کہی جاتی ہے کہ کسی بھی شخص کی اہمیت کااندازہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ دنیا سے رخصت ہو جاتاہے اور وسیع خلا چھوڑجاتا ہے، یہ صورت حال اس شخص کی زندگانی پر محیط اعمال وکارنامے پر منحصر ہوتی ہے، بسااوقات اس کی عدم موجودگی کچھ دنوں بعد فراموش کردی جاتی ہے اور جلد ہی اس کے نقوش ذہنوں سے مٹ جاتے ہیں حتیٰ کہ اس کااحساس تک باقی نہیں رہتا۔ لیکن بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جنھیں لوگ ان کے ناقابل فراموش کارناموں کی بدولت ایک غیرمعمولی مدت تک ہی نہیں بلکہ برسہا برس یاد رکھتے ہیں اورفراموش نہیں کر سکتے، انہی شخصیات میں حضرت مولانامحفوظ الرحمٰن مفتاحی ؒکی ذات گرامی ہے۔
مولاناؒکی ذات زہدوتقویٰ، فقرو درویشی، علم و فضل، وعظ و نصیحت، اصلاح و تعمیر، عبادت و ریاضت اور تعلیم و تدریس کے نمایاں اوصاف سے آراستہ تھی، ان کی شخصیت نہ صرف جرأت وبے باکی اور حق پرستی کی آئینہ دار تھی بلکہ دوراندیشی اوربصیرت کاامتزاج بھی تھی، انہوں نے جودینی وملی خدمات انجام دیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہے مگر اس کے ساتھ انہوں نے شہر و اطراف کی علمی ومعاشرتی زندگی میں مثبت وتعمیری رہنما کا کردار ادا کیا، مولانا ؒکے انتقال کے بعدان کی ہندومسلم اتحاد ورواداری کی سعی وکوشش کا مظہرتقریباً ہرطبقہ کے لوگوں کے سوگوار ہونے ، اظہار تعزیت کرنے اور سب کا اپنے اپنے طورسے جنازہ میں شرکت اور تعاون کرنے کی صورت میں دیکھنے کو ملا، مولاناؒ اپنے معاصرین میں امتیازی شان رکھتے تھے ان کی شہرت وعزت، مقبولیت ومحبوبیت، دعوتی وتربیتی کوشش،گفتار دلبرانہ ،کردار مومنانہ، جذبہ قلندرانہ، بے نفسی ، ذوق عبادت، بلند ہمتی، امیروں سے احتراز، دنیوی لذتوں اور آسائشوں سے فرار انہیں دوسروں سے ممتاز کئے ہوئے تھا۔
راقم الحروف کو چند امور میں مولاناؒسے تبادلہ خیال کرنے کاشرف حاصل ہوا جن میں مولاناؒکی رائے اور نظریات سے ان کی بصیرت اور دور اندیشی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
استفادۂ عام کی غرض سے ان چند امور کا تذکرہ یہاں پر کیا جارہا ہے
مسلم معاشرے کی خامیوں اور خرابیوں کے سلسلے میں گفت و شنید صرف مسلم معاشرے تک ہی محدود رکھنا :
مولانا ؒکا نظریہ تھا کہ مسلم معاشرے کی خامیوں اور خرابیوں کے سلسلے میں جو بھی نشاندہی کرنی ہو اسے صرف ایسے اجلاس یا مجمع میں کرنی چاہیے جہاں سامعین صرف مسلمان ہوں، ایسے اجلاس یا پروگراموں میں جہاں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے طبقہ کے لوگ بھی ہوں اپنے معاشرے کی خامیاں بیان کرنا عدم بصیرت پر مبنی ہے، ایسا کرنے سے دوسرے طبقہ کے لوگوں میں غلط پیغام جائے گا، چونکہ یہ ہمارا آپسی معاملہ ہے اس لئے اسے اپنی ہی محفلوں اور مجالس میں حل کرنا چاہیے دوسروں کو اپنی خامیوں اور کوتاہیوں سے باخبر نہ کرناچاہیے ، راقم الحروف نے اس طرح کے ایک اجلاس کا مولاناؒسے تذکرہ کیاجہاں ایسی ہی صورت حال پیش آئی تھی اس پر خود مولاناؒ نے ایک مجلس کا تذکرہ کرکے تشویش کااظہار کیا جہاں انہیں بھی ایساہی اتفاق ہوا تھا ۔
انتخابات میں مذہب ، فرقہ ومسلک سے صرفِ نظر ایماندار اور اہلیت والے کے حق میں حق رائے دہی کا استعمال کرنا:
مولاناؒ کاموقف تھاکہ انتخابات میں امیدواروں کے مذہب،فرقہ اور مسلک کو دیکھنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ سب سے زیادہ ایماندار اور اہلیت والا امیدوار کونساہے خواہ اس کا تعلق کسی مذہب،فرقہ اور مسلک سے ہو، اور اسی کو ووٹ دینا چاہیے ، اس طرح ایماندار اور اہلیت والے پیش پیش آئیں گے عدل وانصاف کی راہ ہموار ہوگی،فرقہ وارانہ ہم آہنگی کافروغ ہوگااور مذہب وفرقہ کے نام بانٹنے والوںکی سیاست بانجھ پن کا شکار ہوگی۔
یہاں کے دستورمیں ہر طبقہ کے لوگوں کومکمل آزادی اورمساوی حقوق عطا کئے گئے ہیں،مسلمان اپنے حقوق کو قانونی چارہ جوئی اور پرامن طریقے سے حاصل کرسکتے ہیں، ابھی ایسا وقت نہیں آیاہے کہ انہیں اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے تشدد کی راہ اختیار کرنی پڑے، مولاناؒنے فرمایاکہ جولوگ اس کے جواز کی بات کرتے ہیں مجھے ان کے جواز کی دلیل سمجھ میں نہیں آتی۔
دین کے نام پرکوئی بھی ایساکام کرنے سے احترازکرنا جس سے دین کی غلط نمائندگی ہوتی ہو:
بسااوقات دین کے نام پر بہت سے ایسے کام کئے جاتے ہیں جومباح ہوتے ہیں یہ کام اگرایسے معاشرے میں کئے جائیں جہاں صرف مسلمان ہوں توان کاموں کیوجہ سے دین کی غلط نمائندگی کاخدشہ نہیں رہتا، لیکن اگروہی کام ایسے معاشرے میں کئے جائیں جہاں دوسرے طبقہ کے لوگ بھی رہتے ہوں تودین کی غلط نمائندگی کا خدشہ مزیدبڑھ جاتا ہے، ایسی صورت میں خدشات سے پاک ان کامتبادل تلاش کرناچاہیے اورکوئی متبادل نہ ملنے پرمصلحتاًایسے کاموں ہی سے اجتناب کرناچاہیے۔
مثال کے طور پر رمضان کے مہینہ میں سحری کے وقت سے بہت پہلے قوالی اوراعلان سحری وغیرہ کا التزام جس سے دوسرے طبقہ کے لوگوں کی نیندمیں خلل پڑتاہے نامناسب عمل ہے، رہی قوالی تواس کاحکم بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں البتہ سحری کااعلان جس کامقصد سحری کے لئے بیدار کرنا ہے تواس مقصد کا بہترین متبادل موبائل موجود ہے جو ہر کس وناکس کودستیاب ہے، جس کے بعد ہمارے ہندوستان جیسے معاشرے میں ایسی کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی، اسی کے پیش نظرمولاناؒکی رائے اعلان سحری کے حق میں نہیں تھی۔
یہ مولانامرحوم کے خیالات ونظریات کی چند جھلکیاں ہیں جو ان کی دور اندیشی اوراسباب ونتائج کے صحیح ادراک واحساس کی مرہون منت ہیں۔