محترم قارئين!
وقت کا پہیہ بہت سبک رفتاری سے گھوم رہا ہے کل تک جو غربت اور خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے آج عیش وعشرت کی بنسی بجا رہے ہیں اسی طرح سیکڑوں ایسے بھی ہیں جنکا ماضی بیحد شاندار ،چمک دمک ،عیش و آرام والا تھا آج دانے دانے کو محتاج۔
یہ قدرت کی کرشمہ سازی اور اسکا نظام ہے کہ وہ رائی کو پربت اور پربت کو رائی میں کب تبدیل کردے کوئی نہیں جان سکتا ہے جیسا کہ اللہ رب العزت نے قران میں فرمایا:
وتلک الایام نداولھا بین الناس، آل عمران ١٤٠
ہر انسان جو اس دنیا میں آیا ہے اسکی تمنا اور آرزو خوب سے خوب تر مقام کے حصول کی ہوتی ہے لیکن اس مقام کو پانے اور حاصل کرنے کے لٸے بہت سارے لوگ ضمیر فروشی سے نہیں کتراتے تو بہتیرے خودی کا سودا کر بیٹھتے ہیں
آج دنیا فتنوں کی آماجگاہ اور ضلالت کی ڈھیر بن چکی ہے جگہ جگہ انسان شیطانی سوچ وبچار کی دکان سجاۓ بیٹھا ہے جہاں سے نفرت وعدوات، دشمنی اور تعصب کی خرید و فروخت بھی خوب ہورہی ہے آج انسانوں کی اکثریت انہیں جگہوں پر بیٹھنا پسند کرتی ہے جہاں اوچھی حرکات و سکنات کے محرکین و مرتکبین کا جماوڑا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جا بجا قتل و غارت گری، آبروریزی و عصمت دری کے روح فرسا واقعات و حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں ایک حادثہ گزرتا نہیں کہ دوسرا پیش آجاتا ہے انسانیت اور آدمیت کا جنازہ روز بروز نکل رہا ہے کوئی دن بلکہ کوئی گھنٹہ ایسا نہیں گزرتا کہ ملک میں عصمت دری، قتل و اغوإ ، سلب ونہب اور دیگر سنگین جراٸم وقوع نہ ہوتے ہوں آخر یہ سب کرنے والا کون؟ اور کس کے ہاتھوں ہورہا ہے ؟ کون ہے جو بیٹیوں کی عزت و آبرو کو لوٹتا ہے ؟ کون ہے جو معصوموں اور مجبوروں کو قتل کرتا ہے ؟وہ کون ہے جو شہوانی جذبات سے مغلوب بہنوں کی عزتوں سے کھلواڑ کرنے میں وحشیوں اور درندوں کو بھی پچھاڑ دے رہا ہے ؟
دوستو آپ سوچ رہے ہونگے کہ وہ کسی دوسرے سیارے کا باشندہ یا کسی خوفناک جنگل کا خونخوار بھیڑیا یا کوئی اور مخلوق ہوگی نہیں ۔ یہ آپ کی خام خیالی اور بد ظنی ہے جنگلات کے وحشیوں کے متعلق، وہ بھی اتنے بےحس اور بے مروت نہیں جتنا اس کرہ ارضی پر بسنے والا آج کا انسان جو خود کو دیگر مخلوقات سے مہذب و معتبر گردانتا ہے جو چاند پر کمندیں ڈال کر اپنے تخیل اور طاقت وقوت کی بلند پروازی پر نازاں ہے۔
یہ سن کر آپ حیران ہونگے کہ انسان یہ سب کیسے کرسکتا ہے جبکے اسکے سینے میں تو ایک دردمند دل کے ساتھ ہی عقل وشعور سے بھی وہ بہرہ ور ہوتا ہے جو اسکو اسطرح کی حرکات سے روکتا ہے تو اسمیں حیرانی وتعجب کی کوئی بات نہیں کیونکہ انسانوں نے اب شیطان کا روپ دھارن کرلیا ہے انسانیت کا لبادہ اتار کے شیطانی چولا زیب تن کرلیا ہے اور ابلیس بھی بہت خوش و خرم ہے کہ چلو اب ہماری جنس کے علاوہ کوٸ اور بھی ہے جو ہمارے نا مکمل کاموں کو پاۓ تکمیل تک پہونچانے میں دن رات ایک کٸے ہے بلکہ ابلیس اس بات پر نادم اور شرمندہ ہوگا کہ جس انسان کو سجدہ نہ کرنے پر وہ راندہ درگاہ ، مردود ورجیم ٹھہرا آج وہی اس کی وفاداری کا دم بھر رہا ہے، اے کاش میں ایسا نہ کیا ہوتا!
جب انسان آگے بڑھ کر خود شیطان کا ہاتھ بٹا رہا ہے اسکی مدد کررہا ہے اور اسکے کام آرہا ہے تو بھلا بتلائیے اب شیطان کا کام ہی کیا رہ گیا! شیطان کو تو اب چھٹی مل گئی اور اسکو راحت بہم پہنچا رہا ہے وہ انسان جس سے اسکی ازلی و ابدی عداوت تھی، ہے اور رہے گی بھی۔
بہر کیف انسان اب اپنے اندر سے انسانیت کی اس طاقت وقوت اور روح کو نکال باہر کردیا ہے جو مہر وفا، عزت و آبرو کی محافظت سے مسمی تھی۔
ساتھیو! ایسی بات نہیں کہ چوری، ڈکیتی ،زنا کاری ، عصمت دری پہلے نہیں ہوتی تھیں سب گناہ ہوتے تھے لیکن کچھ شرم وحیا باقی تھی اب تو سب ننگے ہوگئے۔
اب وہ ڈکیت اور بد خلق نہیں جو جنگلوں میں بڑے بڑے ساہوکاروں کی تجوریاں لوٹ کر لے جاتے تھے پالکی اور ڈولی کو اغوإ کرکے عزت وناموس اتار کر روپوش ہوجاتے تھے اب تو وہ درندے انسانی آبادیوں اور بستیوں میں بستے ہیں جو دن کے اجالے اور سر راہ عزت ناموس کو لوٹتے ہیں اب وہ سفید پوش، تعلیم یافتہ، بنگلوں میں رہنے والے ڈکیت ہیں جو بنکوں میں جمع غریبوں کا دھن ہڑپ کرجاتے ہیں پہلے تو ایک قتل پر انسانیت کراہ اٹھتی تھی اب تو ہزارو قتل پر زبان مقفل اور دنیا خاموش اب تو انسان نما درندوں کی بھیڑ کسی شخص کو لاٹھی ڈنڈوں اور لوہے کے راڈ سے گھیر کر اس لٸے مار دیتی ہے کہ اسکا ذات، دھرم اور سوچ و فکر الگ ہے۔
انسانیت کراہ رہی ہے بنات حوا ٕ اپنی عزت وناموس کی حفاظت کو لیکر فکر مند ہیں گھروں سے نکلنے پر ڈر رہی ہیں کیونکہ یہ انسانی بھیڑیئے کبھی آصفہ ، نربھیا تو کبھی منیشا جیسی لاتعداد بیٹوں کی عزت و آبرو کو تار تار کرنے بعد انکی جان لینے کے لئے گلی کوچوں اور نکڑوں پر جا بجا تاک میں بیٹھے ہیں
ایسے ماحول میں دوستو شیطان کے لئے بچا کیا ہے وہ کرے تو کیا کرے واقعی اسی ماحول اور انسانیت کی اسی پستی و خصلت کو دیکھ کر مرحوم رفیق شادانی نے کیا تازیانہ برسایا ہے لوگوں پر کہ
سب کام اوکر چھن لِہس آدمی رفیق
جنگل نہ چلا جاۓ تو شیطان کا کرے