غزل

وہ لوگ اور تھے جو ساتھ ساتھ رہتے تھے
وہ چوٹ درد کی سہتے تھے کچھ نہ کہتے تھے

نہ جانے کیسی چلی ہے ہواۓ مجبوری
زبان سی لیے جو حق کی بات کہتے تھے

وہی ہوۓ ہیں شہ وقت کے مصاحب جو
کہ اس سے پہلے عدو کے جلو میں چلتے تھے

قریب آکے بھی وہ دونوں دل گرفتہ ہیں
جو دیکھ دیکھ ترقی کو میری جلتے تھے

لگی ہے چوٹ شکستہ ہوئے ہیں دل آخر
وگرنہ دید کی خاطر بہت مچلتے تھے

اٹھا اور اٹھ کے چلا شوق سے سوۓ مقتل
وفور شوق میں خود پاؤں کب سنبھلتے تھے

سیاہی پھیلی، تجلی کو اب ترستے ہیں
چراغ شب تھے اندھیروں میں خوب جلتے تھے

اشتراک کریں