فقہ اور ادب کا نادر رشتہ
اردو ادب کی تاریخ صرف شاعری، نثر یا ناول تک محدود نہیں۔ اس کے جھروکوں میں فقہی لٹریچر کی ایک مکمل دنیا آباد ہے جو اردو زبان کو جلا بخشنے، اس کے ذخیرۂ الفاظ کو وسعت دینے اور معاشرتی شعور کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
فقہی لٹریچر کو اگرچہ مذہبی یا قانونی مباحث تک محدود سمجھا جاتا ہے، تاہم یہ لٹریچر اردو ادب کی لسانی تشکیل اور اس کے فروغ و ترویج میں بھی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس مضمون میں ہم یہ جائزہ لینے لی کوشش کریں گے کہ فقہی کتب، رسالے اور علمی مباحث نے اردو زبان کو نہ صرف تقویت بخشی بلکہ اسے عوامی سطح پر مقبول بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے، لہذا ہم اردو زبان ادب کی ترویج و اشاعت میں فقہی مواد کی حصہ داری کی تعین کریں گے۔
فقہی لٹریچر کیا ہے؟ تعریف اور تاریخی پس منظر
فقہی لٹریچر سے مراد وہ تحریریں ہیں جو اسلامی قانون (فقہ) کے اصولوں، تشریحات اور مسائل سے بحث کرتی ہیں۔ ابتدائی دور میں یہ لٹریچر عربی اور فارسی زبانوں میں تحریر کیا جاتا تھا، لیکن جب جنوبی ایشیا میں اسلامی تہذیب نے اپنے قدم جمانے شروع کیے تو مقامی زبانوں خصوصاً اردو کو بھی اس کا حصہ بنایا گیا۔
مغل دور میں فقہی مسائل پر اردو میں رسائل لکھے جانے لگے، جبکہ برطانوی دورِ حکومت میں اس کی ضرورت مزید بڑھ گئی کیونکہ انگریزوں کے قانونی نظام کے مقابلے میں مسلمانوں کو اپنے مذہبی قوانین کو سمجھنے اور انہیں محفوظ رکھنے کی اشد ضرورت تھی۔
تاریخی مثال:
مشہور فقیہ شاہ ولی اللہ دہلوی (1703–1762) نے اپنی کتاب "حجۃ اللہ البالغہ” میں اسلامی تعلیمات کو عوامی زبان کے قریب تر لانے کی کوشش کی۔ اگرچہ یہ کتاب عربی زبان میں ہے، لیکن اس کے تراجم اور تشریحات نے اردو کے ادبی ورثے کو بھرپور طریقے سے متاثر کیا۔
اردو زبان کی ترقی میں فقہی لٹریچر کا کردار
اردو ادب کے لسانی ارتقاء میں جہاں اور بہت سارے عوامل کار فرما ہیں وہیں فقہی دستاویزات کا اس سلسلے میں بہت ہی اہم و مختلف النوع کردار رہا ہے۔ آئیے چند عوامل پر گفتگو کرتے ہیں۔
لسانی ارتقاء: نئے الفاظ اور اصطلاحات کا اضافہ
فقہی لٹریچر نے اردو کے لغت کو اسلامی اصطلاحات سے مالا مال کیا۔ مثال کے طور پر "عقد”، "وقف”، "طلاق”، "وراثت” جیسے الفاظ جو پہلے صرف عربی یا فارسی میں استعمال ہوتے تھے، اردو میں فقہی مباحث کے ذریعے داخل ہوئے۔ – فقہی کتب نے مرکب اصطلاحات جیسے "حق اللہ”، "حق العباد” کو بھی اردو کا حصہ بنایا۔
اقتباس:
مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب "بہشتی زیور” (جو خواتین کے لیے فقہی رہنمائی پر مشتمل ہے) میں درج ذیل جملہ دیکھیے:
"بیوی پر شوہر کی اطاعت فرض ہے، بشرطیکہ وہ اللہ کی نافرمانی کا حکم نہ دے۔”
یہاں "فرض”، "اطاعت”، "نافرمانی” جیسے الفاظ فقہی لٹریچر کے ذریعے اردو میں رائج ہوئے۔
ادبی اسلوب کی تشکیل
فقہی لٹریچر نے اردو نثر کو ایک منظم اور منطقی اسلوب عطا کیا۔ فقہی مباحث میں دلیل، تشریح اور استدلال کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے، جو اردو ادب کے علمی مضامین میں بھی جھلکتا ہے۔
مثال:
سر سید احمد خان کی "تفسیر القرآن” اور "رسالہ اسباب بغاوت ہند” میں فقہی اسلوب کی واضح جھلک ملتی ہے۔
عوامی رابطہ: ادب کو مقبول بنانے میں معاونت
فقہی مسائل روزمرہ زندگی سے جڑے ہوتے ہیں، اس لیے عوام نے ان کتب کو بڑے پیمانے پر پڑھا۔ اس طرح اردو زبان بھی گھر گھر پہنچی۔ مدارس اور دینی کتب خانوں میں فقہی رسالوں کا اردو ترجمہ ہوا، جس سے زبان کا دائرہ وسیع تر ہوا۔
اردو ادب کے نامور فقہی مصنفین اور ان کی خدمات
مولانا اشرف علی تھانوی (1863–1943) تھانوی صاحب کو اردو فقہی ادب کا امام کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ ان کی کتاب "بہشتی زیور” اردو زبان کی سب سے مقبول فقہی کتب میں سے ہے، جسے لاکھوں خواتین نے پڑھا اور سمجھا۔ اس کتاب نے نہ صرف فقہی مسائل کو آسان اردو میں بیان کیا بلکہ خواتین کے لیے ادبی ذوق کو بھی جگایا۔
اقتباس:
"عورت کی عزت اس کے گھر میں ہے، بازار میں نہیں۔” — بہشتی زیور
مولانا عبدالحق خیرآبادی (1797–1861) انہوں نے "فتاوی خیرآبادی” جیسی کتاب لکھی جو اردو فقہی لٹریچر کا ایک شاہکار ہے۔ ان کے اندازِ بیان میں سادگی اور جامعیت نے اردو نثر کو نئی بلندیاں عطا کیں۔
شاہ عبدالعزیز دہلوی (1746–1824) ان کی "فتاوی عزیزی” اردو زبان میں فقہی مسائل پر پہلی مکمل کتاب سمجھی جاتی ہے۔ اس کتاب نے اردو کو علمی زبان کے طور پر متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
فقہی لٹریچر کا ادبی تجزیہ: زبان، اسلوب اور اثرات
درج ذیل سطور میں ہم فقہی دستاویزات جسے ہم فقہی ادبیات کہہ سکتے ہیں ان کا ادبی حیثیت سے تجزیہ کریں گے۔ اور یہ جاننے کی کوشش کریں گے کی کن کن ناحیوں سے ان کے اثرات اردو ادب پر واقع ہوئے ہیں۔
(الف) سادگی:
فقہی کتب کا بنیادی مقصد عوام تک پیغام پہنچانا ہوتا تھا، اس لیے ان میں سادہ اور عام فہم زبان استعمال کی گئی۔ یہ سادگی بعد میں اردو نثر کا ایک امتیازی وصف بن گئیں۔
(ب) حکایات اور امثال:
فقہی لٹریچر میں پیچیدہ مسائل کو سمجھانے کے لیے حکایات اور روزمرہ کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ یہ تکنیک بعد میں افسانوں اور ناولوں میں بھی نظر آتی ہے۔
مثال:
مولانا تھانوی نے "بہشتی زیور” میں ایک جگہ لکھا:
"جیسے بیمار کو دوا کھلانی ضروری ہے، ویسے ہی نفس کو تربیت دینا ضروری ہے۔”
ج منطقی استدلال
فقہی مباحث میں قرآن و حدیث قیاس اور اجماع سے دلائل دینے کا طریقہ اردو ادب کے علمی مضامین میں بھی سرایت کر گیا۔ معاشرتی تبدیلیوں میں فقہی لٹریچر کا کردارفقہی لٹریچر صرف زبان تک محدود نہیں تھا بلکہ اس نے معاشرتی اصلاح میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ مثلاً:
- خواتین کی تعلیم: بہشتی زیور” جیسی کتب نے خواتین کو مذہبی اور سماجی حقوق سے آگاہ کیا۔ .
- غریب طبقے کی بیداری: فقہی رسائل نے سود، وراثت اور تجارت کے انصاف پر مبنی اصول بتا کر معاشی شعور دیا۔
- ثقافتی شناخت کی بحالی: برطانوی استعمار کے دوران فقہی لٹریچر نے مسلمانوں کو ان کی ثقافتی روایات سے جوڑے رکھا۔
جدید دور میں فقہی لٹریچر کی اہمیت
آج بھی فقہی لٹریچر اردو ادب کا ایک زندہ حصہ ہے۔ مثال کے طور پر:
- – ڈیجیٹل دور: تمام کتب آن لائن دستیاب ہیں، جنہیں نئی نسل بڑے پیمانے پر پڑھ رہی ہے۔
- – ادبی تقابلی مطالعہ: جدید ادیب فقہی لٹریچر کو سماجی تنقید اور تاریخ کے تناظر میں استعمال کر رہے ہیں۔
فقہی لٹریچر اور اردو شاعری:
ایک غیر مرئی رشتہ فقہی لٹریچر کا اثر صرف نثر تک محدود نہیں رہا۔ اردو شاعری نے بھی فقہی اصطلاحات اور مفاہیم کو اپنے اشعار میں سمونے کا فن سیکھا۔ خاص طور پر تصوف اور اخلاقیات سے متعلق شاعری میں فقہی تعلیمات کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر، علامہ اقبال کی شاعری میں فقہی تصورات جیسے "امت”، "خلافت”، "عدل” کو فلسفیانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اقتباس: "عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے” — علامہ اقبال یہاں "جنت” اور "جہنم” جیسے فقہی تصورات کو انسانی عمل کے ساتھ جوڑ کر شاعری کو گہرائی ملی۔
مثنویوں کا فقہی رنگ:
مثنوی "سکندر نامہ” (نظمِ غالب) اور "چراغِ دیر” (حالی) جیسی طویل نظموں میں فقہی اصولوں کی تشریح کو شاعرانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ان نظموں نے عوام کو مذہبی تعلیمات سے روشناس کروانے کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی شعریات کو بھی مضبوط بنایا۔
فقہی لٹریچر اور اردو تراجم
فقہی لٹریچر کے فروغ میں تراجم کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ ابتدائی دور میں عربی اور فارسی کی فقہی کتب کو اردو میں منتقل کرنا ایک علمی انقلاب تھا۔ اس عمل نے نہ صرف اردو کے قواعدی ڈھانچے کو مستحکم کیا بلکہ اسے ایک بین الاقوامی علمی زبان کے طور پر بھی متعارف کرایا۔
مشہور تراجم
– "کیمیائے سعادت” (امام غزالی کی فارسی کتاب کا اردو ترجمہ) نے اخلاقیات اور فقہ کو عام فہم زبان میں ڈھالا۔
– "فتاوی عالمگیری” کا اردو ترجمہ ہندوستان میں اسلامی قوانین کی تشہیر کا ذریعہ بنا۔
اقتباس:
"علم بغیر عمل کے ایسے ہے جیسے درخت بغیر پھل کے۔”— کیمیائے سعادت سے ماخوذ
فقہی لٹریچر کا تنقیدی جائزہ: چیلنجز اور تنازعات
ہر ادبی صنف کی طرح فقہی لٹریچر بھی تنقید اور تنازعات سے مبرا نہیں۔ کچھ نقادوں کا خیال ہے کہ فقہی لٹریچر نے اردو کو "مذہبی اصطلاحات کا بوجھ” دے دیا، جس سے اس کی تخلیقی آزادی متاثر ہوئی۔ دوسری طرف، حامیانِ فقہی ادب کا موقف ہے کہ یہ لٹریچر اردو کی لسانی صلاحیتوں کو نکھارنے کا ذریعہ بنا۔
اہم تنقیدی نکات:
- زبان کی جامد ہوتی ہوئی ساخت: فقہی اصطلاحات کے کثرتِ استعمال سے اردو کی لچکدار فطری ساخت پر اثر پڑا۔
- صنفی تعصبات: بعض فقہی کتب میں خواتین کے حقوق کو محدود انداز میں پیش کیا گیا، جسے جدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
- تاریخی تناظر کا فقدان: قدیم فقہی مسائل کو جدید معاشرتی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں دشواری۔
فقہی لٹریچر اور جدید اردو ناول: ایک تقابلی مطالعہ
جدید اردو ناول نگاروں نے فقہی لٹریچر سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی کہانیوں کو گہرائی دی ہے۔ مثال کے طور پر، عصمت چغتائی کے ناول "ٹھڈی لکیر” میں فقہی مسائل کو سماجی تنقید کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
اسی طرح، عبداللہ حسین کے "اداس نسلیں” میں وراثت کے فقہی قوانین کو خاندانی تنازعات کے پس منظر میں استعمال کیا گیا ہے۔
اقتباس:
"جب تک قانون وراثت عورت کے حق میں نہیں بولتا، ہمارے گھروں میں آگ لگی رہے گی۔” — ٹھڈی لکیر سے اقتباس
فقہی لٹریچر کا مستقبل:
– ڈیجیٹل دور میں مواقع ٹیکنالوجی کے اس دور میں فقہی لٹریچر کو نئی زندگی ملی ہے۔
– آن لائن کورسز، ای بکس، اور پوڈکاسٹس کے ذریعے نئی نسل تک اس کی رسائی ممکن ہوئی ہے۔
مثال کے طور پر:
– "فقہ اکیڈمی” جیسے پلیٹ فارمز پر اردو میں ویڈیو لیکچرز دستیاب ہیں۔
– "بہشتی زیور” کی آڈیو کتابیں لاکھوں صارفین تک پہنچ رہی ہیں۔
چیلنجز: – لسانی پیچیدگی:
- قدیم فقہی اصطلاحات کو جدید اردو میں ڈھالنے کی ضرورت۔
- – نئی نسل کا رجحان: مذہبی لٹریچر کے بجائے سوشل میڈیا مواد کی طرف میلان
۔ فقہی لٹریچر اور بین المذاہب ہم آہنگی: ایک نیا زاویہ
فقہی لٹریچر کو اکثر صرف مسلمانوں تک محدود سمجھا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے ہندوستان کی بین المذاہب ثقافت کو بھی متاثر کیا ہے۔
مثال کے طور پر، ہندو مفکرین نے اپنی تحریروں میں فقہی اصولوں کا حوالہ دے کر سماجی انصاف کے تصورات کو تقویت بخشی۔
تاریخی مثال:
راجا رام موہن رائے نے ہندو سماج کی اصلاح کے لیے اسلامی فقہ کے تصور "اجتہاد” کو اپنے تحریکی خطوط میں استعمال کیا۔
فقہی لٹریچر کی تدریس: مدارس سے یونیورسٹیز تک
فقہی لٹریچر کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنانے سے اردو ادب کے طلباء میں تنقیدی سوچ کو فروغ ملا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے اداروں میں فقہی لٹریچر پر تحقیقی مقالے لکھے جا رہے ہیں، جو اردو کی علمی روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
تجاویز:
- فقہی لٹریچر کو جدید ادبی نظریات کے ساتھ مربوط کرنا۔
- اسکولوں میں فقہی کہانیوں کو اخلاقی تعلیم کے طور پر شامل کرنا،
- فقہی لٹریچر پر ڈاکیومنٹریز بنائی جائیں۔
فقہی لٹریچر کو کیسے زندہ رکھا جائے؟
- ادبی میلے اور سیمینارز: فقہی لٹریچر پر مباحثوں کو فروغ دینا۔
- ادبی ایوارڈز: فقہی موضوعات پر لکھنے والوں کو اعزازات سے نوازنا۔
- انٹرایکٹو مواد: اینی میشنز اور گرافک ناولز کے ذریعے فقہی کہانیوں کو دلچسپ بنانا۔
نتیجہ: فقہی لٹریچر – اردو ادب کا گمشدہ ذخیرہ
فقہی لٹریچر کو اردو ادب کے دائرے میں وہ مقام نہیں ملا جو اس کا حق ہے۔ تاہم، تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ اس نے نہ صرف اردو کو علمی بلندیوں تک پہنچایا بلکہ معاشرے کو بھی روشن خیال بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ فقہی لٹریچر صرف ماضی کا احسان نہیں، بلکہ مستقبل کی اساس ہے۔ یہ اردو زبان کو جڑوں سے جوڑتے ہوئے اسے عالمی ادب کی شاہراہ پر گامزن کر سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس کے ادبی، لسانی اور سماجی پہلوؤں کو یکجا کر کے ایک نیا بیانیہ تشکیل دیں۔