دینی مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ طلبہ میں دین کی معرفت پیدا کی جائے ، مگر چونکہ دین کی معرفت فہم کتاب وسنت پر موقوف ہے اور دین کے بنیادی سرچشمے عربی زبان میں ہیں ، اس لیے دینی مدارس میں عربی ادب کی تدریس ہوتی ہے تا کہ طلبہ مدارس کامل بصیرت کے ساتھ قرآن وحدیث کا علم و معرفت حاصل کریں اورعلمی وتحقیقی انداز میں دین کی دعوت وتبلیغ کے فرائض بحسن و خوبی انجام دے سکیں ۔
عربی ادب کی تعلیم کے لیے دینی مدارس میں قرآن اور کتب حدیث کے علاوہ متقدمین اور متاخرین کی بہت سی عربی ادبی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں اور عربی انشاء کی تمرین کرائی جاتی ہے منتہی درجات کے طلبہ کو عربی زبان کس طرح پڑھائی جائے اور عربی انشاء کی مشق کسی طرح کرائی جائے؟ انہی دونوں باتوں کے پیش نظر عربی ادب وانشاء کے سلسلہ میں چند اساسی امور کی نشاندہی کی جارہی ہے، مجھے پوری امید ہے کہ دینی مدارس و جامعات کے طلبہ و اسا تذہ اس مضمون سے ضرور مستفید ہوں گے۔
إن شاء الله والله هو الموفق وهوالمعين
قانون اشتقاق
قانون اشتقاق عربی زبان کی ایک خصوصیت ہے کہ ایک مادہ ہوتا ہے، اس سے بہت سے افعال واسماء مشتق ہوتے ہیں ۔ اس قانون کی وجہ سے عربی زبان ایک عالمی زبان ہے اور وہ ہر دور کی ترقیات کا ساتھ دے سکتی ہے، مثلاً مادہ ” طیر “ پہلے موجود ہے، جب دنیا نے ہوائی جہاز کی ایجاد کی اور ہوائی اڈہ وجود میں آیا، تو عربی زبان نے ” الطائرة “ اور” المطار “ کے الفاظ پیش کر دیے۔
اس قانون اشتقاق کی بنیاد پر ہر دور میں نئی ایجادات کے لیے الفاظ فراہم کیے جاسکتے ہیں، البتہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی انگریزی الفاظ کو عربی میں منتقل کر لیا جاتا ہے جیسے ” التلفزيون “ ٹیلی ویزن کے لیے ” التلفون “ ٹیلی فون کے لیے وغیرہ۔ اگرچہ ان کے لیے خالص عربی الفاظ بھی موجود ہیں، عربی ادب کے درس کے دوران اس جانب ضرور توجہ دینا چاہیے۔
مادہ کا معنوی اشتراک
عربی الفاظ میں جو مادہ ہوتا ہے اس کا ایک معنی ضرور ہوتا ہے جو اس کے تمام مشتقات و متعلقات میں مشترک ہوتا ہے، جیسے عصم کا معنی بچانا ، اس سے مندرجہ ذیل الفاظ مشتق ہیں یا اس سے متعلق ہیں اور سب میں بچانے کا معنی پایا جاتا ہے۔
- المعصم : کلائی ( آدمی اس سے حفاظت کرتا ہے )
- العاصمة: راجدھانی ( ملک کی حفاظت کرنے والی)
- العصمة: عصمت؛ جس کی حفاظت کی جاتی ہے۔
- المعصوم: گناہوں سے محفوظ ۔
اسی طرح لفظ ” ج ن ن کا معنی ہے چھپنا چھپانا جو الفاظ اس سے بنے ہیں سب میں وہ معنی موجود ہے۔
- المجنون : پاگل ؛ اس کی عقل چھپ جاتی ہے۔
- الجن : ناری مخلوق ، نگاہوں سے اوجھل ہے۔
- الجنة : جنت؛ نگاہوں سے اوجھل ہے۔
- الجنين : پیٹ کا بچہ نظروں سے دور ہوتا ہے۔
- المجنة : ڈھال آدمی اس کی آڑ میں چھپ جاتا ہے۔
اسی طرح اور بھی مثالیں تلاش کی جاسکتی ہیں عقلمندوں کے لیے یہ ادبی اشارہ کافی ہے۔ استاد ادب کو چاہیے کہ عربی زبان کے اس پہلو پر ضرور توجہ دے۔ اور اس کا لحاظ کرتے ہوئے عربی ادب پڑھائے۔
فلسفہ زبان
اس کا تعلق بھی مادہ کی ماہیت سے ہے، اس طرح کہ عربی کے جو الفاظ ہیں اور ان کے متعین و موضوع معانی ہیں، جنھیں لوگ یاد کر لیتے ہیں کہ فلاں لفظ کا یہ معنی ہے، مگر یہ جاننا کہ فلاں لفظ کا یہ معنی کیوں ہے، اس معنی کا مادہ سے کیا تعلق ہے، یہ جاننا فلسفہ زبان ہے، اس پر توجہ بہت ضروری ہے، چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
- ید : ہاتھ ، اصل میں یدی ہے جس کا معنی ہے مدد و تعاون ، ہاتھ بہترین معاون ہے۔
- حاجب: ابرو ، اس کا اصل معنی ہے نگرانی کرنے والا ، یعنی دربان ، ابرواو پر سے آنے والی گرد کو روکتا ہے۔
- جفن: غلاف، پوٹہ ؛ آنکھ کے لیے غلاف کا درجہ رکھتا ہے ، مناسبت ظاہر ہے۔
- دار : گھر ، اس کا اصل معنی ہے وہ چیز جو ایک رقبہ کو محیط ہو، گھر ایسا ہی ہوتا ہے۔
- صحن : پلیٹ؛ صحن کا اصل معنی ہے ہر کشادہ چیز ، پلیٹ بھی ایسے ہی ہے۔
بہر حال فلسفۂ زبان بہت ہم ہے، اس سے واقفیت کی وجہ ے زبان میں مہارت پیدا ہوتی ہے، اس سلسلہ میں علامہ ثعالبی کی فقه اللغةسے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
صلات افعال
عربی زبان میں صلات افعال کا معاملہ بڑا دلچسپ ہے ، صلات ان حروف کو کہتے ہیں جو افعال کے معانی متعین کرنے میں دخیل ہوتے ہیں ، بہت سے افعال ایسے ہوتے ہیں کہ مختلف حروف جر سے ان کے متعدد معانی ہو جاتے ہیں، چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
- قام عنه : اعراض کرنا۔
- قام إليه : مائل ہونا ۔
- قام بالشنی: کوئی کام انجام دینا۔
- قام فيه: کسی جگہ کھڑا ہونا ۔
- قام له : کسی کے لیے کھڑا ہونا سنبھالنے کے لیے۔
دیکھئے حروف جر ”قام“ کے لیے کتنے معانی پیدا کر دیئے۔
- رغب إليه : مائل ہونا ۔
- رغب عنه : اعراض کرنا۔
- رغب فيه : خواہش کرنا ۔
یہاں بھی وہی صورتحال ہے، البتہ ایسے بھی افعال ہیں کہ ان کے معانی کی تعیین میں حروف جر کا دخل نہیں ہوتا ، اگر چہ دہ افعال کے ساتھ مستعمل ہیں، تو ایسے حروف جر کو صلات نہیں کہا جائے گا جیسے مرض ، مات ، اکل ، اور شبع وغیرہ۔ عربی ادب پڑھاتے وقت استاذ ادب کو چاہیے کہ حل لغات لکھوائے اور صلات افعال کا خیال رکھے، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ فعل کے باب کا نام لیے بغیر ماضی ، مضارع ، مصدر اور طریقہ استعمال لکھوادے ۔ جیسے رغب عنه ، يرغب ، رغبة وغیرہ ۔
افعال کے معانی کا تغیر
عربی زبان میں بہت سے افعال کے متعین ومخصوص معانی نہیں ہوتے بلکہ کچھ خارجی و داخلی اسباب و عوامل سے ان کے معانی متعین ہوتے ہیں خارجی عوامل میں سے صلات ہیں جن کا ذکر ہوا، اور داخلی عوامل میں کئی چیزیں ہیں یعنی بعض اسباب خود فعل کے اندر پیدا ہو جاتے ہیں اور معانی بدل دیتے ہیں وہ کئی چیزیں ہیں ۔ جو درج ذیل ہیں :
- باب کی تبدیلی سے معانی بدل جاتے ہیں جیسے حل اگر ضرب سے ہے تو اس کا معنی: اترنا، سرایت کرنا ، نصر “ سے ہے تو اس کا معنی : کھولنا جل کرنا وغیرہ ہے۔
- مصادر کے بدلنے سے بھی معانی بدلتے ہیں، جیسے حل کا مصدر حلول ہے تو اترنا سرایت کرنا اور حل ہے تو کھولنا وغیرہ یا جیسے رجع کا مصدر رجوع ہے تو لازم معنی ہوگا لوٹنا اور رجع مصدر ہے تو متعدی معنی ہوگا لوٹانا ۔
- یا جیسے صد کا مصدر صدود ہے تو لازم معنی ہوگا رکنا، اور صد مصدر ہے تو روکنا متعدی معنی ہوگا۔
عربی زبان کا یہ گوشہ بڑا توجہ طلب ہے ، ضروری ہے کہ اساتذہ وطلبہ اس جانب خصوصی توجہ دیں تا کہ عربی زبان کا کمال جان سکیں اور لطف اٹھا سکیں، نیز اچھے انداز میں قرآن وحدیث کو سمجھ سکیں۔
صفات اسماء:
عربی زبان میں مختلف اسماء کے لیے مختلف صفات مستعمل ہیں اردو زبان وغیرہ کی طرح نہیں کہ ایک ہی صفت کئی أسماء کے لیے مستعمل ہوتی ہے، ایک دلچسپ مثال ملاحظہ ہو:
اردو میں ایک لفظ ہے زبر دست عربی میں اس کی تعبیرات دیکھئے:
- زبر دست اكثريت : أغلبية ساحقة
- زبردست اعزاز : حفاوة بالغة
- زبردعت استقبال: استقبال رائع
- زبردست انعام: جائزة ثمينة
- زبردست انسان: إنسان قوي
- زبردست اختلاف : نزاع شدید، خلاف كبير
- زبردست جذبہ: شعور قوي، عاطفة مضطربة
- زبردست حملہ: هجمة عنيفة
- زبردست خطرہ: خطر كبير داهم شديد
- زبردست خدمت:خدمة ممتازة
- زبردست خوشی: ابتهاج كبير، عظيم
- زبردست تعلق: علاقة وطيدة، وثيقة، قوية
- زبردست دولت : ثروة طائلة كبيرة
- زبردست اقدام : خطوة كبيرة، خطيرة
- زبردست احتجاج :احتجاج صارخ سافر
- زبردست ظلم : اعتداء صارخ ، ظلم كبير
- زبردست عالم: عالم متبحر، غزيز العلم
- زبردست کارنامہ: مأثرة خالدة، عمل مجيد
- زبردست مجمع: جمع حاشد
- زبردست جنگ : حرب دامية طاحنة، عراك شديد
- زبر دست لشکر : جيش جرار
- زبردست بحران : أزمة شديدة
ان صفات کے تنوع سے عربی زبان کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے ، اسی طرح تمام اسماء کے لیے صفات بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے، اس سلسلہ میں دیکھنا ہوگا کہ ادباء نے کیا صفات استعمال کی ہیں ، اجتہاد کرنا ممنوع ہے الا یہ کہ کسی كو زبان میں درک حاصل ہوتو وہ اجتہاد کر سکتا ہے۔ بہر حال عربی انشاء کی تمرین میں اس کا لحاظ کرنا بہت ضروری ہے۔
اعراب کلمات پر نظر
عربی جملوں میں جو الفاظ و کلمات وارد ہوں ان کے اعراب پر بڑی توجہ ضروری ہے، اعراب کا مطلب ہے یہ جاننا کہ جملوں میں الفاظ و کلمات کو کیا مقام حاصل ہے، فاعل ہے یا مفعول ، حال ہے یا تمیز، بدل ہے یا صفت مستثنی ہے تو کس قسم کا وغیرہ وغیرہ۔ جب یہ بات معلوم ہو تو پھر جملوں کو سمجھنا آسان ہوگا، ظاہر ہے کہ یہ صلاحیت نحو کی علمی واقفیت اور عملی مشق سے ہو سکتی ہے ، اس لیے نحو پر توجہ ضروری ہے ، مگر ملحوظ رہے کہ نحوی قواعد کلی نہیں ہیں بلکہ اکثری ہیں، قرآن وحدیث میں ایسے بعض استعمالات ہیں جو نحوی قواعد کی گرفت میں نہیں آسکے ہیں، ان کی تاویل نہیں کرنا چاہیے قواعد میں وسعت پیدا کرنا چاہیے۔
الفاظ و کلمات کی ساخت
عربی میں جو الفاظ و کلمات ، افعال و اسماء وغیرہ کی شکل میں آتے ہیں اگر ان میں حروف صحیح ہوں ، تب تو انہیں جاننا آسان ہوتا ہے لیکن اگر حروف علت، ہمزہ یا ڈبل حروف آجا ئیں تو الفاظ و کلات کو پہچانا را دشوار ہوجاتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس چیز کی جانکاری حاصل کی جائے ۔
یہ بات واضح ہے کہ علم صرف سے یہ جانکاری ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ اساتذہ وطلبہ اس علم پر بھی توجہ دیں اور عربی کتابوں کی تدریس میں اس پر زور دیں۔ صرفی قواعد بھی نحو کی طرح کلی نہیں ہیں بلکہ اکثری ہیں، یہاں بھی وہی طریقہ اپنانا چاہیے جس کا ذکر کیا گیا۔
تعبیرات کی صحت اور ان کا ضبط:
عربی زبان میں دو طرح کی تعبیرات ہیں ایک وہ تعبیر جس میں حیثیت محض خوبصورت تعبیر کی ہوتی ہے، اس کی کیفیت محاورہ کی نہیں ہوتی، دوسری قسم ان تعبیرات کی ہے جن میں حیثیت محاورات کی ہوتی ہے، دونوں طرح کی تعبیر کو صحیح طرح سمجھنا چاہیےاور انہیں ضبط کر لینا چاہیے۔
خوبصورت تعبیرات سے مراد وہ ہیں جن کے معانی کی ادائیگی بڑے اچھے انداز سے کی گئی ہو کہ اگر ہمیں انہی معانی کوادا کرنا ہو تو دشواری پیش آجائے، جیسے:
- ان اللعب له يد لا تجحد في تنشيط الانسان و تقویته ، انسان کو چست اور طاقتور بنانے میں کھیل کا نا قابل انکار دخل ہے۔ ہاتھ ہے۔
- إنه غير مجرى التاريخ : اس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا.
- إنه لعب أكبر دور في مجال الدعوة والاصلاح: اس نے دعوت و اصلاح کے میدان میں اہم کردار ادا کیا۔
اور جن تعبیرات کی حیثیت محاورات کی ہوتی ہے تو ضروری ہے کہ محاورہ کا پس منظر جان لیا جائے، اور صحیح طور پر انھیں سمجھ کر ضبط کر لیا جائے ، جیسے:
- إنهم دقوا بينهم عطر منشم : انھوں نے آپس میں خونریزی کی۔
- قطعت جهيزة قول كل خطيب : اس نے ایسی بات کہی جس نے بات کی گنجائش ختم کر دی۔
- قبل الرماء تملأ الكنائن : عمل سے پہلے اس کی تیاری کر لی جاتی ہے۔
ظاہر ہے یہ محاورات اپنے ظاہری معنی میں کچھ اور مفہوم رکھتے ہیں جن کا پس منظر ہے، مگر محاوراتی معانی دوسرے ہیں۔ عربی ادب کے مطالعہ کے دوران ضروری ہے کہ دونوں طرح کی تعبیرات اچھی طرح سمجھ کر انھیں نوٹ کر لیا جائے اور اپنی عربی خطابت و صحافت میں انھیں استعمال کیا جائے۔
اردو و عربی زبان کا لسانی اسلوب
ہم ہندوستانی علماء کو اردو سے عربی اور عربی سے اردو بہت کرنا پڑتا ہے ، اس لیے یہ معرفت ضروری ہے کہ اردو و عربی زبان کی ساخت اور مزاج و طبیعت بہت مختلف ہے ، اردو جملوں کے الفاظ و کلمات کی ترتیب عربی جملوں کے کلمات کی ترتیب سے مختلف ہوتی ہے۔ اور تعبیرات و محاورات میں بھی دونوں بہت مختلف ہیں اس لیے عربی سے اردو اور اردو سے عربی کرنا بڑا دشوار ہوتا ہے لیکن اگر دونوں زبانوں کے مزاج و طبیعت سے واقفیت ہو جائے تو یہ ٹھن مرحلہ آسان ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں چند باتیں درج ذیل ہیں :
- اردو زبان میں پہلے فاعل ، پھر دوسرے متعلقات حسب مراتب ہوتے ہیں اور فعل بعد میں ہوتا ہے، جیسے:
- میں نے آج ٹیلیفون کے ذریعہ اپنے دوست سے گفتگو کی ۔
- امریکہ نے عراق پر ز بر دست فضائی حملے کیے۔
- ہندوستان انگریزوں کے ہاتھ سے ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو آزاد ہوا اور ۲۶ جنوری ۱۹۵۰ء کو جمہوری دستور نافذ ہوا۔
عربی زبان میں الفاظ وکلمات کی ساخت اور ترتیب اس طرح ہوتی ہے کہ پہلے فعل پھر فاعل اور دوسرے متعلقات حسب ۔ مراتب ہوتے ہیں، ہاں اگر جملہ اسمیہ ہے تب تو پہلے اسم بشکل مبتدا اور پھر اس کی خبر ہوتی ہے ، اردو عربی زبان کے جملہ اسمیہ یکساں ہوتے ہیں لیکن جملہ فعلیہ کی ترتیب بدلی ہوئی ہوتی ہے، او پر جو اردو کے جملے ذکر کیے گئے ہیں ان کی عربی حسب ذیل طریقہ پر ہوگی:
- حادثت صديقي اليوم بالمسرة (التلفيون)
- أغارت امريكا على العراق اغارة جوية عنيفة –
- استقلت الهند من أيدى الانجليز فى الخامس عشر من شهر أغسطس عام ۱۱۹۴۷
- ونفذ فيها الدستور الجمهورى فى السادس والعشرين من شهر يناير عام ۱۹۵۰م.
نظر ڈالنے سے دونوں زبانوں کے فروق واضح ہو جاتے ہیں۔
اردو عربی جملوں پر سرسری عربی زبان میں مضمون نگاری ، خطوط نویسی اور خطابت کے دوران ضروری ہے کہ دونوں زبانوں کے اسلوب اور مزاج اورطبیعت کا بھر پور لحاظ رکھا جائے ، ورنہ بڑی علمی وادبی ٹھوکریں لگ سکتی ہیں۔
- جملوں کے کلمات کی ترتیب کے علاوہ دونوں زبانوں میں تعبیری فرق بھی ہے ، جیسے اردو کے حسب ذیل جملے اور ان کی تعبیر دیکھئے:
میں نے وضو کیا میں نے نماز پڑھی . میں نے روزہ رکھا،عربی میں ان کی تعبیرات اس طرح ہوں گی: توضات —- – اديت الصلوة ( صليت ….. صمت، اگر اس تعبیری فرق سے واقفیت نہ ہو تو کوئی شخص اگر یوں کہدےفَعَلْتُ الوضوء، قرأت الصلوة، وضعت الصوم، تو ظاہر ہے یہ جملے بڑے مضحکہ خیز ہو جائیں گے اور ایسا لگے گا کہ وہ عربی زبان کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔ اس لیے دونوں زبانوں کے تعبیری فرق پر نظر بہت ضروری ہے۔
- دونوں زبانوں کے محاورات میں بھی فرق ہے لہذا اردو محاورہ کا لفظی ترجمہ عربی میں نہیں ہوگا ، بلکہ محاورہ کا ترجمہ محاورہ سے ہوگا ، جیسے مندرجہ ذیل محاورات کو دیکھئے :
- جیسی کرنی ویسی بھرنی (اردو)
- دين الرجل كما دان (عربي)
- مرگ انبوه جشن دارد (فارسی)
- البلية إذا عمت طابت (عربي)
- دور کے ڈھول سہانے (اردو)
- تسمع با لمعيدي خير من أن تراه (عربي)
حرف آخر
یہ ہیں دس بنیادی امور جن کا لحاظ میں خود درس و تدریس اور خطابت و صحافت میں کرتا ہوں ، اور اساتذہ سے گزارش ہے کہ ضرور ان کا لحاظ کریں ، مگر افسوس ! ہمارے دینی مدارس کے اکثر اساتذہ چاہے عرب کے پڑھے ہوئے ہوں یا عجم کے ایسے ہیں جو عربی زبان کی لسانی خصوصیات نحو ، صرف وغیرہ عربی علوم ، اور عربی واردو زبان کے مزاج و طبیعت سے واقف نہیں ہوتے ، اس لیے قرآن مجید ، کتب حدیث ، اور کتب ادب کی تدریس اور عربی انشاء کی تمرین میں بڑی بھیانک غلطیاں کرتے ہیں۔ بنابریں ضروری ہے کہ عربی ادب کی تدریس اور عربی انشاء کی تمرین میں ان باتوں کا لحاظ رکھا جائے جن کی طرف میں نے اشارے کیے ہیں، تا کہ علماء وطلبہ صحیح طور پر قرآن وحدیث سمجھ کر درک و بصیرت کے ساتھ دعوت دین کے فرائض انجام دے سکیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین تقبل يا رب العالمین ۔
مولانا ابوالعاص وحیدی
استاذ تفسیر و حدیث کلیة الصفا ڈو مریا گنج، سدھارتھ نگر (یوپی)