اولاد اور ان کی تربیت

اللہ تعالی نے انسانوں میں سب سے پہلے سیدنا آدم علیہ السلام کو اپنی قدرت سے بغیر ماں باپ کے پیدا کیا پھر اپنی ہی قدرت سے حضرت آدم سے آپ کی بیوی حضرت حوّا کو پیدا کیا، پھر ان دونوں سے خلقت انسانی کا ایک نظام قائم فرما یا جسکے تحت انسان کی پیدائش اور افزائش نسل کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ ارشاد ربانی ہے :

یأیھا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ وخلق منھا زوجھا و بث منھما رجالاً کثیراً و نساء ا،و اتقوا اللہ الذی تساء لون بہ والأرحام، ان اللہ کان علیکم رقیباً} (سورۃ النساء ، ۱ )

ترجمہ: اے لوگو ! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تم کو ایک نفس سے پیدا کیا ،اور اسی نفس سے اس کے جوڑے کو پیدا کیا ، اور ان دونوں سے بہت سارے مرد و عورت کو پھیلایا ،اور لحاظ کرو اس اللہ کا جس کے واسطہ سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو ، اور لحاظ کرو رحموں (رشتوں )کا بیشک اللہ تم پر نگراں ہے ]،

بنی آدم کا اعزاز

نسل انسانی کی افزائش بھی آزادانہ اختلاط (زنا) کے ذریعہ ہوسکتی تھی جیسا کہ دیگر حیوانات کی نسلیں جاری ہیں ،لیکن اس کائنات کے خالق نے نوع انسانی کو عزت و شرافت بخشی ہے اور اسے محترم بنایا ہے،

ولقد کرمنا بنی آدم ،(بنی اسرائیل )

ہم نے بنی آدم کو اعزاز بخشاہے۔

اس لئے اس کی نسل کے تحفظ کوشریعت مطہرہ کے مقاصد میں سے ایک مقصد قرار دیا گیا ہے، تاکہ اس کی اولاد بے وقعت،نزاع کا باعث اور اس کی نسل مخلوط نہ ہو ، اور اس مقصد کی تکمیل کے لئے نکاح کو مشروع اور زنا کو تمام شریعتوں میں حرام کیا گیا :

ولا تقربوا الزنا ، انہ کان فاحشۃ و ساء سبیلا (الاسراء)

اور زنا کے قریب مت جاؤ، اس لئے کہ یہ کھلی بے حیائی ہے اور برا طریقہ ہے۔

اور اس لئے کہ زنا انسان کو انسانی شرافت سے نکال کر حیوانی صفت میں داخل کردیتا ہے ،اور حیا کا لباس اتار کر بے حیائی کی شاہراہ پر ننگا کر دیتا ہے، اس بے حد رحم کرنے والے رب نے اس کی سزا کوبھی بڑا سخت رکھا ہے کہ بر سر عام اس کے مرتکب (زانی ) کو کو ڑے لگائے جائیں:

الزانیۃ و الزانی اذا زنیا فاجلدوا کل واحد منھما مأۃ جلدۃ  (النور )

زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد جب دونوں زنا کے مرتکب ہوں ،تو دونوں کو سو ، سو کوڑے مارو ،اور اگر اس بے حیائی کا مرتکب شخص ،شادی شدہ ہے تو اس کی سزا یہ ہے کے وہ زندہ نہ رہے ،اسے پتھر مار مار کر ہلاک کردیا جائے۔

نسل کا تحفظ

نیز نسل اور عورت کے تحفظ کاہی تقاضا ہے کہ ایک عورت کے لئے بیک وقت ایک سے زیادہ شوہر نہ ہوں.Urdu e Moalla Quotesورنہ عورت کی دیکھ بھال ،اس کے نفقہ اور اس کے ساتھ ازدواجی عمل کو لیکر روزایک مہا بھارت کا ماحول ہوگا ،اور ایک سے زائد شوہرکے درمیان عورت بے حیثیت ہوکر رہ جا ئیگی، جب کہ ایک شوہر کے لئے ممکن ہے کہ اس کے لئے ایک سے زیادہ بیویاں ہوں اور اس میں کوئی معاشرتی خرابی نہ ہو، اور ایک سے زیادہ کی تحدید اسلامی شریعت نے کسی مصلحت سے چار بیویوں تک ہی رکھی ہے ، کیونکہ اولاد کی نشو و نماکا ظرف ومقام اگرچہ الگ الگ ہوگا ،مگر سب میں بیج اور نطفہ ایک ہی شخص کاہوگا:

نساؤکم حرث لکم (البقرۃ)

تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں۔

لہذا ان سے ہونے والی اولاد میں کسی کی شرکت نہ ہونے کی وجہ سے کسی طرح کا نزاع یااختلاف نہیں ہوگا ، اور ایک عورت کے لئے ایک سے زیادہ شوہر کی اجازت ہوگی تو ایک ہی رحم میں ایک سے زائد اشخاص کے نطفے مخلوط ہونگے،اور ولادت کے بعد ہونے والے بچہ کی نسبت مشکوک ہوگی کہ یہ کس کا لڑکا ہے،اس کا باپ کون ہے، پھر اسکی پرورش کے متعلق اختلاف ہو گا کہ اس کی پرورش اور نفقہ کا بار کون اٹھائے ،اس اختلاف میں ہر ایک اپنا ہاتھ کھینچ لے تو وہ بچہ پرورش سے محروم اوربے حیثیت ہوگا ، معاشرہ میں اس کا کوئی مقام نہیں ہوگا ، پھر اس کی وراثت میں اختلاف ہوگا کہ کون اس کا وارث ہو اور وہ کس کا وارث ہو ، غرض یہ کہ بہت سارے نہ حل ہونے والے مسائل کھڑے ہونگے، اس لئے اس انسان کے خالق نے اس کے توالد وتناسل کا ، اور اس کے لئے اولاد حاصل کرنے کا جو نظام اور قانون بنا یا ہے ، اسی میںاس انسان کا اعزاز و اکرام ہے اور اسی میں اس کی نسل کا تحفظ اور اس کی بقا ہے۔

اولاد ایک نعمت ہے

اولاد اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے انسانوں کے لئے ایک عظیم نعمت ہے اورہر انسان کو اس کی آرزو بھی ہوتی ہے کہ اس کو اولاد ہو ، اور جن کو کوئی اولاد نہیں ہوتی ان کے چہرے مضمحل اور بجھے بجھے سے رہتے ہیں ، اس کے لئے ہزار تدبیریں اور کوششیں کرتے ہیں، نذریں مانتے ہیں ،دعا ،تعویذ اور جھاڑپھونک کراتے ہیں اس مزار سے اس مزار کا چکر لگاتے ہیں اور مختلف جائز و ناجائز سہارے استعمال کرتے ہیں، مگروہ شخص جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو نہ اس کے لئے جائز ہے اور نہ اسے زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے مالک حقیقی اللہ کے سو ا کسی اور سے امید رکھے،اور اپنے کسی بھی مقصد کے حصول کے لئے ایسا طریقہ اختیار کرے جو اس کے خالق کو ناراض کرنے والا ہو ،بلکہ اسے وہ طریقہ اپنانا چاہئے،جو اللہ کے نبی زکریا علیہ السلام نے اپنا یا،انکی عمر زیادہ ہوگئی تھی ، کوئی اولاد نہیں تھی جو لوگوں کو ایک اللہ کی طرف بلانے والے کام میں ان کی وارث ہوتی ،انھوں نے اللہ رب العزت سے دعا کی قرآن کریم ان کی اس حالت کو بیان کرتا ہے جس میں ان کے اندرونی کرب کا اظہار بھی ہے اور اللہ عز و جل سے التجا بھی :

کھیعص، ذکر رحمۃ ربک عبدہ زکریا ، اذ نادٰی ربہ نداء اً خفیا، قال رب انی وھن العظم منی و اشتعل الرأس شیباً، ولم اکن بدعائک رب شقیاً، وانی خفت الموالی من وراء ی، وکانت امراَتی عاقراً فھب لی من لدنک ولیاً،یرثنی ویرث من آل یعقوب ، واجعلہ رب رضیاً}(مریم ۱تا ۶)

کہیعص، یہ آپ کے رب کی اپنے بندہ زکریا کے ساتھ رحمت کا ذکر ہے ، جب کہ انھوں نے اپنے رب کو آہستہ آہستہ پکارا ، انھوں نے کہا :اے میرے رب ! میری ہڈیاں کمزور ہوگئیں ،میرے سر کے بال بالکل سفید ہوگئے ، اور اے میرے رب میں آپ کی دعا سے بد نصیب نہ رہ جاؤں اور مجھے اپنے بعد اپنے قریبی لوگوں سے ڈر ہے، اور میری بیوی بے اولاد ہے ، لہذا مجھ کو اپنے پاس (یعنی رحمت )سے ایک وارث مرحمت فرمایئے ، جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو، اور اے میرے رب اس کو ایسا بنایئے جس سے آپ خوش ہوں۔

اس انداز میں زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے التجا کیا ، کیونکہ اولاد بھی اللہ کی ایک نعمت ہے جو محض اس کے فضل سے ہی عنایت ہوتی ہے ، خود اس منعم عظیم کا ارشاد ہے :

للہ ملک السمٰوٰ ت والأرض ،یخلق ما یشاء ، یھب لمن یشاء اناثاو یھب لمن یشاء الذکورoأو یزوجھم ذکراناً و اناثاً،ویجعل من یشاء عقیماً، انہ علیم قدیرo}،(الشورٰی ۴۹، ۵۰)

یعنی آسمان و زمین کی ملکیت و بادشاہت اللہ ہی کے لئے ہے ، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ، جس کو چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے ،اور جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، یا انھیں لڑکے اور لڑکیاں دو نوں بخشتا ہے ، اور جسے چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے ، وہی علم والا ،قدرت والاہے ،وہی جانتا ہے کہ کس کو اولاد ہونی چاہئے اور کسے بے اولاد رہنا چاہئے ، اللہ تعالی کا یہ معاملہ عام بندوں کے ساتھ بھی ہے اور اپنے خاص بندے انبیاء کرا م کے سا تھ بھی اس کا یہی معاملہ رہا ہے ۔

حضرت لوط علیہ السلام کو اللہ نے صرف لڑکیاں عطا فرمائیں ،اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے صرف لڑکے دیئے، اور حضرت اسماعیل ، اسحاق اور محمد رسول اللہ علیہم الصلوٰۃ والسلام کو اللہ نے لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی مرحمت فرمائے ،اور یحیٰ و عیسیٰ علیہم السلام کے کوئی اولاد نہیں تھی، اس لئے عام انسانوں کے لئے ان انبیاء کرام میں اسوہ اور نمونہ ہے ،جو بے اولاد ہیں ان کے لئے بھی کہ وہ اللہ کی طرف سے کبیدہ خاطر اور بدگمان نہ ہوں غیب اور مستقبل کی خبر اسی کو ہے ،اور بندہ کے نفع نقصان اور مصلحت کا علم بھی اسی کو ہے ،اور جن کو اللہ نے اولاد سے نوازا ہے ان کے لئے بھی،ان انبیاء کرام میں اسوۂ حسنہ ہے کہ اس منعم کے شکر گزار رہیں جس نے انھیں یہ عظیم نعمت عطا فرمائی ہے۔

لڑکا یا لڑکی ہونا

زمانۂ جاہلیت کے بارے میں مشہور ہے کہ عرب میں لوگ اپنی اولاد کو قتل کر دیتے تھے ، بعض لوگ تو بلا تفریق لڑکا ہو یا لڑکی اس خوف سے قتل کر دیتے تھے کہ ان کو کھلانا پڑیگا اور بعض قبائل صرف لڑکیوں کو اس لئے مار ڈالتے تھے یا زندہ در گور کر دیتے تھے کہ ان کے نزدیک لڑکیوں کا پیدا ہونا باعث شرم و عار تھا ،جیسا کہ قرآن کریم نے ان اس مذموم حرکت کا ذکر کیا ہے :

واذا بشر أحدھم بالأنثٰی ظل وجہہ مسودّاً وھو کظیم ۰یتوارٰی من القوم من سوء ما بشر بہ ،أ یمسکہ علی ھون أم یدسہ فی التراب ، ألا ساء ما یحکمون }،(النحل ، ۵۸ ،۵۹ )

اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (پیدا ہونے )کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جا تا ہے،اور وہ اندر اندر گھٹنے وا لا ہو جا تا ہے ،دی گئی خبر کے عار سے قوم سے چھپتا پھرتا ہے ،آیا ذلت کے ساتھ اسے باقی رکھے یا اسے زمیں میں دبا دے ، سنو !برا ہے جو وہ لوگ فیصلہ کرتے ہیں ،

یہ تو اس دور کی بات ہے جسے زمانۂ جاہلیت سے تعبیر کیا جاتا ہے ،آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی یہ مذموم حرکت پائی جا تی ہے،اگرچہ اس کی شکل بھی اس دور کے لحاظ سے ترقی یافتہ ہو چکی ہے ، آج بھی بہت سے لوگ لڑکیوں کی پیدائش کواچھا نہیں سمجھتے، اور ولادت سے قبل دوران حمل ہی طبی وسائل اور معا لجین سے رجوع کر کے یہ معلوم کرتے ہیں کہ شکم مادر میں لڑکی ہے یا لڑکا ، لڑکی ہونے کی صورت میں حمل کو ساقظ کروا دیتے ہیں ،اور بسا اوقات تو اس ماں کو ہی ختم کر دیتے ہیں جس کے بطن سے بار بار لڑکیاں ہی پیدا ہوتی ہیں ،مذہب فطرت اسلام کی نگاہ میں یہ انتہائی قبیح اور مذموم حرکت ہے ،گناہ کبیرہ ہے اورقابل سزا جرم ہے ،قرآن کریم نے اس کی شناعت پر ان الفاظ میں تنبیہ فرمائی ہے :

واذا الموء ودۃ سئلت ۰ بأیّ ذنب قتلت ،(سورۃ التکویر ، ۸، ۹ )

اور جب خود دفن کی جانے والی لڑکی سے ہی پوچھا جائیگا ،کہ تمھیں کس جرم میں قتل کیا گیا تھا۔

ظاہر ہے کہ اس ضائع کئے جانے وا لے نفس سے یہ سوال اس جرم کی شدت قباحت کو بتا نے کے لئے ، اورضائع کرنے والوں کی زجر وتوبیخ اور تنبیہ کے لئے ہوگا،ایک مفہوم اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ان مجرموں سے ہی اس لڑکی کے بارے میں پوچھا جائیگا کہ وہ کہاں ہے ؟کس جرم میں ماری گئی تھی (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی ، ۱۹ ؍۲۳۱)،

اور ظاہر ہے کہ اس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوگا ،حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ کے سا تھ کسی کو شریک ماننا جبکہ پیدا اس نے کیا ہے ، انھوں نے پوچھا اس کے بعد ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اپنی اولاد کو قتل کرنا ،انھوں نے پوچھا ،اس کے بعد؟ آپ نے ارشاد فرمایا : پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنا ،(حدیث کا مفہوم،از صحیح بخاری و مسلم ) یہ مذکورہ تینوں گناہ ،بڑے گناہوں میں بھی بڑے گناہ ہیں ، جبکہ اس مذموم حرکت کے بر خلاف اسلامی شریعت نے اولاد خاص طور سے لڑکیوں کی پرورش اور تربیت کوثواب اور فضیلت کا کام قرار دیا ہے ، ایک مرتبہ اقرع بن حابس نے رسول اللہ ﷺ کو حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو بوسہ دیتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ میرے دس لڑکے ہیں، میں نے کبھی کسی کو بوسہ نہیں دیا ، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ٭انہ من لا یَرحم لایُرحم٭ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا ،اور ظاہر ہے کہ اولاد کو قتل کرنا یا ہونے والی بچی کے حمل کو ساقط کرادینا رحم نہیں کہلاتا ،یعنی یہ عمل اللہ کی رحمت سے محروم کرنے والا ہے ،

ایک حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

من ابتُلِی بشیئٍ من البنات فصبر علیہن کن لہ حجاباً من النار (سنن ترمذی )

جو شخص لڑکیوں کیجہت سے کسی بھی آزمائش میں مبتلا کی جائے اور ان پر صبر کرلے ،تو وہ لڑکیان اس کے لئے جہنم سے حائل اور رکاوٹ ہونگی ،

ایک دوسری حدیث حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

من کان لہ ثلاث بناتٍ،أو ثلث أخوات،أو ابنتان أو أختان، فأحسن صحبتہن واتقی اللہ فیہن فلہ الجنۃ٭،(سنن ترمذی )

جس کسی کے پاس تین لڑکیاں یا تین بہنیں ہو ں،یا دو لڑکیاں یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھامعاملہ کرے،اور ان کے بارے میں اللہ سے ڈرے تو اس کے لئے جنت ہے،

اور ایک حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

من عال جاریتین دخلت أنا وھو الجنۃکہاتین ،واشار بأصبعیہ،(سنن ترمذی)

جو شخص دو لڑکیوں کی کفالت کرلے تو میں اوروہ جنت میں اس طرح داخل ہونگے ،اور آپ ﷺ نے اپنی دو انگلیوں کی طرف اشارہ فرمایا ،گو یا قربت دخول کو بتلانا مقصود ہے ،

ان احادیث مذکورہ بالا سے خاص طور پر لڑکیوں کی پرورش اور ان کے ساتھ حسن معاملہ کی جس اہمیت کے ساتھ ترغیب دی گئی ہے ،اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ لڑکیوں کی ولادت پر کبیدہ خاطر ہونا یا ان کے حمل کو ساقط کرانا اسلامی شریعت میںکس درجہ مذموم اور شدید جرم ہو سکتا ہے ، ساتھ ہی یہ احادیث صنف نازک کے ان نام نہاد خیر خواہوں کے منھ پر شدید طمانچہ بھی ہیں جو اسلام عورت کے مقام و حیثیت پر زبان درازی میں مبتلا ہیں اور اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔

اولاد زینت بھی ہے اور فتنہ بھی

انسان کے لئے تو یہ اولاد دنیاوی زندگی میں زینت،خوشی کا سامان اور باعث تفاخر ہے ، کیونکہ اولاد خاص طور سے لڑکوں سے آدمی کودنیاوی زندگی میں قوت و طاقت اور مدد ملتی ہے، اس لئے کہ دنیاوی زندگی میں انسان کو اس کی ضرورت ہے ،جیساکہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے :

المال والبنون زینۃ الحیٰوۃ الدنیا و الباقیت الصالحات خیر عند ربک ثواباً و خیر أملاً (الکہف ۴۶)

یعنی مال اور بیٹے دنیاوی زندگی کی زینت ہیں، اور باقی رہنے والے اعمال صالحہ بہتر ہیں ثواب کے اعتبار سے آپ کے رب کے پاس اور بہتر ہیں امید کے اعتبار سے۔

لیکن اللہ تعالی کے لئے اولادکا ہونا عیب اور نقص ہے ،اسی لئے قرآن کریم میں جہاں بھی اللہ تعالی نے یہود و نصارٰی اور مشرکین کے اس عقیدہ کا ذکر کیا ہے کہ وہ اللہ کے لئے اولاد ہونے کا قول کرتے ہیں ، یہود کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کے بیٹا ہیں ، عیسائی کہتے ہیں کہ عیسٰی اللہ کے بیٹا ہیں ،مشرکین مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں مانتے تھے ، اللہ تعالی نے اسی موقع پر بلا تاخیر اس کی تردید کرتے ہوئے فرما یا:

سبحانہ،لہ ما فی السمٰوٰت وما فی الأرض

یعنی اللہ کی ذات اس سے پاک ہے ،زمین و آسمان اور دنیا جہان کی ساری چیزیں تو اس کی ملکیت ہیں ،

اور اولاد ،باپ کی ملکیت نہیں ہوتیں ، اس جہان کا خالق ،بیوی اور اولاد سے مستغنی اور بے نیاز ہے، نیز یہی اولاد ،ماں باپ کے لئے فتنہ اور آزمائش بھی ہیں ،کہ ان کی محبت اور لاڈ پیار میں انسان اللہ کی یاد سے غافل ہو جاتا ہے ،ان کی خاطر داری میں بسا اوقات فسق و فجور اور کفر شرک میں مبتلا ہو جا تا ہے،جیسا کہ قرآن کریم میں مذکور ہے :

یٰأیہا الذین اٰمنواان من ازواجکم وأولادکم عدواًلکم فاحذروھم و ان تعفوا و تصفحوا و تغفروا فان اللہ غفور رحیم ۰انما أموالکم و أولادکم فتنۃ واللہ عندہ أجر عظیم،(التغابن ،۱۴،۱۵)

اے وہ لو گو جو ایمان لے آئے !تمھاری بیویوں اور تمھاری اولاد میں سے بعض تمھارے لئے دشمن ہیں ،لہذا ان سے محتاط رہو ، اور اگر تم ان کے ساتھ عفو درگزر سے کام لو اور معاف کر دو تو بلا شبہ اللہ معاف کرنے والے رحم کرنے والے ہیں بلاشبہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد فتنہ اور آزمائش ہیں ،اور اللہ اسی کے پاس بڑا اجرہے،

اس آیت کے نزول کا تعلق اگر چہ ایک خاص واقعہ سے ہے ،لیکن مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت ہر اس معصیت کے لئے عام ہے جس کا ارتکاب ،آدمی اپنے اہل و عیال اور اولاد کے سبب سے کرتا ہے ،یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ لوگ اس سے دنیا میں دشمنی کرتے ہیں بلکہ انکی محبت اس کے حرام کمانے اور اللہ کے حقوق ادا نہ کرنے کا سبب بنتی ہے ، ان کے فتنہ ہونے کا مطلب یہی ہے کہ وہ تم کو فتنہ اور آزمائش میں مبتلا کرنے والے ہیں ،حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ قیامت کے دن کچھ ایسے لوگ بھی ہونگے جن کے بارے میں کہا جا ئیگا کہ ان کی نیکیاں ان کے اہل و عیال نے کھا ڈالا۔

ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے، اسی دوران حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما گرتے لڑکھڑاتے آتے ہوئے نظر آگئے ،آپ ﷺ منبر سے اتر ے ان دونوں کو اٹھایا، اپنے سامنے بٹھایا اور ارشاد فرمایا :

صدق اللہ عز وجل :انما امولکم و اولادکم فتنۃنظرت الی ہٰذین الصبیین یمشیان و یعثران فلم أصبر حتی قطعت حدیثی و رفعتہما

اللہ عز و جل نے سچ کہا ہے کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد فتنہ ہیں، میں نے ان دونوں بچوں کو لڑکھڑاتے ہوئے چلتے دیکھا تو صبر نہیں کر پایا یہانتک کہ میں نے اپنی بات روکی اور ان دونوں کو اٹھایا، اس کے بعد پھر آپ ﷺ نے اپنی با ت شروع کیا،

اولاد کے حقوق اور ان کی تربیت

آج اکثر لوگ اس بات کی شکایت کرتے ہوئے ملتے ہیں کہ ہماری اولاد ہماری دیکھ بھال نہیں کرتی ، ہمارا لڑکا ہمارا خیا ل نہیں کرتا، ہمارے حقوق نہیں ادا کرتا ،یہ سچ ہے کہ انسان پر اپنے والدین کے بڑے حقوق ہیں ، ان کا ادب و احترام ، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ ،اور صلہ رحمی اس پر لازم ہے اور ان کی نافرمانی گناہ کبیرہ اور ان کے ساتھ بدخلقی انسان کی شقاوت اور بد بختی ہے ،جس کا انجام بد دنیا میں ہی آدمی کے سامنے آجاتا ہے لیکن آدمی یہ نہیں سوچتا کہ اس پر اپنی اولاد کے بھی کچھ حقوق ہیں ،اس پر اپنی اولاد کی پرورش اور تربیت لازم ہے ،اور جیسے اس کی جسمانی پرورش کے لئے روٹی ،کپڑا اور مکان کی فکر کرتا ہے ، اس کے دوسرے تقا ضوں کو پورا کرتا ہے ، اسی طرح اس پر اپنی اولاد کی روحانی تربیت، اچھی تعلیم ، اچھا ادب اور اچھے اخلاق وعادات سکھانے کی بھی ذمہ داری ہے ،اور ان کو بری صحبت،برے چال چلن اورغلط عادتوں سے بچائے رکھنا بھیاس پر فرض ہے ، کیونکہ انسان کے بچے جب پیدا ہوتے ہیں تو وہ ہر چیز سے لاعلم اور سادہ لوح ہوتے ہیں انکے ذہن کی تختی بالکل صا ف ہوتی ہے ،جیسا کہ ان کے پیدا کرنے والے کا ارشاد ہے :

و اللہ أخرجکم من بطون أمھاتکم لا تعلمون شیئاً،وجعل لکم السمع و الأبصار و الأفئدۃ،لعلکم تشکرون(النحل ۷۸ )

اور اللہ نے تم لوگوں کو تمھاری ماؤں کے شکم سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے ، اور اللہ نے تمھارے لئے کان ،آنکھیں اور دل بنائے (جن کے ذریعہ تم علم اور جانکاری حاصل کرسکو ) تاکہ تم اللہ کا شکر ادا کرو۔

یہ بچے فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتے ہیں ، اور اللہ کے دیئے ہوئے کان ، آنکھ اور دل کے ذریعہ اپنے گردو پیش اور ماحول کو سنتے ، دیکھتے اور سمجھتے ہیں ،خاص طور سے اپنے ماں باپ کی عادات و اطوار اور انکے خیالات و نظریات کو دیکھتے ،سنتے اپنے ذہن پر نقش کرتے ہیں اور انھیں کے عقائد اور طرز روش پر پروان چڑھتے ہیں ، اسی نقطہ point پرمتنبہ کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے :

کل مولود یولد علی الفطرۃ ،فأبواہ یہوّدانہ أو ینصّرانہ أو یمجّسانہ۔۔۔۔الحدیث (صحیح مسلم )

کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ (ایمان باللہ کی ) فطرت پر پیدا ہوتا ہے ، پھر اس کے والدین (اگر یہودی ہوتے ہیں تو )اس کو یہودی یا( نصرانی ہوتے ہیں تو ) نصرانی یا (مجوسی ہوتی ہیں تو ) مجوسی بناتے ہیں ،

لہٰذا اولاد کی تربیت پر شروع سے ہی توجہ دینا ماں باپ کا دینی و اخلاقی فریضہ بنتاہے ، تاکہ وہ اپنے بچہ کو اس کی فطرت سلیمہ، دین اسلام پر باقی رکھ سکیں ،اس کے سامنے کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے اس کے عقائد فاسد ہوں اور نہ اس کو ایسے لوگوں کے ساتھ رہنے دیں جوغلط عقیدہ اور فاسد خیالات و نظریات کے حامل ہوں ،اور نہ اس کی تعلیم کے لئے خاص طور سے ابتدائی مراحل میں ایسے استاذ یا ایسی درسگاہ اور اسکول کا انتخاب کریں جو غیر اسلامی عقائد کے پابند ہوں ، کیونکہ آدمی جن عقائد و نظریا ت کا حامل ہوتا ہے اسی کے مطابق اس کی حرکات و اقوال ظاہر ہوتے ہیں اوربچے ابتدائی عمر میں خالی الذہن اور سادہ لوح ہوتے ہیں، اپنے اساتذہ اور اسکول کے ماحول سے زیادہ متأثر ہوتے ہیں ، جو باتیں ان کے سامنے بار بار آتی ہیںاسے قبول کرتے ہیں ، خاص طور سے اس حساس دور میں جب کہ تمام غیر اسلامی تحریکیں اسلام کے خلاف اس نہج پر کام کررہی ہیں کہ مسلمانوں کو ان کی ظاہری شکل و صورت پر باقی رکھتے ہو ئے ،انھیں اسلامی عقائد ،اسلامی تہذیب اور اسلامی غیرت سے محروم کر دیا جائے ،باپ پر لازم ہے کہ اپنی اولاد کے لئے اچھے ساتھی ، اور صالح معلم کا انتخاب کرے،اور بری صحبت سے اس کو دور رکھے، حضرت محمد بن سیرین تابعی ؒ سے منقول ہے ،

’’ان ھذا العلم دین فانظروا عمن تأخذون دینکم ‘‘،

یہ علم بھی دین ہے ،لہذا دیکھ لو کہ اپنا دین کس سے لے رہے ہو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ معلم بد دین اور بد اخلاق ہو اور وہ اپنا برا اثر بچے پر چھوڑ جائے ،

اولاد کی تربیت میں انبیاء کرام کا اہتمام

انبیاء کرام جنھیں اللہ نے اقوام کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا ، اولاد کی اچھی تربیت اور ان کے عقیدہ کی اصلاح کے بارے میں وہ بھی فکر مند رہا کرتے تھے ، اس کے لئے بھر پور کوشش بھی کرتے تھے اور دعا بھی کرتے تھے ،اپنی اولاد کے بارے میں متعدد انبیاء کے اس اہتمام کا ذکرقرآن کریم میں مذکور ہے ،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کرتے ہوئے کبھی یہ التجا کی :

رب ھب لی من الصٰلحین

کبھی یہ درخواست کیا

واجنبنی و بنِیّ أن نعبد الأصنام

اور کبھی یہ دعا فرمائی

رب اجعلنی مقیم الصلٰو ۃ و من ذریتی،ربنا و تقبل دعاء

اوراپنی اولاد کو وعظ و نصیحت اور حکم بھی کرتے رہتے تھے کے ہمیشہ اسلام یعنی اللہ کی اطاعت پر قائم و دائم رہیں ،تاکہ جب بھی موت آئے تو اس حالت میں آئے کہ وہ مسلمان ہوں:

ووصّٰی بھا ابراھیم بنیہ و یعقوب ، یٰبَنِی ان اللہ اصطفٰی لکم الدین فلا تموتن الّا وأنتم مسلمون }،(البقرۃ)

اور جب کہ اس کا حکم کیا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب علیہ السلام نے کہ اے میرے بیٹو! اللہ تعالی نے تمھارے لئے دین کو منتخب کر لیا ہے ، لہذا تمھاری موت نہ آئے مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان رہو ،

اور اتنے ہی پر بس نہیں بلکہ یعقوب علیہ السلام کے بارے میں تو قرآن نے ذکر کیا ہے کہ انھوں نے اپنی وفات کے وقت بھی اپنی اولاد کی طرف سے اس کا اطمینان کرنا چاہاکہ وہ ان کی وفات کے بعد بھی دین اسلام پر باقی رہیں گے :

أم کنتم شہداء اذ حضر یعقوب الموت اذ قال لبنیہ ما تعبدون من بعدی ،قالوا نعبد الٰہک و الٰہ أبائک ابراھیم و اسماعیل و اسحٰق الٰہاً واحداً و نحن لہ مسلمون }

قرآن نے اپنے نزول کے وقت مدینہ منورہ میں موجود یہودیوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا جب حضرت یعقوب علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب ہوا تو اسوقت تم لوگ موجود تھے جب کہ انھوں نے اپنے بیٹوں سے کہا ، کہ تم لوگ میرے بعد کس کی عبادت کروگے ؟ان لوگوں نے کہا کہ ہم عبادت کریںگے آپ کے اور آپ کے آباء و اجداد ابراہیم واسماعیل اور اسحاق علیہم السلام کے معبود کی، ایک معبود کی ، اور ہم اسی کے مطیع و فرمانبردار رہیں گے۔

حضرت زکریا علیہ السلام کا ذکر گزر چکا کہ انھوں جب اولادکی دعا کیا تو اس کے ساتھ یہ بھی دعا کیا :

واجعلہ رب ر ضیاً

اور میرے رب وہ اولاد ایسی ہو جس سے آپ راضی ہوں۔

انبیاء کرام کے اس اہتمام سے واضح ہوتا ہے کہ اولاد کے عقائد کی اصلاح اور اس کی حفاظت کتنی ضروری ہے ،اور یہی وہ چیزہے ، جس سے یہ دنیاوی زینت ،باقیات صالحات میں تبدیل ہوجاتی ہے ،نیز ذخیرۂ آخرت اور صدقۂ جاریہ بن جاتی ہے۔

اولاد کی اخلاقی تربیت

عقائد کی اصلاح کے ساتھ اولاد کی اخلاقی تربیت اور عادات و آداب کی اصلا ح بھی شروع سے ہی ضروری ہے ،مجلس میں بیٹھنے کا سلیقہ ،بڑوں کا احترام ، بات کرنے کا انداز ،کھانے ،پینے کا طریقہ ،ان سارے امور کی تعلیم کا اہتمام موقع ،محل سے ہونا چاہئے ،ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں ایک کمسن صحابی بھی موجود تھے ،اسی دوران طشت میں کھجوریںلائی گئیں یہ چونکہ کمسن تھے ،فوراً کھجوروں کی طرف ہاتھ بڑھایا اور بایاں ہاتھ بڑھایا ،اور یہاں وہاں سے لپکنے لگے ،آپ ﷺ نے ان کی اصلاح فرمائی :

یا غلام سمّ اللہ و کل بیمینک وکل من أمامک

بر خوردار !بسم اللہ کر کے کھاؤ،اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤاور اپنے آگے سے کھاؤ،

حسن ادب، انسانیت کا زیور ہے اور یہ سب سے بہترین ہدیہ اور تحفہ ہے ،جسے کوئی باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے ، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :

ما نحل والد ولدا من نحل افضل من ادب حسن ٭(سنن ترمذی ۵ ؍ ۳۳۸ح۱۹۵۲)

کسی والد نے کسی لڑکے کو حسن ادب سے بہتر کوئی عطیہ نہیں دیا۔

حضرت لقمان علیہ السلام جو حکمت و دانائی میں مشہور ہیں ،انھوں نے اپنے لڑکے کو کچھ نصیحتیں کی ہیں جن کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے ، اس میں عقیدہ کی اصلاح بھی ہے اور کچھ معاشرتی رہنمائی بھی اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک باپ کو اپنے بیٹے کی آخرت کے بارے میں بھی فکر مند ہوناچاہئے ،اور اس دنیا کی خوشحالی،اور نیکنامی کے لئے بھی اچھی تربیت کرنی چاہئے ،قرآن کریم نے ان کی نصیحتوں کا ذکر کچھ اس انداز میں کیا ہے :

واذ قال لقمان لابنہ وہو یعظہ یا بنیّ لا تشرک باللہ ، ان الشرک لظلم عظیم

اور جبکہ لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا : اے میرے بیٹے ! اللہ کے کے ساتھ (کسی کو ) شریک مت ماننا ،شرک کرنا بہت بڑا ظلم ہے،

یٰبنیّ انہا ان تک مثقال حبۃ من خردل فتکن فی صخرۃأو فی السمٰوٰت أو فی الأرض یات بہا اللہ،ان اللہ لطیف خبیر۰یٰبنیّ اقم الصلٰوۃ وامر بالمعروف وانہ عن المنکر ، واصبر علی ما أصابک ،ان ذٰلک من عزم الأمور ۰ ولا تصعر خدک للناس ولا تمش فی الأرض مرحا ، ان اللہ لا یحب کل مختال فخور۰واقصد فی مشیک واغضض من صوتک ،ان انکر الأصوات لصوت الحمیر(سورہ لقمان )

اے میرے بیٹے !بلاشبہ ا گر (عمل) ہوایک رائی کے دانہ کے برابر بھی،پھر ہو کسی چٹان میںیا آسمانوں میں یازمین میں اللہ اس کو(سامنے )لائے گابلاشبہ اللہ لطیف اور خبر رکھنے والا ہے،اے میرے بیٹے نماز کو قائم کرو(آداب و شرائط کے ساتھ نماز کی پابندی کرو)اور اچھائی کا حکم کرو،اور برائی سے روکو،اور جو مصیبت پہونچے اس پر صبر کرو،بلا شبہ یہ عزائم امور(ہمت کے کام )سے ہے ، اور(از راہ تکبر )لوگوں سے اپنا رخسار مت پھیرنا(گال مت پھلانا) ،اور زمین میں اکڑ کر مت چلنا، بلا شبہ اللہ کسی اترانے والے،خود پسند کو پسند نہیں کرتا ، اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرنا،اور (بات چیت میں ) اپنی آواز نیچی رکھنا،بلا شبہ آوازوں میں سب سے نا پسندیدہ آواز گدھوں کی آواز ہے،(جو اونچی ہوتی ہے )

بیش بہا اور قیمتی نصیحتیں ،اخلاق و آداب کے لعل و گہر ،جو کسی انسان کو دنیا و آخرت دونوں میں سرخ رو ،باوقار، معزز اور کامران و کامیاب بنانے والی ہیں ،جس سے یہ ہدایت ملتی ہے کہ اولاد کی ہمہ جہت تربیت پر نظر رکھنی چاہئے، عقائد کی اصلاح ، عبادت کی ترغیب، اخلاق و آداب کی درستگی اور منکرات و نازیبا امور سے دور رکھنے کا اہتمام کرنا چاہئے،

غر ض یہ کہ اولاد کی روحانی اور جسمانی پرورش اور تربیت انبیاء کرام اور صاحب عزیمت لوگوں کا شیوہ رہا ہے ،اور یہ ہر والدین کا فریضہ اور ان کی ذمہ داری ہے اور جیسا کہ اولاد کے اوپر والدین کے حقوق ہیں ،ویساہی والدین کے اوپر اولاد کی پرورش اور انکی اچھی تربیت اولاد کا حق ہے ،اور یہ ایک فطری امر ہے ،غیر ذوی العقول جا نوروں میںسے بھی اکثر اپنی اولاد کے با شعور ہونے تک ان کی پرورش کرتے ہیں اور اپنے لحاظ سے ان کو جینے کے آداب سکھاتے ہیں،

اولاد کی اچھی تربیت کا ثمرہ

اولاد کی اچھی تربیت پر والدین کی محنت اور توجہ رائیگاں اور برباد نہیں ہوتی بلکہ اس کا ثمرہ اور پھل آدمی کو دنیا میں بھی ملتا ہے اور والدین کی وفات کے بعد بھی ان کو اس کافائدہ ملتا رہتا ہے ، اولاد حسن تربیت سے دنیاوی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اچھا انسان وجود میں آتا ہے جس سے ایک اچھا اور صالح معاشرہ وجود میں آتا ہے ، گھریلو ماحول پر سکون رہتا ہے ، ایک دوسرے کے حقوق کی ادئیگی ہوتی ہے ، والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ ہوتا ہے ، انکی خدمت اور دیکھ ریکھ کو کار ثواب ،اور انکے بڑھاپے کو بوجھ اور زحمت کے بجائے باعث برکت و سعادت سمجھا جاتا ہے ،

اور والدین کو مرنے کے بعد اپنی اولاد کی حسن تربیت کا فائدہ یہ ملتا ہے کہ خود دنیا میں ان کا نام روشن رہتا ہے ،ااوران کی تربیت کے سبب اولاد جو اچھے اعمال اور طریقہ پر کار بند رہتی ہے تو اللہ تعالی کے پاس ان کا یہ عمل اور اس کا ثواب جاری رہتا ہے ،صالح اولاد،والدین کے لئے دعاء خیر کرتی رہتی ہے ،رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

ان مما یلحق المؤمن من عملہ و حسناتہ بعد موتہ ،علماً علّمہ ونشرہ، وولداً صالحاً ترکہ،ومصحفاًورّثہ ،أو مسجداً بناہ، أو بیتاً لابن السبیل بناہ، أو نہراً أجراہ ، أو صدقۃ أخرجہا من مالہ فی صحتہ و حیاتہ، یلحقہ من بعد موتہ ، ( سنن ابن ماجہ )

بلاشبہ مومن کی موت کے بعد اس کے اعمال اور حسنات میں سے جو اس سے لاحق ہوتے ہیں یعنی جاری رہتے ہیں ،کوئی علم ہے جو اس نے سکھایا ہو اور اس کو پھیلایا ہو، یا ولد صالح چھوڑاہو،یا مصحف ہے جس کا کسی کو وارث بنایا ہو، یا کوئی مسجد بنائی ہو ، یا کوئی مسافر خانہ بنایا ہو ، یا کوئی نہر کھدوائی ہو ، یا کوئی صدقہ جو اس نے اپنے مال سے اپنی زندگی میں صحت کی حالت میں کیا ہو ، تو یہ اس کو اس کی موت کے بعد بھی وابستہ رہتے ہیں ،

اور ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے :

اذا مات الانسان انقطع عنہ عملہ الا من ثلاثۃ : الا من صدقۃ جاریۃ،أو علم ینتفع بہ ، أو ولد صالح یدعو لہ}،(صحیح مسلم ، کتاب الوصیۃ )

جب انسان مر جا تا ہے ، تو اس کے عمل کرنے کاسلسلہ منقطع ہو جا تا ہے ، مگر تین اعمال کا، صدقۂ جاریہ کا، یا ایسے علم کا جس سے نفع اٹھا یا جاتا ہو،یا ولد صالح کا جو اس کے لئے دعا کرتا ہے ، یعنی چونکہ ان اعمال کا نفع اس کی موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے، اس لئے گویا کہ مرنے کے بعد بھی وہ ان اعمال کو کرتا رہتا ہے جس کا ثواب اس کو بار بار ملتا رہتا ہے ،

اور اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے :

والذین آمنوا واتبعتہم ذریتہم بایمان ألحقنا بہم ذریتہم ،وما ألتناہم من عملہم من شیئِ،کل امریئِ بما کسب رھین ،(والطور ،۲۱)

اور وہ لوگ جو ایمان لائے، اور ان کی ذریت نے ایمان کے ساتھ ان کی اتباع کیا ،تو ہم ان کی ذریت کو ان سے ملائیںگے اور ہم ان کے عمل کے ثواب سے کچھ بھی کمی نہیں کریں گے ،ہر آدمی اپنے کئے کا مستحق ہوگا ،

اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک قول یہ منقول ہے کہ اللہ تعالی مومنین کی ذریات کو ان کے والدین کے بلند مرتبہ تک پہونچائیں گے ، اگرچہ ان کی ذریات عمل میں ا س مرتبہ سے کمتر ہونگی ،اور یہ ان کے والدین کو خوش کرنے کیلئے ہوگا ،

اور دوسرا قول ان سے یہ بھی منقول ہے کہ اگر اولاد مرتبہ میں بلند ہونگی ،اور والدین اپنے عمل کے لحاظ مرتبہ میں کمتر ہونگے ،تو ان کو اولاد کے اونچے مرتبہ تک پہونچایا جائے گا ، ( تفسیر قرطبی ،سورہ والطور )

یہ اولاد کے صالح ہونے کا اخروی فائدہ ہے ، اور اولاد کا صالح ہونا عموماً ان کی حسن تربیت کا ہی ثمرہ ہوتا ہے ، اس لئے اولاد کی حسن تربیت سے غافل نہیں ہو نا چاہئے، آخرت کی زندگی بر حق ہے اورکسی انسان کے مومن ہونے کے لئے یوم آخرت پر ایمان رکھنا ضروری ہے، اور اس زندگی کا عیش و آرام ، یا اس زندگی کی کلفت و مصیبت دائمی ہے،ہر آدمی اپنی اولاد کے عیش وآرام کے لئے فکرمند رہتا ہے ،اور یہ چاہتا ہے کہ اس کی اولاد تکلیف میں نہ رہے ، خاص طور سے دنیوی زندگی میں اسکی ہر ممکن کوشش کرتا ہے ،اللہ تعالی نے اسکی طرف توجہ دلائی ہے اور اس کا حکم دیا ہے کہ اپنے اہل وعیال کی اخروی زندگی کے عیش و آرام کی فکر کی جائے اور ان کو جہنم کی آگ سے بچایا جائے :

یٰأہا الذین آمنوا قوا أنفسکم و أھلیکم ناراً وقودھا الناس و الحجارۃ،وعلیھا ملائکۃ غلاظ شداد لا یعصون اللہ ما أمرھم و یفعلون مایؤمرون }،(التحریم ، ۶) 

اے وہ لوگ جو ایمان لائے !اپنے کو اور اپنے اہل وعیال کو اس آگ سے بچاؤ،جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہونگے، اور اس آگ پر انتہائی سخت فرشتے مقرر ہونگے ،جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کریںگے ،اور وہی کریں گے جو حکم دیئے جائیں گے،

اشتراک کریں