بنارس سے میرا تعلق قدیم نہیں بلکہ قدیم تر ہے، مئو سے سب سے قریبی بڑا شہر یہی ہے، معاشی یکسانیت کے ساتھ ساتھ علاج و معالجے کا بڑا مرکز بھی یہی ہے۔ یہ شہر گوناگوں خصوصیات کا حامل ہے، خصوصاً ہندو دھرم میں کاشی کی دھرتی اپنی قدامت اور آستھا سے جوڑ کے ساتھ بہت مقدس سمجھی جاتی ہے۔اودھ کی شام اور بنارس کی صبح کا نظارہ قابل دید ہوتا ہے۔ غالب کو یہ بنارس اور اس کی سہانی صبح ایسی بھائی کہ "چراغ دیر” نامی مثنوی کہ ڈالی۔ موجودہ بنارس کو دیکھ کر یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ وہ کیا چیز تھی جس نے غالب کو مبہوت کر کے رکھ دیا تھا جو اس قدر مبالغہ آرائی کرتے نظر آئے، اور اس کی (اپنے خیال میں) ابدی اور لازوال خوبصورتی، رعنائی و تابانی کو دیکھ کر گویا ہوئے تھے۔
کہ حقا نیست صانع را گوارا
کہ از ہم ریزد ایں رنگیں بنارا
بلند افتادہ تمکین بنارس
بود بر اوج او اندیشہ فارس
ترجمہ
نہیں یہ صانع قدرت کی مرضی
کہ ہو برباد یہ فردوس ارضی
بلند کتنا ہے کاشی کا تجمل
نہ پہونچے اوج کو اس کے تخیل
(حنیف نقوی)
غالب ملتے تو پوچھتا کہ آپ کی وہ کون سی باریک بیں نظر تھی جس سے آپ کو یہ سر زمین جنت ارضی نظر آئی تھی، جو ترقی کے اس دور میں ایک صدی بعد بھی ہمیں کھلی آنکھوں نظر نہیں آ رہی ہے۔ ظاہر ہے اس سر زمین سے ہندو دھرم کی وابستگی اور عقیدہ کو بیان نہیں کرنا تھا؛ کیونکہ اس کا تفصیلی بیان دوسرے شعروں میں ہے؛ بلکہ اس کی قدرتی، ظاہری خوبصورتی اور تابانی کا بیان مقصود ہے جو کہ موجودہ دور میں بالکل ناپید ہے۔گندگی، بد نظمی، کوڑوں کے ڈھیر، ناگفتہ بہ سڑکیں، وغیرہ وغیرہ اس کا امتیازی نشان ہے؛ بلکہ کہ لیجیے سانسکرتی ہے۔ "چراغ دیر” اور موجودہ بنارس کے خیالی اور حقیقی تصویر ذہن میں لئے ہوئے بنارس کی صبح دیکھنے کا کبھی موقع نہیں ملا تھا، آج صبح صبح اسّی گھاٹ سے دساسومیدھ گھاٹ کشتی سے جانے کا اتفاق ہوا اور ونڈو شاپنگ کی طرح ایک طرف گھاٹوں تو دوسری طرف اگتے سورج کا سرسری نظارہ کرکے واپس لوٹ آئے، اگتے سورج کی زردی اور صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے دل و دماغ میں ایسی تروتازگی بخشی کہ کمرے پر آتے ہی پرسکون نیند سو گئے، اور جب آنکھ کھلی تو اس بات کا احساس ہی نہیں رہا کہ رات میں لائٹ نہیں تھی، اور جدید تکنیک سے لیس مسلح مچھروں کی یلغار نے نہتے منش کو سونے نہیں دیا تھا۔ یاد ماضی کے عذاب کو بھلانے کے لئے حافظے کو فارمیٹ کرنے کی دعا بھی نہیں کرنی پڑی؛ بلکہ اس کے لئے صبح کی ٹھنڈی ہوا، سورج کی ہلکی کرن ہی کافی ہوگئی؛ مگر کیا کیجئے ایک تکلیف سے نکلتے نہیں کہ دوسری میں پھنس جاتے ہیں،ایک ایسی ٹرین میں گھر کے لئے عازم سفر ہیں جو پہلے ہی سے ٨ گھنٹہ لیٹ ہے، مزید ایک گھنٹہ سے سے بنارس کے اسٹیشن پر کھڑی ہے، اور جب ٹرین چل پڑی ہے، دید قدرت ہو ہی گئی پھر کیوں نا پاؤں پسار لئے جائیں۔
آنکھ ٹک کھول دید قدرت کر
پھر تو پاؤں پسار سونا ہے
(شیخ ظہور الدین حاتم)