فلسطینی وفد کی ہندوستان آمد اور قضیہ فلسطین پر گفتگو

بروز سنیچر فلسطین کے تین دانشور (دکتور محمود شوبکی، دکتور طہ صفدی،دکتور جودت مظلوم) دائرہ شاہ علم اللہ (تکیہ کلاں) تشریف لائے،یوں تو ان کے ہندوستان آنے کا مقصد علمائے ہند کو قضیہ فلسطین کی جانب متوجہ کرنا تھا، لیکن تکیہ آنے کا ایک مقصد مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں کے دیار کی زیارت، فاتحہ خوانی اور حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مد ظلہ سے ملاقات بھی تھا..

تقریبا چھے گھنٹے ان کا قیام رہا، اس دوران مستقل ان کی صحبت اٹھانے اور مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کا موقع بھی ملا، چونکہ ان کی گفتگو متنوع موضوعات پر محیط تھیں اس لیے ذیل میں ان کی باتوں کا خلاصہ ذیلی عناوین کے ذریعہ ملاحظہ کریں.

تذکرہ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی

دکتور محمد شوبکی کہنے لگے کہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ہم نے شیخ سے پڑھا ہے، ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہے.ہم خوش قسمت ہیں کہ شیخ کے سامنے بیٹھنے کا اور ان سے استفادہ کا موقع ملا..

شیخ جودۃ مظلوم نے کہا کہ ہم نے شیخ ندوی کو  دیکھا تو نہیں لیکن ہماری تربیت و ہماری ہرورش شیخ ندوی کی کتابوں کے سایہ میں ہوئ ہے، سب سے پہلی کتاب جو ہم نے پڑھی ہے وہ ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين ہے، اس کے بعد شیخ ندوی کی ہم نے بہت سی کتابیں پڑھی ہیں..

پھر کہنے لگے کہ شیخ ندوی کا اہل فلسطین پر بڑا احسان ہے کہ انھوں نے قضیہ فلسطین کو ہمیشہ اہمیت دی اور بغیر کسی کی پروا کیے انھوں نے ہمیشہ اس قضیہ کھل کر لکھا اور کھل کر اس پر گفتگو کی اور عرب قائدین کو بار بار اس کی طرف متوجہ کیا.. ہم سب پر ان کا بڑا احسان ہے اس لیے ہمارا حق تھا کہ ان کے دیار میں ہم حاضر ہوں اور یہاں سے استفادہ کریں..

اسی دوران برادرم خلیل حسنی ندوی نے حضرت مولانا کی مشہور تقریر جو قضیہ فلسطین پر ہے اس کا رکارڈ پلے کردیا اور سب نے پوری توجہ سے اس کو سنا اور حضرت کی غیرت ایمانی اور جذبہ اخوت کا دیر تک تذکرہ ہوتا رہا..

شیخ صاحب کہنے لگے کہ پہلے ہم سمجھتے تھے کہ جس کے بھی نام کے ساتھ ندوی لکھا ہوتا ہے وہ سب شیخ ندوی کے خاندان کے افراد ہیں، لیکن ہندوستان آکر معولم ہوا کہ یہ عظیم اداہ ندوۃ العلماء کی طرف نسبت ہے..

اسرائیل کے یہود

کہنے لگے کہ اسرائیلی بہت ظالم بھی ہیں اور بہت بزدل بھی، ان کی بزدلی کا یہ عالم ہے کہ ایک بچہ بھی اگر زور سے اللہ اکبر کہتا ہے تو ان کے اندر بھگدڑ مچ جاتی ہے، جبکہ وہ جدید اسلحوں سے لیس ہوتے ہیں، اور جب زیادہ خوف طاری ہوتا ہے تو بوکھلا کر ادھر ادھر گولیاں چلانے لگتے ہیں اور اسی میں بہت سے معصوم شہید ہوجاتے ہیں..

ہر فوجی کے پاس جدید آٹو میٹک ہتھیار ہوتے ہیں، وہاں ہر یہودی کے لیے فوجی ٹریننگ ضروری ہے، کبھی بھی ایمرجنسی میں ان کو کال دی جا سکتی ہے..

اس طرح ہر یہودی کو ہتھیار رکھنے کی عام اجازت ہے.

تمام یہودیوں کا متفقہ ہدف ہے کہ ارض فلسطین کو  مسلمانوں سے خالی کرایا چاہے، خواہ انھیں ملک سے باہر کرنا پڑے یا موت کے گھاٹ اتارنا پڑے..

البتہ طریقہ کار کو لے کر ان کے درمیان اختلاف شدید بھی موجود ہے،  جو متمول اور سرکاری طبقہ ہے وہ فلسطینیوں پر کبھی بھی حملہ کردیتا ہے اور معصوموں کو ہلاک کردیتا ہے، اور جب اس کے ری ایکشن میں فلسطینی کوئ کارروائی کرتے ہیں تو یہودیوں کا وہ طبقہ زیادہ نشانہ بنتا ہے جو غیر متمول ہے اور فلسطینیوں کے لیے سہل الحصول ہے، اس لیے یہ طبقہ کہتا ہے کہ فلسطینیوں کو مارو ضرور لیکن دھیرے دھیرے اور ایک ایک کرکے مارو تاکہ ری ایکشن میں ہم محفوظ رہیں..

یہ  طبقہ بہترین عربی بولتا ہے اور اہل فلسطین سے مستقل واسطہ میں رہتا ہے..

ارض فلسطین

کہنے لگے کہ یہودی بہت ہی مکار اور عیار ہوتے ہیں، فلسطین میں وہ صفائی ستھرائی کے کام کی خاطر آئے تھے، پھر انھوں نے زمینیں خریدنی شروع کیں، ان کا حقیقی مقصد یہاں ناجائز قبضہ کرنا تھا، مسلمانوں نے اسے محسوس کرلیا اور علماء کی جانب سے یہ عام فتویٰ جاری ہوا کہ کوئی بھی یہودی کو زمین نہیں بیچے گا، یہودیوں نے زمین کے معمولی سے ٹکڑے کے عوض لاکھوں ڈالر کی پیش کش کی لیکن الحمد للہ مسلمانوں نے پوری طرح رد کردیا..

پھر انھوں نے یہ عیاری کی کہ لبنان کے عیسائیوں کو اس کے لیے تیار کیا، مسلمان اس فریب میں آگئے اور عیسائیوں کو اپنی زمینیں بیچیں، پھر ان سے یہودیوں نے کئ گنا قیمت دے کر خرید لیں، عیسائیوں کے نام مسلمانوں کی ہی  طرح ہوتے ہیں اس لیے اس فریب کو مسلمان دیر میں سمجھ سکے، پھر علماء کی جانب سے یہ فتویٰ آیا کہ عیسائیوں کو زمین نہیں بیچی جائے گی.

اس کے بعد یہودیوں نے دوسری سازش رچی اور اس بار انھوں نے امارات کے مسلمانوں کو استعمال کیا، ان مسلمانوں نے فلسطینیوں سے زمینیں خریدیں اور پھر منھ مانگی قیمت میں یہودیوں کے ہاتھ فروخت کردیں. جب اہل فلسطین نے یہودیوں کی اس مکاری کو سمجھا تو یہ فتوی جاری کیا گیا کہ اب فلسطین کی زمین صرف فلسطینی مسلمان کو ہی بیچی جاسکتی ہے..

لیکن اس وقت تک یہودیوں نے ایک بڑا حصہ خرید لیا، اور پھر حکومت اسرائیل  کے اعلان کے بعد اس سے بھی بڑے حصہ پر جبریہ قبضہ کرلیا

فلسطینی مسلمان

کہنے لگے کہ اہل فلسطین کو اپنی سرزمین سے بے انتہا عشق ہے، مسجد اقصی کے لیے وہ تڑپتے ہیں، رمضان کے مہینہ میں اسرائیل کی جانب سے سخت پابندیاں عائد ہیں، خاص رمضان کے مقدس مہینہ میں پوری طرح پابندی لگا دی جاتی  ہیں، راستے مسدود کردیے جاتے ہیں، اقصی کیپمس کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں لیکن پھر بھی اقصی کے متوالے ساری بندشوں کو توڑتے اور دیواروں کو پھاندتے ہوئے مسجد اقصی تک پہنچ جاتے ہیں..

کہنے لگے کہ ہم غزہ ہی میں رہتے ہیں لیکن بیس پچیس سال سے ہم مسجد اقصی نہیں جاسکے، ہمارے اوپر اتنی سخت پابندیاں عائد ہیں کہ اگر ہم وہاں قریب بھی نظر آئے توہمیں  فورا گرفتار کر لیا جائے..

فلسطینی مسلمانوں کو اللہ نے شوق شہادت کی دولت سے مالامال کیا ہے، آپ کو شاید معلوم نہ ہو کہ اسرائیلی حکومت جب کسی فلسطینی کو کسی یہودیو کے قتل میں گرفتار کرتی تو پہلے اسے موت کی سزا سنائی جاتی تھی، یہودیوں کا مذہبی نظریہ ہے کہ یہودی کا قاتل مستحق پھانسی ہے لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ مسلمان خوشی خوشی اپنی جان دے رہا ہے بلکہ وہ کہہ رہا ہے کہ ہم تمھارے شکر گذار ہیں کہ تم نے ہمیں شہادت کی عظیم نعمت تک پہنچا دیا.. یہ دیکھ کر اسرائیلی پارلیمنٹ میں گرما گرم بحث چھڑی اور یہ طے پایا کہ موت کی سزا کے بجائے قید و بند کی سخت سے سخت سزا دی جائے، چنانچہ یہ قانون پاس ہوا کہ ایک یہودی کے قتل کی سزا پورے ایک سو سال کی قید ہے، آج اسرائیلی جیلوں میں ایسے فلسطینی بھی قید ہیں جنھوں نے بیس پچیس یہودیوں  کو موت کے گھاٹ اتارا  اور انھیں دو دو اور ڈھائ ڈھائ ہزار سال کی قید ہوئی ہے..

یہ یہودی موت سے بہت زیادہ ڈرتے ہیں، اور لمبی لمبی عمر تک بلکہ بس چلے تو قیامت تک زندہ رہنے کی کوشش کریں، اب کسی کو دوہزار یا ڈھائی ہزار سال کی سزا سنانا کس ذہنیت کی عکاسی ہے آپ خود سمجھے..

فلسطینی مسلمان ماشاءاللہ بہت جری اور دلیر ہیں، فوجیوں کے پورے پورے جتھے سے اکیلا نوجوان بھڑ جاتا ہے، بلکہ ایک بچہ بھی سینہ تان کر کھڑا ہوجاتا ہے، جبکہ یہ بالکل نہتھا ہوتا ہے اور وہ ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں پھر بھی بارہا انھیں میدان چھوڑ کر بھاگنا پڑتا ہے، آپ کسی اسرائیلی فوجی کو کبھی تنہا نہیں دیکھیں گے، وہ ہمیشہ غول بنا کر رہتے ہیں لیکن کبھی کبھی مسلمانوں کی جرات کو دیکھ کر اتنا گھبرا جاتے ہیں کہ اپنے ساتھی پر گولیاں چلادیتے ہیں.

آپ نے شیخ یاسین کا نام تو سنا ہی ہوگا، یہودیوں کے دلوں میں ان کا رعب اور ان کی دہشت اس قدر سمائی تھی کہ ان کا نام سنتے ہی ہاتھ پیر پھولنے لگتے تھے، دیکھنے میں شیخ یاسین بالکل معذور تھے، اپنی کرسی سے اٹھ بھی نہیں سکتے تھے لیکن یہودیوں کو معلوم تھا اس شخص کا دماغ بہت مضبوط ہے،  کرسی پر بیٹھے بیٹھے اس نے ناک میں دم کر رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ میزائل سے ان کو ٹارگیٹ کیا گیا، اور ان کے چتھڑے اڑ گئے، ہم لوگوں نے ان کے بکھرے اعضاء کو ادھر ادھر سے سمیٹ کر دفن کیا..

شیخ یاسین واقعی میں بہت زبردست شخص تھے، ان کی ایک آواز پر سارے مسلمان جمع ہوجاتے تھے، ان کی ایل جھلک کے لیے لوگ ٹوٹ پڑتے تھے، اللہ نے ان کو غیر معمولی تاثیر سے نوازا تھا، ان کے ہوتے ہوئے کہیں ظلم نہیں ہوسکتا تھا، اگر کسی بارے میں معلوم ہوتا کہ وہ کسی پر ظلم کررہا ہے تو شیخ اسے کہلا دیتے کہ اگر دوبارہ ایسا ہوا تو میں آتا ہوں تمھارے پاس، پھر اس کی دوبارہ ہمت نہی ہوتی تھی..

اگر کسی پر زیادتی ہوتی تو کہتا کہ ابھی شیخ یاسین کے پاس جارہا ہوں تو معاملہ فورا وہیں کا وہیں درست ہوجاتا تھا..

فلسطین اپنی غیرت ایمانی اور شوق شہادت کی طاقت سے ظالم اسرائیلی فوج کا سامنا کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ ہتھیار بھی بناتے ہیں، ٹینک اور میزائل بھی بناتے ہیں، اور فوجی تربیت بھی دیتے ہیں لیکن یہ سب کام زیر زمین سرنگ بنا کر کیا جاتا ہے. اسرائیل کو سب خبر ہوتی ہے لیکن اندر تک گھسنے اور سامنا کرنے کی جرات نہیں ہوتی، وہ فلسطینیوں سے وہ بہت ڈرتا ہے، اور جب جب اس کے خوف میں اضافہ ہوتا ہے اس کی جانب سے غزہ پر پابندیاں بڑھا دی جاتی ہیں لیکن اللہ کا فضل ہے کہ کسی بھی فلسطینی مسلمان کا جذبہ نہ سرد پڑتا ہے اور نہ اسے کے قدموں میں لغزش ہوتی ہے..

مسلمانوں سے گذارش

ہم مسلمان سے صرف یہی کہنے آئے ہیں کہ یہ مسجد اقصی کا قضیہ صرف اہل فلسطین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پوری دنیا کے مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور اپنی اپنی  سطح پر ہر صاحب ایمان کو اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور کم سے کم صورت یہ ہے کہ دعاؤں میں اہل فلسطین کو یاد رکھیں اور مسجد اقصٰی کی بازیابی اور اس کی آزادی کی خدا سے فریاد کریں..

حدیث پاک میں وارد ہوتا ہے کہ

من لم یھتم بامر المسلمین فلیس منا

اللہ پاک ہم سب کو جذبہ جہاد و شوق شہادت کی دولت سے نوازےاور مسجد اقصی کی بازیابی کے لیے ہمیں کچھ کرنے کی توفیق دے..

چھے گھنٹے کے اس قیام میں  مہمانوں نے حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی کے پاس کافی وقت گذارا،  مولانا بلال عبدالحسی حسنی ندوی کے ساتھ لمبی نشست رہی اور ہر ایک ملاقات میں فلسطین اور قضیہ فلسطین پر ہی خصوصی گفتگو ہوتی رہی..

اس پورے دورانیہ میں  برادرم خلیل حسنی ندوی مستقل ساتھ رہے، اور متنوع موضوعات پر گفتگو کرتے رہے.

مہمانوں کی آمد اور ان سے استفادہ کی یہ شکل برادرم مجیب الرحمن عتیق سنبھلی ندوی کے توسط سے ہی ممکن ہوئ، انھوں نے مہمانوں کی آمد و قیام کی ترییب بنائی اور ہمیں استفادہ کا موقع ملا.. اللہ تعالی ان کو جزائے خیر دے..

فلسطینی دانشوروں کو دیکھ کر اور ان سے مل کر تکیہ پر موجود سبھی مہمان بہت خوش ہوئے اور مسجد اقصٰی سے متعلق ایک عام انسان کے جذبات بھی قابل قدر ہوئے..

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اہل فسلطین کو ثابت قدمی نصیب کرے اور غیب سے ان کی مدد کرے، اور یہودیوں کے خونیں پنجہ سے مسجد اقصٰی کی رہائی کی سبیل پیدا کرے..

اشتراک کریں