لفظ "فتوی” کا غلط استعمال

موجودہ    دور میں لفظ "فتوی” کو لے کر عوام الناس میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں،عمومی طور پر اس کا ترجمہ opinion یا "رائے” کر دیا جاتا ہے، جس سے عام لوگ یہ سمجھتے ہیں كه فتوی کسی عالم یا مکتب فکر کی رائے ہوتی ہے اور اس پر پروپیگنڈہ شروع کر دیا جاتا ہے۔جبکہ ساری غلط فہمی لفظ "فتوی”کے لفظی اور اصطلاحی معنی میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ فتوی موجودہ دور کی ایجاد ہے ؛ بلکہ خیرالقرون سے اس کا رواج چلا آ رہا ہے اور مستقبل میں بھی یہ ضرورت باقی رہے گی۔ فتوی کسی کی ذاتی رائے نہیں ہوتی ہے؛ بلکہ شرعی مسائل میں پوچھے گئے سوال کا قرآن  و حدیث کی روشنی میں میں دیا گیا جواب ہے۔لفظاً تو اس کا اطلاق کسی بھی سوال کے جواب کے لئے ہوتا ہے، چاہے اس کا تعلق احکام شرعیہ سے ہو یا نہ ہو مگر اصطلاح میں فتوی کسی دینی امور میں کئے گئے سوال کا جواب ہوتا ہے: الجواب عن مسئلة دينية. 

عربی زبان کی ڈکشنری میں فتوی کا معنی مطلق رائے یا  opinion نہیں بتلایا گیا ہے بلکہ لفظ فتوی  کا  اطلاق  الفتوى ما يفتى به المفتي أو العالم بعلوم الدين و في قضايا الشرع ليبين الحكم الصحيح یا الجواب عما يشکل من المسائل الشرعية أو القانونية جیسے الفاظ کے ذریعہ کیا گیا ہے۔ اور ظاہر ہے یہ صرف opinion نہیں؛ بلکہ Legal opinion concerning Islamic Law ہے۔ اور شریعت کے مطلق مسائل میں عالم یا مکاتب فکر کی ذاتی آرا نہیں ہوتی ہیں۔ نیز یہ بات ملحوظ خاطر رہےکہ کسی مسئلہ میں مختلف مسالک کی آراء کا تنوع ایک دوسرا مسئلہ ہے۔

فتوی کی اہمیت وافادیت ہرمسلمان جانتا اورسمجھتا ہے،لیکن موجودہ دور میں اہل فتوی اور سائلین کی ایک بڑی تعداد اس کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ ماضی میں فتوی دینے کے مجاز اور اہل نمائندہ ادارے ہی تھے، لیکن اب چھوٹے چھوٹے مدارس میں بھی دارالافتا  اور شعبہ افتا کھل گئے ہیں جہاں ناپختہ صلاحیت ناقلين فتاوی کیا کیا گل کھلا رہے ہیں یہ سب کو معلوم ہے۔ جہاں تک دارالافتا  کا تعلق ہے تو یہ امر اس حد تک قابل برداشت ہے کہ مفتیان کی ایک جماعت روزمرہ کے پیش آنے والے مسائل میں سائلین کا تشفی بخش جواب قرآن و سنت کی روشنی میں دے۔ لیکن جو مدارس شعبہ افتاء(نیز شعبہ مطالعہ شامی)قائم کئے ہوئے ہیں اور ہر کس و ناکس کا داخلہ لے کر فتوی دینے کا مجاز بنا دیتے ہیں (اس سے میری مراد قابل اور باصلاحیت مفتیان کرام نہیں ہیں)بلا شبہ فتوی کے اصول و قواعد کے ساتھ بڑی ناانصافی ہے۔ ایک مفتی کی اس کے منصب کے مطابق ذمہ داریاں بھی اہم ہیں، اس میں تھوڑا سا بھی تغافل امت کو بہت بڑا نقصان پہونچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ صحابہ و تابعین اور علمائے سلف کی وہ جماعت جو فتوی دینے کی مجاز تھی ان کی احتیاط اور فتوی دینے کے سلسلے میں ان کے اقوال کو ملحوظ رکھنا ہر مفتی کی دینی ذمہ داری بنتی ہے۔

مفتی تقی عثمانی مدظلہ نے اپنی کتاب أصول الإفتاء و آدابه میں تهيب السلف للفتيا  کے عنوان سے ایک باب قائم کیا ہے جس میں فتوی دینے میں سلف کی غایت درجہ احتیاط، اور ان کے اقوال کو زبان و بیان کے عمدہ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ چند واقعات و اقوال ذیل میں بیان کئے جاتے ہیں۔

عقبہ بن مسلم فرماتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ کے ساتھ۳۴ مہینے رہا، کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ جب کوئی شخص ان سے سوال کرتا تو آپ کہه دیتے لا أدری – مجھے نہیں معلوم – پھر میری طرف متوجہ ہو کر فرماتے:تم جانتے ہو یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ یہ لوگ ہماری پشت کو جہنم کا راستہ بنانا چاہتے ہیں۔

سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: أعلم الناس بالفتوى أسكتهم فيه، وأجهل الناس بالفتوى أنطقهم فيه یعنی اہل فتوی میں سب سے زیادہ باخبر وہ ہے جو بہت احتیاط سے کام لے اور ہر سوال کا جواب نہ دے، اور جو مفتی ہر سوال کا مصلحت اور وقت کے تقاضے کو ملحوظ رکھے بغیر جواب دے وہ بیوقوف ہے۔

علامہ نووی نے ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ من أفتى عن كل ما يسأل فهو مجنون کہ ہر سوال کا جواب دینے والا (مفتی) بیوقوف ہے۔ احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے کسی نے لعان کا مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا – سل رحمك الله عما ابتليت عنه– اللہ تم پر رحم کرے ایسا سوال پوچھو جس سے تمہارا سابقہ پڑا ہو۔ احمد بن حبان قطیعی نے امام احمد سے باقلاء اور نورہ کے پانی سے وضو کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا میں اچھا نہیں سمجھتا، پھر امام نے ان سے پوچھا مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے پر کیا پڑھتے ہو تو وہ چپ رہے حضرت امام نے ان سے کہا جاؤ پہلے ان چیزوں کا علم حاصل کرو۔ اکابرین علمائے امت سے اس طرح کے اقوال بکثرت موجود ہیں جو اس بات کے غماز ہیں کہ اہل فتوی اور خود سائل کو نہایت احتیاط برتنے کی طرف مشیر ہیں؛کیونکہ موجودہ حالات میں سوالات کی کثرت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس سے اصلاح کا مقصد کم اور فتنہ انگیزی زیادہ ہے۔ ایسے حالات میں مفتی کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ سائل کی نیت کا جائزہ لے،لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ سائل کی فتنہ انگیزی کو نہ سمجھ سکے،جبکہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ میڈیا سے جزوی طور پر وابستہ لوگوں نے سوالات پوچھے، اور پھر TV اور اخبارات کی سرخیوں میں علما  اور نمائندہ مدارس کو ہدفِ تنقید بنا کر جو فتنہ پھیلا گیا یا جا رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ان شاطر لوگوں کی پھیلائی ہوئی جال میں کچھ سادہ مسلمان بھی پھنس جاتے ہیں اور لا یعنی، غیر ضروری سوالات (جن کا ان كي ذات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے)پوچھ کر فتنہ پروروں کے معاون بننے کا کام کرتے ہیں۔

موجودہ حالات کی شر انگیزی کو سامنے رکھ کر فتوی کے ذریعہ شریعت کی تعبیر و تشریح میں علما  و مفتیان کے کردار کو مضبوط بنانے اور ایک ایسا لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے جو اس منصب کے تقدس کی حفاظت کر سکے،اور جو فتوی سامنے آئے اس میں علماءاور مفتیان کی غایت درجہ احتیاط شامل ہو، اور وہ مکمل طور پر شریعت کا عکاس ہو؛ تاکہ غلط ترجمانی پر قدغن لگ سکے اور سادہ لوح عوام الناس کے نزدیک اس کا تقدس واعتماد برقرار رہے۔

اشتراک کریں