نظم (ملک کے فسادات کے پس منظر میں)

شعلۂ ظلم سے بستیاں جل گئیں
برقِ نفرت سے آبادیاں جل گئیں

گُلسِتاں اس طرح نذرِ آتش ہوا
پتیاں جل گئیں ٹہنیاں جل گئیں

کس طرح ہو گیا اجڑا اجڑا چمن
میرے گلشن کی رعنائیاں جل گئیں

اب نہیں کوئی گلشن میں نغمہ سرا
کوئلیں جل گئیں، قُمریاں جل گئیں

کیا ہَوا چل گئی سب جھلسنے لگے
لگ رہا ہے کہ پُروائیاں جل گئیں

خوشبوؤں سے بھرے پھول مرجھا گئے
رقص کرتی ہوئی تتلیاں جل گئیں

بغض و نفرت کی ایسی کڑی دھوپ ہے
امن و راحت کی پرچھائیاں جل گئیں

چار سُو قتل و غارتگری عام ہے
زندگی کی سبھی کھیتیاں جل گئیں

زخم سے چُور ماں باپ کے سامنے
قتل بیٹے ہوئے، بیٹیاں جل گئیں

یا خدا خوف و دہشت کے ماحول میں
خشک آنسو ہوئے سِسکیاں جل گئیں

شادمانی کے نغمے کہاں کھو گئے
سب کے ہونٹوں کی شہنائیاں جل گئیں

شائقِ خستہ دل آج مغموم ہے
اس کے احساس کی شوخیاں جل گئیں

اشتراک کریں