توحید کی امانت

توحید کا مفہوم

توحیدکا لغوی معنی ہے ایک کرنا ، ’’وحّدہ توحیداً،جعلہ واحدا‘‘،(القاموس المحیط)

اور شرعی اصطلاح میں اس سے مرادیہ اعتراف و اقرارہے کہ صرف ایک اللہ کی ذات اکیلی اس کی مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے ،اس میں اس کا کوئی شریک و ساجھی نہیں ،یہ مذہب اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے ،جس پر تمام عبادات کی صحت و قبولیت کا مدار ہے، اور یہی جنت کی کنجی ہے ۔

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے منقول ہے :

قال لی رسول اللہ ﷺ مفاتیح الجنۃ شھادۃ أن لا الٰہ الا اللہ۔

جنت کی کنجیاں،گواہی دینا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ،(مشکٰوۃ المصابیح )،

اور قرآن کریم میں مذکور ہے :

من عمل صالحا من ذکر و أنثیٰ وھو مؤمن فأولٰئک یدخلون الجنۃ یرزقون فیھا بغیر حساب۔

مرد یا عورت جس نے بھی اس حال میں عمل صالح کیا کہ وہ مومن ہے ،تو یہی لوگ جنت میں داخل ہونگے جس میں بے حساب رزق دیئے جائیں گے(سورہ غافر، ۴۰ )

توحید کا اہتمام قرآن کریم میں

قرآن کریم جو اللہ کی اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے اتاری ہوئی آخری کتاب ہے ، اس میں عقیدۂ توحید کے اعتراف اور اس کے قبول کرنے کی بہت زیادہ تاکید آئی ہے،ارشاد ربانی ہے:

و الٰھکم الٰہ واحد ،لاالٰہ الا ھو الرحمٰن الرحیم}،(سورہ بقرہ ۱۶۳)،

اور تمہارا معبود ایک ہے، جو انتہائی مہربان اور رحم کرنےوالا ہے۔

اس سے پہلے والی آیت میں اللہ تعالی نے ،اپنی ،فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی ان لوگوں پرلعنت اور عذاب کا ذکر کیا ہے جو کفر اختیار کرتے ہیں، اور اپنے ارد گرد موجود اللہ کی آیات اور نشانیوں کو دیکھ کر ان میں غور وفکر کر کے ایمان قبول نہیں کرتے ، اللہ کی وحدانیت کا اقرار نہیں کرتے یہانتک کہ اسی کفر پر انکی موت بھی ہوتی ہے ،پھر اس آیت کے ذریعہ خبردار کیا کہ تمھارا معبود ،ایک ہی معبود ہے ،کوئی معبود نہیں ہے مگر وہی جو بہت مہربان، رحم کرنے والا ہے، یعنی کفر و شرک کی شقاوت و بدبختی پر متنبہ فرمایا کہ یہ اتنی ناگوار بات ہے کہ ایساکرنے والے پر وہ اللہ جو بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے وہ بھی لعنت کرتا ہے اور سخت عذاب مسلط کرتا ہے ،پھر اس کے بعد والی آیت میں اللہ نے اپنی چند آیات ،آسمان وزمین کی خلقت، رات و دن کے آنے جانے،دریا اور سمندر میں کشتی اور جہازوں کے چلنے،بارش کے ہونے ،پھر اس کے ذریعہ خشک ،بے آب و گیاہ زمین کے سبزہ زار ہونے وغیرہ کا ذکر کیا ہے جن میں عام آدمی بھی اپنی عقل وفہم کا استعمال کرے تو وہ اپنے حقیقی معبود ،اللہ تک پہونچ سکتا ہے،

قرآن کریم میں ایسی متعدد آیات ہیں جن میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو آسمان و زمین میں موجود چیزوں میں غور و فکر کی دعوت دی ہے ، اور انھیں غیرت دلائی ہے کہ اس ایک اللہ کے علاوہ کون ہے جسنے اس زمیں کو تمھارے رہنے اور چلنے پھرنے کے قابل بنا یا، کون ہے جس نے اسمیں دریا اور سمندر بنائے ،کون ہے جو آسمان کو تم پر گرنے سے روکے ہوئے ہے ، کون ہے جو تمھارے لئے بارش برساتا ہے، جس سے تمھاری کھیتیاں لہلہاتی ہیں ،اور تمھارے لئے غلے اور پھل پیدا ہوتے ہیں ،کون ہے جو مصیبت کی گھڑیوں میں تمھاری سنتا ہے ،اور تمھا ری مصیبت دور کرتا ہے ، کیا اس ایک اللہ کے علاوہ کوئی اور ہے جو یہ سب کرتا ہے ؟ کوئی اور ہے جو دردمندوں کی سنتا ہے ؟ میرے بندو ! تمھارا جواب یہی ہوگا کہ نہیں اس ایک اللہ کے علاوہ کوئی اور ،یہ سب نہیں کرسکتا ، میرے بندو! پھر کیسے تم بہک جاتے ہو ، پھیر دیئے جا تے ہو؟(تفصیل کے لئے دیکھئے (سورہ بقرہ ، آل عمران ،یونس ،۳۱،۳۲،المومنون ،۸۴ -۸۹،زمر ، ۶،واقعہ ،۵۸ – ۷۲،سورہ ملک ،) ،

ان جیسی آیات میں اللہ تعالی نے بہت ہی سادہ اور فطری انداز میں توحید کا پیغام دیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ اللہ کفر کو پسند نہیں کرتا ،اور اگر تم عناد اور سرکشی کرتے ہو ، اللہ کی ان ساری نعمتوں کا انکار کرتے ہو، ناشکری کرتے ہو ، تو اللہ کی الوہیت میں کوئی فرق نہیں آئے گا ،مانو گے اپنے لئے، نہیں مانوگے تو اس کا وبال تمھارے ہی سر ہوگا ، اللہ تو غنی اور بے نیاز ہے جیسا کہ ارشاد ہے:

ان تکفروا فان اللہ غنی عنکم، ولا یرضٰی لعبادہ الکفر، وان تشکروا یرضہ لکم ،ولا تزر وازرۃ وزر اخرٰی،ثم الی ربکم مرجعکم فینبئکم بما کنتم تعملون انہ علیم بذات الصدور۔

اگر تم کفر کرتے ہو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے (تمھارا محتاج نہیں )،اور وہ اپنے بندوں کے لئے کفر کو پسند نہیں کرتا ،اور اگر تم شکر ادا کرو توتمھارے لئے اس کو پسند کرتا ہے ،کوئی بوجھ اٹھانے والا (گناہگار ) دوسر ے کا بوجھ (گناہ ) نہیں اٹھائے گا ،پھر تمھارے رب کی طرف ہی تمھارا لوٹنا ہے ، تو وہ تم کو بتلائے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو، وہ تو دلوں کا حال بھی جاننے والا ہے،(سورہ زمر ،۷ )،

اہل کتاب یہود و نصاری جنھوں نے اپنے دین میں تحریف کر ڈالی ، اور غلو کرتے ہوئے اللہ کے پیدا کئے ہوئے بندوں کواللہ کہنے لگے، اللہ کا بیٹا کہنے لگے ،خاص طور سے عیسی علیہ السلام کے بارے میں دونوں نے حد سے تجاوز کیا ، یہود نے ان کو اللہ کا رسول ماننے سے انکار کیا اور نصاری نے انھیں اللہ کا بیٹا کہا، بلکہ الوہیت کا مقام دیدیا چنانچہ دونوں کو تنبیہ کرتے ہو ئے فرمایا :

یٰأھل الکتاب لا تغلوا فی دینکم ولا تقولوا علی اللہ الا الحق،انما المسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ و کلمتہ ألقاھا الی مریم وروح منہ فآمنوا باللہ و رسلہ ،ولا تقولوا ثلٰثۃ، انتہوا خیرا لکم انما اللہ الہ واحد سبحٰنہ أن یکون لہ ولد، لہ ما فی السمٰوٰت وما فی الأرض وکفٰی باللہ وکیلا۔

اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو مت کرو،اور اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسوب مت کرو، مریم کے بیٹے عیسی مسیح اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ کے ایک رسول ہیں ،اور اللہ کاکلمہ (حکم) ہیں جو مریم کی طرف بھیجا گیا اور اللہ کی طرف سے ایک روح تھی (جس نے مریم کے رحم میں بچہ کی شکل اختیارکی) ،لہذا تم اللہ کے رسولوں پر ایمان لے آؤ، اور مت کہو کہ (معبود) تین ہیں ،باز آجاؤ ، یہ تمھارے لئے بہتر ہوگا ،بلاشبہ اللہ اکیلا معبود ہے ،وہ اس سے پاک ہے کہ اس کے لئے کوئی اولاد ہو، زمین و آسمان کی تمام چیزیں تو اس کی ملکیت ہیں ،اور خبر گیری و کارسازی کے لئے اللہ ہی کافی ہے، (سورہ نساء ،۱۷۱)،

اورپھر جب مشرکین اور بت پرستوں نے اللہ کے رسول ﷺ سے یہ مطالبہ کیا کہ آپ اپنے رب کا نسب بیان کیجئے ،اس کی وضاحت کیجئے کہ وہ سونے کا ہے یا تانبے یا پیتل کا ،تو اللہ تعالی نے سورہ اخلاص قل ھو اللہ أحد۰اللہ الصمد۰لم یلد و لم یولد۰ولم یکن لہ کفواً أحد نازل فرماکر واضح کردیا کہ اللہ تو اکیلاہے ،وہ ان سب چیزوں سے مستغنی اور بے نیاز ہے کہ وہ جسم والا ہو، یا ماں باپ اور اولاد والا ہو، یہ سب تو فنا ہوجانے والی اشیاء کی صفات ہیں ، اور اللہ تو باقی رہنے والا ہے ،اس کے مثل تو کوئی چیز ہی نہیں ہے۔

لیس کمثلہ شیٔ وھو السمیع البصیر} (سورہ شورٰی ،۱۱) 

توحید کا اہتمام انبیاء کی سیرت میں

یہ عقیدۂ توحید تمام ہی انبیاء کرام کی دعوت کا مرکزی عنوان بھی رہا ہے ، قرآن کریم نے جن انبیاء کی اپنی قوم کو دعوت کا ذکر کیا ہے ، ان سب کی پکا ر یہی رہی ہے :

یٰقوم اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ

اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو ،اس کے علاوہ تمھارا کوئی معبود نہیں ہے۔

اور انبیاء کرام کا یہ بھی شیوہ رہا ہے کہ انھوں نے دعوت توحید کے کسی بھی ہاتھ آئے موقع کو ضائع نہیں ہونے دیا، سیدنا یوسف علیہ السلام سے جیل کے اندر دو قیدیوں نے اپنے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی، آپنے دیکھا کہ ان کو مجھ سے عقیدت ہے، میرے اوپر ان کا اعتماد ہے ،اس وقت جو بات بھی کہی جائے گی یہ قبول کرلیں گے ،لہذا ان کو خواب کی تعبیر سے پہلے توحید کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا :

قال لا یاتیکما طعام ترزقانہ الا نبأ تکما بتاویلہ ،قبل أن یأتیکما ،ذٰلکما مما علمنی ربی ،انی ترکت ملۃ قوم لایؤمنون باللہ وھم بالآخرۃ ھم کافرون ۰واتبعت ملۃ آبائی ابراھیم و اسحٰق و یعقوب ، ما کان لنا أن نشرک باللہ من شیٔ ذٰلک من فضل اللہ علینا و علی الناس ولٰکن اکثر الناس لا یشکرون ۰یٰصٰحبَی السجن ئَ أرباب متفرقون خیر أم اللہ الواحد القھار۰ما تعبدون من دونہ الا أسماء سمیتموھا أنتم و آباؤکم ما أنزل اللہ بھا من سلطان،ان الحکم الا للہ ،أمر ألا تعبدو الا ایاہ،ذٰلک الدین القیم ولکن أکثر الناس لا یعلمون

انھوں نے کہا:یہاں جو کھانا تمھیں ملا کرتا ہے اس کے آنے سے پہلے میں تمھیں ان خوابوں کی تعبیر بتلا دوںگا، یہ علم ان علوم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے عطا کئے ہیں ،میں نے ان لوگوں کا طریقہ چھوڑ رکھا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور وہ آخرت کا انکار کرنے والے ہیں۔ اور میں نے اپنے آباء و اجداد، ابراہیم ،اسحاق اور یعقوب کا طریقہ اختیار کیا ہے، ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرائیں، یہ ہم پر اور تمام انسانوں پر اللہ کا فضل ہے (کہ اس نے اپنے سوا کسی اور کا بندہ ہم کو نہیں بنایا) مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ اے قید کے میرے دونوں ساتھیو! کیا الگ الگ بہت سے رب بہتر ہیں یا ایک اللہ جو سب پربھاری اور غالب ہے ؟اس کو چھوڑکر تم جن کی بھی عبادت کرتے ہو ، وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباؤاجداد نے رکھ لئے ہیں،اللہ نے ان کے لئے کوئی سند نہیں اتاری ،حکم تو صرف اللہ کا ہے ، اس نے حکم دیا ہے کہ تم نہ عبادت کرو مگر صرف اسی کی ،یہی سیدھا طریقۂ زندگی ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ،( سورہ یوسف ۳۷-۴۰)

حضرت یعقوب علیہ السلام کا واقعہ قرآن نے ذکر کیا ہے کہ جب ان کی موت کا وقت قریب آیا، جب کہ وہ اپنے اہل و عیال سے جدا ہونے والے ہیں، ایسے موقع پر جب کہ آدمی اپنے لوگوں کو انتہائی قیمتی اور عزیز چیزوں کی وصیت کرتا ہے ، انھوں نے اپنی اولاد کو کیاوصیت فرمائی اس کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے :

أم کنتم شھداء اذ حضر یعقوب الموت اذ قال لبنیہ ما تعبدون من بعدی ،قالوا نعبد الٰھک والٰہ آبائک ابراھیم و اسماعیل واسحٰق الٰھا واحداً ونحن لہ مسلمون }

کیا تم لوگ اس وقت موجود تھے جب یعقوب (علیہ السلام)کی موت کا وقت قریب آیا ، جبکہ انھوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا : میرے بعد تم کس کی عبادت کروگے ؟ ان سب نے جواب دیا : ہم اسی ایک معبود کی عبادت کریں گے جو آپ کا اور آپ کے آباء و اجداد ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا معبود ہے ، اور ہم اسی کی اطاعت کرنے والے ہیں ،(سورہ بقرہ ۱۳۳) ،

ابو الانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بھی قرآن نے نقل کیا ہے کہ انھوں نے اپنی اولاد کو دین اسلام پر قائم اور ثابت قدم رہنے کی ہی وصیت فرمائی:

ووصٰی بھا ابراھیم بنیہ ویعقوب ،یٰبنی ان اللہ اصطفٰی لکم الدین فلا تموتن الا وأنتم مسلمون۔

اور اسی کا حکم کیا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب (علیہ السلام ) نے بھی کہ اے ہمارے بیٹو!اللہ نے تمھارے لئے دین کو منتخب کردیا ہے ، لہذا تم لوگ مت مرنا مگر اسی حال میں کہ مسلمان رہو( سورہ بقرہ۱۳۲)

اور دین اسلام پرقائم رہنے سے مراد توحید پر قائم رہنا ہی ہے جیسا کہ قرآن کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ حضرت یعقوب علیہ السلام کا بھی ذکر کیا ہے ،اورحضرت یعقوب علیہ السلام کی وصیت کاذکر بصراحت اوپر گزر چکا ،اور دین اسلام کی بنیاد جن پانچ امورپر قائم ہے ان میں ایک توحید کا عقیدہ ہے جس کو اصل کی حیثیت حاصل ہے ،جس کے بغیر کوئی بھی اچھا عمل اللہ کے نزدیک قبول نہیں ہوگا،

اور انبیاء کرام کے نزدیک عقیدۂ توحید کے اہتمام کاعلم اس دعا سے بھی ہوتا ہے جو اسی جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بڑے نازک اور دردمند موقع پرجب کہ انھوں نے اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ،کمسنی میں ان کی والدہ حضرت ھاجر کے ساتھ مکہ مکرمہ کی بے آب و گیاہ وادی میں اللہ کے حکم سے چھوڑ کر جاتے ہوئے کیا تھا ،تعبیر اگرچہ بدلی ہوئی ہے ،مگر مضمون وہی ہے شرک سے دوری اورتوحید پر ثابت قدمی ،صورت حال کا تصور کیجئے، اور اس دعا کے الفاظ پر غور کیجئے،ایک بوڑھا ،سن رسیدہ باپ اپنے اکلوتے کمسن بچے کو بے آب وگیاہ میدان میںمحض اپنے رب کے اعتماد پر چھوڑ کر جاتے ہوئے اس کے لئے کیا دعا کر رہا ہے :

و اذ قال ابراھیم رب اجعل ھذاالبلد آمنا واجنبنی وبنی أن نعبد الأصنام ۰رب انھن أضللن کثیرا من الناس،فمن تبعنی فانہ منی ومن عصانی فانک غفور رحیم}

اور جب کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا :اے ہمارے رب اس شہر کو امن والا بنایئے، اور ہم کو اور ہمارے بیٹوں کو اس سے دور رکھئے کہ ہم بتوں کی عبادت کریں ،اے ہمارے رب !انھوں نے لوگوں میں سے اکثر کو گمراہ کردیا، لہذا جس نے میری اتباع کیا وہ میرے طریقہ پر ہے ،اور جس نے میرے خلاف کیا تو آپ درگزر کرنے والے رحم کرنے والے ہیں (سورہ ابراہیم ،۳۵،۳۶)،

توحید کا اہتمام نبی آخر الزماں ﷺ کی سیرت میں

اور دعوت توحید کا یہی اہتمام،سید الانبیاء حبیب رب العالمین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت میں بھی ملتا ہے ،مکہ مکرمیں جب آپ ﷺ نے توحید کا پیغام سنایا ،تو وہی قوم جس نے آپ ﷺ کے کردار سے متأثر ہوکر آپ کو صادق و امین کا خطاب دیا تھا، باہمی قتال سے قریب نزاع میں آپ ﷺ کے حَکَم اور فیصل ہونے پر خوش تھی ، وہی قوم چونکہ اس پیغام سے نا آشنا،خود تراشیدہ صدہا بتان باطلہ کی پرستش کی شیدائی تھی ،اس پیغام حق کے سنتے ہی آپ ﷺ کی دشمن ہوگئی ، اولاً تو آپ کو منانے اور یہ سودا کرنے کی کوشش کی کہ ہم سب ایک دوسرے کے معبود کی عبادت کرنے میں اشتراک کرلیں ،کچھ دن آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں ،اور کچھ دن ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں ، ظاہر ہے کہ پھر توحید ،توحید نہ رہ جاتی ،آپ ﷺ نے اس سے انکار کیا ، ایک اللہ کے کے سوا کسی اور کی عبادت سے براء ت کا اعلان کیاپھر ایک آسان صورت ان کے سامنے رکھی کہ تم لوگ اپنے مزعومہ معبودوں کی عبادت کرتے ہوکرو، اس کی سزا تم بھگتوگے ، ہم کو آزادی کے ساتھ ایک اللہ کی عبادت کرنے دو ، { لکم دینکم و لی دین}، پھراس توحید کی دعوت سے پھیرنے کے لئے آپ ﷺ کوعورت،دولت اور حکومت کا لالچ بھی دیا، مگر آپ ﷺ نے اسے بھی ٹھکراتے ہوئے دو ٹوک جواب دیا :

واللہ لو وضعوا الشمس فی یمینی والقمرفی یساری علی أن أترک ھذا الأمر حتی یظھرہ اللہ أو أھلک فیہ ما ترکتہ۔

اللہ کی قسم اگر یہ لوگ اس کے لئے کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں سورج کو میرے داہنے ہاتھ میں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ میں رکھ دیں ،تب بھی نہیں چھوڑوں گا یہاںتک کہ اللہ اس کو غالب کردے یا میں ہلاک ہو جاؤں (سیرت ابن ھشام،۱ ؍ ۲۶۶)،

جب اس قوم نے دیکھا کہ آپ کو اس توحید کی دعوت سے پھیرنے کے لئے ہماری مصالحت کی پیشکش اور لالچ دینے کی تدبیر کارگر نہیں ہو رہی ہے ،تو ان لوگوں نے آپ ﷺ کا اور آپ پر ایمان لانے والوں کا سماجی بائیکا ٹ کر دیا ،اورشعب ابی طالب میں محصور کردیا،تین سال تک جاری بائیکاٹ کی یہ زندگی ،آپ ﷺ اور مسلمانوں کے لئے بہت ہی مشقت کی زندگی تھی ، ببول کے پتے اور خشک چمڑے کھاکر زندگی بسر کرنی پڑی ،مگر آپ ﷺ نے توحید کی دعوت سے پیچھے ہٹنا گوارا نہ کیا ، حتی کہ اسی کی خاطر آپ ﷺ اور مسلمانوں کو اپنا محبوب وطن بھی ترک کرنا پڑا۔

عقیدۂ توحید کا تحفظ:

یہ اہتمام تھا آپ ﷺ کا عقیدۂ توحید کو عام کرنے اور پھیلانے میں ، اسی کے ساتھ ساتھ آپ ﷺنے بہت سے نازک مواقع پر توحید کواجاگر کر کے اور اللہ کی الوہیت کوواضح کرکے لوگوں کا عقیدہ خراب ہونے سے بچایا،اور توحید کا تحفظ کیا ،مثلاً :

(الف): غزوۂ تبوک ۹ ھ میں ایسے وقت میں پیش آیا کہ کھجوریں ابھی تیار نہیں ہوئی تھیں ،لوگوں کے ہاتھ خالی تھے اسی لئے اس کو غزوۃ العسرۃ (تنگدستی کا غزوہ) کہتے ہیں،سخت دھوپ کا موسم ،اور سفر طویل ،دوران سفر ایک نوبت یہ بھی آئی کہ لوگوں کا زاد سفر ختم ہونے کے قریب ہوگیا ،بعض صحابہ کا تو یہ حال تھا کہ تسلی کے لئے کھجور کی گٹھلی ہی منھ میں رکھ کر چوس لیتے اور پانی پی لیتے تھے ، لوگوںنے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کیا کہ کچھ اونٹ ذبح کرنے کی اجازت مرحمت فرمادیں ، تاکہ اس کے گوشت وغیرہ سے گزارہ کیا جائے ، آپ ﷺ نے ان کی پریشانی کے پیش نظر اجازت دیدی ، اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ مشورہ دیا کہ اے اللہ کے رسول !اس طرح تو سواریاں کم ہو جائیں گی ،اور سفر جاری رکھنے میں دقت ہوگی ، لوگوں کے پاس جو کچھ بھی باقی رہ گیا ہے آپ اسے ایک جگہ جمع کرکے دعا فرمادیں کہ اللہ اس میں برکت دے، چنانچہ آپ ﷺ نے ایساہی کیا ،جس کے پاس گیہوں ،جو ،کھجوراور گٹھلی میں سے جو بھی تھا ،لے آیا ، ایک جگہ اکٹھا ہوا ، آپ ﷺ نے اس پر دعا فرمائی اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس میں سے خوب سیر ہوکر کھا پی لیں ، اور پھر جس کے پاس جو برتن ہے اس کو اس سے بھر لے ، لوگوں نے ایساہی کیا ،پھر بھی جتنا جمع کیا گیا تھا بچا رہ گیا ، انتہائی نازک موقع تھا ، لوگوں کے ذہن میں یہ بات آسکتی تھی کہ آپ ﷺ کو تصرف کاپاور ہے، عقیدۂ توحید پر آنچ آسکتی تھی ، آپ ﷺ نے اس موقع پر لوگوں کو متنبہ کیا أشھد أن لا الٰہ الا اللہ و أنی رسول اللہ میں گواہی دیتا ہوں کہ معبود، سوائے اللہ کے کوئی نہیں ہے ،اور میں اللہ کا رسول ہوں ،(صحیح مسلم،کتاب الایمان ، ح ۴۴،۴۵)، یعنی یہ سب میں نے اللہ کے حکم سے ہی کیا ہے ،اور اس میں برکت دینے والا اللہ ہی ہے ، اور میری حیثیت صرف اس کے پیغامبر کی ہے،

(ب): ایسا ہی ایک واقعہ اس وقت پیش آیا،جب غزوۂ حنین کے موقع پر آپ ﷺ نے ایک شخص کے متعلق جس کولوگ مسلمان سمجھتے تھے ،یہ ارشاد فرمایا :{ ھذا من أھل النار} ،یہ جہنم والوںسے ہے، پھر جب جنگ شروع ہوئی،اس شخص نے بڑی جانبازی دکھائی اور بہت بہادری سے لڑا، اوروہ زخمی بھی ہوا، صحابۂ کرام نے آپ ﷺ سے عرض کیا ، وہ آدمی جس کے بارے میں آپنے فرمایا تھا کہ جہنمیوں میں سے ہے، اس نے تو آج زبردست قتال کیا ،اور فوت بھی ہو گیا ، آپ نے فرمایا {الی النار } جہنم میں جائے گا ،آپ ﷺ کے اس جواب سے قریب تھا کہ کچھ لوگ شک اور تردد میں مبتلا ہوجاتے {فکاد بعض المسلمین أن یرتاب }، اسی دوران یہ خبر ملی کہ وہ شخص ابھی مرا نہیں ہے ،لیکن اسے زخم گہرا لگا ہے ، پھر جب رات ہوئی تو وہ آدمی اپنے زخموں پر صبر نہ کر سکا ، اور اس نے خود کشی کر لی ، رسول اللہ ﷺ کو اس کی خبر کی گئی ، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا

اللہ أکبر،أشھد أنی عبداللہ ورسولہ،ثم أمر بلالا فنادی فی الناس ’’انہ لا ید خل الجنۃ الا نفس مسلمۃ وان اللہ یؤیّد ھذا الدین بالرجل الفاجر

،اللہ اکبر، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ،پھر آپ ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انھوں نے لوگوں میں اعلان فرمایا کہ: جنت میں نہیں داخل ہوگا مگر وہی شخص جو پورے طور پر اطاعت کرنے والا ہو، اور اللہ تعالی فاجر آدمی سے بھی اس دین کی مدد کرا لیتے ہیں ،(صحیح مسلم،کتاب الایمان ،ح ۱۷۸) ،اس کے بعد والی روایت میں یہ تفصیل بھی ہے کہ جب اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا یہ قول کچھ لوگوں کو گراں گزرا ، تو ایک صحابی اس کے پیچھے لگے ، اور انھوں نے دیکھا کہ اس آدمی نے اپنی تلوار سے اپنے آپ کو ہلاک کر لیا ،

یہ بھی ایک نازک موقع تھا کہ لوگوں کا عقیدہ خراب ہوتا ، آپ کے بارے میں عالم الغیب ہونے کا عقیدہ پھیل جاتا، یا آپ ﷺ کے بعد عیسائیوں کی طرح ،آپ کے متعلق اللہ اور معبود ہونے کا عقیدہ رواج پاتا ، آپ ﷺ نے اسی وقت اس کا سد باب فرمایا، اور توحید کی حفاظت کرتے ہوئے فرمایا: میں تو اللہ کا ایک بندہ ہوں ،اور اس کا رسول اور پیغامبر ہوں ،جو کچھ تم سے کہتا یا بتلاتا ہوں اس کاپیغام ہی پہونچاتا ہوں ،اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا ،

(ج):  آپ ﷺ کے لخت جگر حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ،اور اسی موقع سے سورج میں گرہن لگا، پہلے سے ہی لوگوں میں یہ بات معروف تھی کہ سورج یا چاند میں گہن کسی عظیم شخص کی وفات سے ہی لگتا ہے ، چنانچہ لوگوں نے کہا کہ یہ گہن ابراہیم کی موت سے لگا ہے

کسفت الشمس علی عہد رسول اللہ ﷺ یوم مات ابراھیم ،فقال الناس :کسفت الشمس لموت ابراھیم ،فقال رسول اللہ ﷺ :’’ان الشمس والقمر لا ینکسفان لموت أحد ولا لحیاتہ ،فاذا رأیتم فصلوا و ادعوا اللہ}،(صحیح بخاری ،کتاب الکسوف )

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

سورج اور چاند میں گرہن کسی کی موت و حیات سے نہیں لگتا،لہذا جب تم لوگ ان میں گہن دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ سے دعا کرو ،دوسری روایات میں یہ اضافہ بھی ہے کہ یہ اللہ کی آیات اور نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ،جن کے ذریعہ اللہ تمھیں ڈراتے ہیں ،

یہ بھی ایک موقع تھا اوربہت ہی نازک موقع تھا ،ایک طرف تو اس کی وجہ سے آپ ﷺ کیساتھ لوگوں کی عقیدت میں مزید اضافہ ہورہا تھا کہ آپ کے لڑکے کی عظمت،اور اس کی وجہ سے آپ ﷺ کی عظمت اور مقبولیت،لوگوں کی نگاہ میں زیادہ ہورہی تھی ،اس میں فائدہ یہ تھا کہ لوگوں سے کسی بھی بات کا منوانا آپ ﷺ کیلئے اور زیادہ آسان ہوتا ، دوسری طرف زمانۂ جاہلیت کے ایک غلط اور باطل عقیدہ کی ترویج تھی،جو عقیدۂ توحید کے خلاف تھا ،اسلام سے پہلے یہ عقیدہ عام تھا کہ زمین کے احوال میں تبدیلی ستاروں کی گردش کے اثرسے ہوتی ہے،آپ ﷺ نے اپنی مقبولیت اور اسکے مفید نتائج کے لئے غلط راہ اختیار کرنے کے بجائے ، لوگوں کی اصلاح اور عقیدۂ توحید کے تحفظ کو ترجیح دی ، اور لوگوں کو یہ باور کرایا کہ یہ چاند اور سورج بھی اللہ کی مخلوق ہیں ،حالات کی تبدیلی اور حوادثات کے وقوع میں ان کا کوئی دخل نہیں ہوتا،سورج یا چاند میں گرہن یا کوئی بھی تبدیلی اور حادثہ اللہ تعالی کی قدرت اور اس کے تصرف سے ہوتا ہے ، لہذا ایسے مواقع پر اللہ کی طرف رجوع کرو ، نماز پڑھو ، اللہ سے دعا کرو، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے:

’’وفی ھذا الحدیث ابطال ما کان أھل الجاھلیۃ یعتقدونہ من تأثیر الکواکب فی الأرض ‘‘ ،

اہل جاہلیت جو یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ زمین (کے احوال کی تبدیلی ) میں ستاروں (کی گردش )کا اثر ہوتاہے ، اس حدیث میں اس کو باطل کیا گیا ہے، (فتح الباری،۲ ؍۵۲۸) ،

ستاروں کی تاثیر کا ابطال اور اس کی اصلاح آپ ﷺ نے ایک اور موقع پر فرمائی ، مقام حدیبیہ میں ایک رات بارش ہوئی ، آپ ﷺ نے فجر کی نماز کے بعد لوگوں سے کہا : جسنے یہ کہا کہ اللہ کی رحمت اور اس کے فضل سے بارش ہوئی ہے وہ ایمان والاہے ، اور جس نے یہ کہا کہ فلاں ستارہ کے ڈوبنے یا طلوع ہونے سے یہ بارش ہوئی ہے (جیسا کہ کفار کہتے ہیں )تو اس نے کافروں جیسی بات کہی ،اللہ کی نا شکری کیا(صحیح بخاری ، صحیح مسلم)

توحید کا عقیدہ ،فطری عقیدہ ہے، ہر انسان اپنے محسن کے آگے سرنگوں ہوتا ہے، اور معاشرہ میں اسے معیوب سمجھا جاتا ہے کہ کوئی ممنون اپنے محسن کے احسان کو بھول جا ئے،اس کی نا شکری کرے ،اور غیر کو تسلیم کرے ،زمین ،اللہ نے بنائی ، اس کے باطن کومعدنیات سے مالا مال اور ظاہر کو کھیتیوںاور باغات سے سبزہ زار اس نے کیا ،غلے اور پھل اس نے نکالے ، سمندر اور دریا اس نے بہائے ،پینے کے لئے میٹھا پانی اس نے دیا ،آسمان اس نے بنایا، رات کی تاریکی میں اس کو چاند اور ستاروں سے دیدہ زیب اس نے کیا ،روشنی کے لئے سورج اس نے بنایا ، معاش کے لئے دن اور آرام کے لئے رات اس نے بنائی،سب اس نے بنایا ،سب اس نے دیا ، حتی کہ ہم کووجود بھی اسی نے بخشا،اس میں کوئی اس کا شریک نہیں رہا ، اب اسے احسان فراموشی، ناشکری ، ظلم اور کفران نعمت نہ کہیںتو کیا کہیں گے کہ اس کو چھوڑ کر دوسرے کو اپنا کارساز اور معبود مانیں ،اس سے منھ موڑ کر دوسرے کے سامنے اپنا سر جھکائیں ،اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مانیں، اس لئے توحید کی دعوت ، حق اور انصاف کی دعوت ہے ، سادگی اور سچائی کی دعوت ہے ،اس کا حق ہے کہ اس کوزیادہ سے زیادہ عام کیا جائے اور دوسروں تک پہونچایا جائے تقریر و تحریر کے ذریعہ ،عام گفتگو کے ذریعہ ، ایس ایم ایس،واٹسیپ،فیس بک اور ہر وسیلۂ رابطہ و اعلام کے ذریعہ کیونکہ یہی انسانیت ہے اوراسی میں انسان کی برتری ہے،ایڈورڈینی سن راس کا تجزیہ بالکل بر حق ہے کہ :
’’صدیوں سے اہل یورپ کو اسلام کے بارے میں جو معلومات حاصل ہورہی ہیں، وہ تقریباًتمام تر متعصب عیسائیوں کے ان بیانات پر مبنی ہیں جنھوں نے شدید غلط فہمیاں پیدا کی ہیں ،اسلام میں جو خوبیاں تھیں انہیں بالکل نظر انداز کر دیا گیا، اور جو چیزیں اہل یورپ کی نگاہ میں اچھی نہ تھیں انہیں بڑھا چڑھا کر اور غلط تشریحات کے ساتھ پیش کیا گیا،

تاہم یہ حقیقت کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیئے کہ محمد (ﷺ ) کا وہ بنیادی عقیدہ جس کی انہوں نے تبلیغ کی ،خواہ وہ تبلیغ ، عرب کے معاصر باشندوں کو کی ہو جو ستارہ پرست تھے ،خواہ ایرانیوں کو کی ہو جو یزداں اور اہرمن پر ایمان رکھتے تھے ،خواہ اہل ہند کو کی ہو جو بت پرست تھے ،اور خواہ ترکوں کو کی ہو جو عبادت کا کوئی مخصوص طریقہ نہیں رکھتے تھے ،یہ تبلیغ بہر حال توحید خداوندی کی تبلیغ تھی ،اور ہمیں یہ بھی نہ بھولنا چاہیئے کہ غازیوں کی تلوار سے کہیں زیادہ اس عقیدہ کی سادگی نے اشاعت اسلام میں اہم کردار ادا کیا۔‘‘ (تراشے ص ۱۲۶ ،از مفتی تقی عثمانی)

اور اللہ رب العالمین نے بہت پہلے ہی قرآن کریم میں یہ ارشاد فرمادیاہے کہ :{وأنتم الأعلون ان کنتم مؤمنین }، اور سر بلند تمھیں رہوگے اگر تم ایمان والے رہے۔لہذا سطوت و عزت کے مالک اللہ تعالی کے اس فرمان پر ہم مسلمان عصر حاضر میں اپنی حیثیت و حالات کا جائزہ لیں ،اورکھوئی ہوئی عزت اور سر بلندی کو حاصل کرنے کے لئے پھر اسی مضبوط اور یقینی وسیلہ کی طرف رجوع کریں ،جس کا سہارا لے کر اسلاف نے سربلندی حاصل کی تھی ، اور ساری دنیا پر غلبہ پایا تھا،

خورشید احمد اعظمی مدنی
استاذ جامعہ عربیہ تعلیم الدین مئو
Email : kahmadmadni@gmail.com

اشتراک کریں