تعارف
ابو محمد شرف الدین مصلح ابن عبداللہ ابن مشرف عرف سعدی ساتویں صدی ہجری کے عظیم شاعر اور ادیب تھے۔ سعدی شیراز میں پیدا ہوئے۔ سعدی نے 12 سال کی عمر میں اپنے والد کو کھودیا تھا، اس عظیم شاعر کی تاریخ ولادت و وفات کے بارے میں کافی اختلافات ہیں۔ ولادت بہر حال ساتویں صدی ہجری / تیرھویں صدی عیسوی کے ابتدائی سالوں میں ہوئی اور وفات 690 تا 695ھ، 1991 تا 1957ء کے کسی سال میں۔ پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر حکمت نے 27 رمضان المبارک 1995ھ کے بارے میں قوی تر دلائل دیتے ہیں۔ ان کی قبر شیراز میں سعدیہ کے نام سے مشہور ہے۔
پروفیسر سید محمد محیط طباطبائی نے ماہنامہ وحید تہران میں مطبوعہ ایک مقالے کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ آپ حضرت سعد بن عبادہ کی اولاد میں سے تھے، اس لئے شیراز اور دمشق کے کئی دیگر افراد کی مانند سعدی کہلاتے تھے اور اسی نسبت کو اپنا تخلص بنالیا مگر عام طور پر سعدی کا تخلص حاکم شیراز اتائب سلفری ابوبکر بن سعد بن زنگی سے منسوب بتا یا جاتا رہا ہے ۔ شاہزادہ سعد کے نام سعدی کی بوستان اور گلستان ممنون ہیں۔
تعلیم
سعدی نے بغداد کے نظامیہ اسکول میں تعلیم حاصل کی، جو اس وقت اسلامی دنیا میں سائنس اور علم کا سب سے اہم مرکز سمجھا جاتا تھا۔ اس نے ادب، تفسیر، فقہ، علم دین اور حکمت کی تعلیم حاصل کی اور کچھ عرصے بعد شام، مراکش، حبشہ اور حجاز کا ایک مبلغ کے طور پر سفر کیا۔ پھر وہ شیراز واپس آئے اور ساری زندگی اسی شہر میں رہے۔
سعدی شیرازی کے ادبی کارنامے
655ھ میں سعدی نے ”سعدی نامہ” یا ”بوستان” کے لکھنے کا اہتمام کیا اور اس کے ایک سال بعد 656 ہجری میں اپنی دوسری کتاب ”گلستان” لکھی۔ ”بوستان” اور ”گلستان” جیسی کتابوں کے درمیان ایک سال کا مختصر سا فاصلہ اس عظیم شاعر کی مہارت، ثقافت اور ادب کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ دونوں مستقل کتاب کی صورت میں طبع ہیں۔ بوستان مکمل منظوم صورت میں ہے جبکہ گلستان میں نظم اور نثر دونوں ہیں، ان کے علاوہ انھوں نے بہت سی نظمیں، غزلیات، قطعات، رباعیات، قصائد اور مضامین لکھے، سعدی کی تمام تخلیقات، جن میں شاعری اور نثر شامل ہیں سب کو ایک کتاب میں جمع کیا گیا ہے جسے Saadi Generalities کہا جاتا ہے۔
سعدی کی تخلیقات بہت روانی اور سادگی سے لکھی گئی ہیں اور ان کی تخلیقات میں گرامر کے نکات کو سب سے زیادہ درست طریقے سے دیکھا گیا ہے۔ ذیل میں سعدی کے تمام کاموں کا قدرے تفصیلی تعارف پیش ہے:
بوستان یا سعدی نامہ
”بوستان” سعدی کا پہلی تصنیف ہے، یہ کتاب جسے فارسی ادب کے شاہکاروں میں شمار کیا جاتا ہے، پرانے نسخوں میں اسے "سعدی نامہ” کہا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں یہ ”بوستاں” میں تبدیل ہو گیا۔ سعدی نے "بوستاں” کو اپنے سفر کے دوران لکھا اور وطن واپس آنے کے بعد اسے اپنے دوستوں کے سامنے پیش کیا۔ بوستاں مکمل شاعری میں لکھی گئی ہے اور اس میں تقریباً 4000 اشعار شامل ہیں۔ بوستان اخلاقیات، تعلیم، سیاست اور معاشرت پر مبنی کتاب ہے اور اس کی شاعرانہ شکل مثنوی ہے۔
بوستان تقریباً ایک طویل تمہید سے شروع ہوتی ہے اور اس میں دس ابواب شامل ہیں جن میں انصاف، مہربانی، محبت، عاجزی، اطمینان، یاد، تربیت، شکر، توبہ اور دعائیں اور کتاب کا اختتام ہے۔ یہ جاننا دلچسپ ہے کہ سعدی نے اپنی یہ کتاب ابوبکر بن سعد زنگی کو وقف کیا تھا۔
گلستان
گلستان کو فارسی ادب کی ایک بلند پایہ کتاب تسلیم کی گئی ہے، اسے سب سے زیادہ اثر انگیز نثری کتابوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ سعدی نے یہ کتاب بوستان کے لکھے جانے کے ایک سال بعد 656ھ میں لکھی۔ گلستان کو نظم کے ساتھ مؤثر نثر میں لکھا گیا ہے اور اس میں آٹھ ابواب ہیں جن کو بادشاہوں کا کردار، درویشوں کے اخلاق، قناعت کی خوبی، خاموشی کے فائدے، محبت اور جوانی، کمزوری اور بڑھاپا، تعلیم اور تقریر کے آداب کا اثر۔
ان آٹھوں ابواب میں سعدی نے اپنے تجربات و مشاہدات پرمشتمل حکایتیں نقل کی ہیں جوکمل طور پر پند وموعظت پر مشتمل ہیں اور کچھ واقعات ایسے ہیں جو انہوں نے دورانِ سفر لوگوں کے منہ زبانی سن رکھے تھے۔ اس کتاب کی جادو بیانی اور فصاحت و بلاغت کا شہرہ شیخ سعدی کی زندگی میں ہی تمام جگہوں بشمول ایران ، ترکستان ، ہندوستان وغیرہ میں اس قدر پھیل گیا تھا کہ شیخ سعدی جہاں بھی جاتے وہاں انھیں "گلستان سعدی” کے حوالے سے جاننے والے پہلے ہی سے موجود ہوتے تھے۔
اس کتاب میں سعدی نے تاریخ اور سوانح سے اجتناب کیا ہے اور افراد کی زندگی اور کردار سے متعلق گفتگو پر خصوصی توجہ دی ہے۔ گلستان میں اس وقت کے لوگوں کی تہذیبی اور سماجی صورت حال کو ہر ممکن حد تک خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے، گلستان میں بہت سی مختصر اور طویل کہانیاں لکھی گئی ہیں کہ جو ایک سے بڑھ کر ایک ہیں جنہیں پڑھ کر آپ کے سامنے ایک نیا تجربہ پیدا ہوگا۔
گلستان سلیس اور سادہ زبان میں لکھی گئی ہے اور اس میں پیچیدہ اور مشکل الفاظ کا استعمال نہیں ہے۔ یہ بات باعث دلچسپی ہو گی کہ گلستان فارسی کی پہلی کتاب ہے جو پرنٹنگ پریس کے ذریعے شائع ہوئی تھی۔ گلستان سعد ابن ابوبکر بن سعدی زنگی کے لیے سعدی کا وقف ہے۔
سعدی کی دوسری تصانیف جو نثر میں لکھی گئی ہیں ان میں پانچ ملاقاتیں، استدلال اور محبت پر مقالہ اور بادشاہوں کے مشورے شامل ہیں۔
نصیحۃ الملوک
سعدی کے اس فن پارے کا مواد مشورے اور اخلاقیات اور مختلف موضوعات پر کئی نثری مقالوں پر مشتمل ہے۔
مجالس پنجگانہ
سعدی کی یہ نثری کتاب ہے جو ان کے خطبات اور تقاریر پر مشتمل ہیں۔ تمام تحریروں کا مواد مشورے اور رہنمائی سے متعلق ہے۔ لیکن تحریر کے لحاظ سے اس کی سطح گلستان سے بہت کم ہے۔
فارسی اشعار
سعدی کی فارسی نظمیں خدا کی حمد،، نصیحت و ارشاد پر مشتمل ہیں، نیز ان کے دور کے بزرگوں اور بادشاہوں کی نصیحتیں بیان کی گئی ہیں جو کہ بہت قیمتی ہیں۔
ھزلیات
سعدی کے آثار میں یہ تین رسالے ہیں جو مطایبات، مضحکات و خبیثات کے نام سے موسوم ہیں، جنہیں ھزلیات کہتے ہیں۔ ”مطایبات” میں لطیفوں اور جنسی کہانیوں کا مجموعہ شامل ہے جو اپنی تحریر میں بے باک الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ”مضحکات” اور ”خبیثات” بھی نثر کی زبان میں لکھی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سعدی نے لطیفے اپنے وقت کے اعلیٰ ترین حکام کے حکم پر تحریر کیے تھے۔
مراثی
مراثی میں مستعصم باللہ کی تعریف میں کئی طویل نظمیں شامل ہیں، جو آخری عباسی خلیفہ تھا جسے ہلاکو نے قتل کیا تھا۔ اتابکان فارس اور اس وقت کے وزراء کی شان میں بھی کئی مراثی شامل ہیں۔
غزلیات
غزل سعدی کی شاعری کا اصل میدان ہے ، سعدی نے اپنی کوششون سے غزل کو ایک نئی جہت دی اور اسے عروج تک پہونچایا، ان سے پہلے غزل کو صرف روایتی حیثیت حاصل تھی ، فاری غزل میں مضامین عشق و محبت کے بجاۓ محبوب کی ذات کو زیادہ اہمیت حاصل تھی اور اعضائے بدن کے اوصاف بیان کرنا ایک عام سی بات تھی۔ سعدی نے اسے معشوق کی مداحی کے بجاۓ عشق کے جذبات کا آئینہ دار بنایا، غزل کو نیا رنگ و آہنگ دیا، نئے مضامین اور اچھوتے خیالات کو اپنی شاعری میں جگہ دی۔ انہوں نے ان خشک موضوعات کوبھی اپنی غزلوں میں ایک خاص سلیقے سے سمونے کی کوشش کی جنہیں عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ان کی غزلیں خلوص ، نیازمندی، سرشاری اور خود سپردگی کے جذبات سے بھر پور ہیں ، ان کا کلیدی محور عشق ہے، جو اپنی راہ کے تمام تر نشیب وفراز اور ناز وادا کے ساتھ موجود ہے۔ سعدی کا نظریۂ عشق محدود نہیں ہے بلکہ وہ عشق مجازی سے لے کر عشق حقیقی تک کے موضوعات کو اپنی غزلوں میں سموئے ہوئے کے ہیں۔
سعدی کی غزلیات ایک کا مجموعہ ہے جو تقریباً 700 غزلیات پر مشتمل ہے جن میں سنائی اور انوری زبان اور لہجے کا اثر نظر آتا ہے۔ سعدی کی زیادہ تر غزلیں عشق و محبت پر مبنی ہیں ان کی رومانوی غزلیات میں آخر تک رومانوی رنگ غالب رہتا ہے۔ دوسرے شعراء میں یہ خصوصیت کم ہی نظر آتی ہے۔ رومانوی غزلیات کے علاوہ سعدی نے بہت سی صوفیانہ اور نصیحت آمیز نظمیں بھی لکھی ہیں جو بہت خوبصورت اور فکر انگیز ہیں۔
عام طور پر سعدی کی غزلیات کو چار کتابوں میں جمع کیا گیا ہے جنہیں طیبات، بدائع، خواتیم اور غزلیات قدیم کہا جاتا ہے۔ ”غزلیات قدیم” میں وہ غزلیات ہیں جنہیں سعدی نے اپنی جوانی میں لکھیں وہ جوش و خروش و شورو شغف سے لبریز ہیں۔ ان کی درمیانی عمر ”بدائع” و ”طیبات”ق کی تصنیف میں گزری اور خواتیم کا تعلق اس عظیم شاعر کے بڑھاپے کے دور کی غزلیات سے ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ”طیبات” اور ”بدائع” فنی اعتبار سے دیگر دو کتابوں سے افضل ہیں۔
قصائد
سعدی کے قصائد اس عہد تک لکھے گئے فارسی قصائد پر ایک اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں سعدی سے پہلے جو قصائد ملتے ہیں ان میں بے جا تکلف اور تصنع ہے۔ لیکن سعدی نے قصائد میں بھی صرف انہیں چیزوں کو راہ دی ہے جو حقیقت میں ممدوح میں موجود ہوتے ہیں، انہوں نے بیجا تکلفات سے اپنا دامن محفوظ رکھا ہے۔
رباعیات
سعدی کی رباعیات بھی اپنی معنویت اور اثر پذیری کے لحاظ سے بے مثال ہیں، یہ ر باعیات انسانی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتی ہیں۔ سعدی نے ان میں اپنی زندگی کے تجربات پیش کئے ہیں ، واعظ و ناصح کا پردہ چاک کیا ہے، خدا پرستی اور انسان ترسی کے جذبات کو ابھارنے کی سعی کی ہے، صلح وآشتی کے ساتھ زندگی گذارنے اور اس دنیا کو جنت نما بنانے کی صورتوں کی نشاندہی کی ہے، یہ رباعیات اپنی سادگی، بے ساختہ پن، زبان کی مٹھاس اور نکھرے و سلجھے ہوئے انداز بیان کی وجہ سے فارسی ادبیات کا اہم ترین سرمایہ ہیں۔
اس طرح سعدی نے فارسی شاعری کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے اور فکر وفن دونوں ہی اعتبار سے وسعت اور توانائی بخشی، اسے تکلف وتصنع اور روایت پسندی کے حصار سے باہر نکالا اور اسے سادگی ، جذبے کے خلوص اور زندگی سے بھر پورا ایک رنگ و آہنگ سے ہم کنار کیا، یہی وجہ ہے کہ سعدی کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اعتراف قدیم و جدید تمام ہی ناقدین نے کیا ہے اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
سعدی بلاشبہ فارسی زبان کے پہلے پانچ شاعروں میں سے ایک اور ایران کے عظیم ترین شاعروں میں سے ایک ہیں، جن کی نظم و نثر میں فصاحت و بلاغت کا حسن عالمی شہرت یافتہ ہے اور سب کی توجہ کا مرکز ہے۔ اخلاقیات اور تصوف کے بارے میں سعدی کی غزلیہ شاعری بہت خوبصورت اور پرکشش ہے اور اس قدر خوبصورت غزل آج تک کوئی نہیں لکھ سکا۔ سعدی کی عشقیہ نظمیں بہت مشہور ہیں اور ان کی تمام تخلیقات بڑی روانی اور سادہ زبان میں لکھی گئی ہیں۔ پوری تاریخ میں، بہت سے شاعر اور ادیب ہیں جنہوں نے بہت سارے آثار چھوڑے ہیں۔ لیکن اس دوران سعدی کی تخلیقات کا خاص اثر ہے اور وہ پوری دنیا میں بہت مقبول ہیں۔ اس عظیم شاعر کی کتابوں کا یورپی زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ یورپ فارسی ادب کو سعدی کی نظموں سے جانتا تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ”گلستان سعدی” کی کتاب کا جن زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے ان میں سے ایک فرانسیسی زبان ہے۔