أنزلوا الناس منازلهم
قد حقیقی ہو یا علمی استعارے میں، اس کی پیمائش کا آلہ ماضی بعید کے علمی دور میں تقریباً مفقود تھا یا کم از کم تنقیص و تذلیل سے ماورا ضرور تھا، ماضی قریب کے روشن ادوار اور زمانہ حال کے علمی، تحقیقی نشتر سے پر اسرار بندوں کے اسرار داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔
معاصرین کی حد تک تنقید برائے اصلاح کی کچھ گنجائش نکل جاتی ہے؛ کیونکہ معاصرانہ چشمک ایک مسلم حقیقت ہے؛ لیکن تنقید برائے تنقید تذلیل کا راستہ، اور تقبیح کی کوشش کے سوا کچھ نہیں،جس کے مسدود راستے کو کھولنے کی مذموم کوشش ہمیشہ رہی ہے۔
علمی شخصیات کے علم کو دوسرے سے موازنہ کرنا اور اپنی پسندیدہ شخصیت کو اعلی و ارفع دکھلانے کی آفت غیر محسوس طریقے سے ترقی پذیر ہے۔ مسلکی عصبیت کی خول اڑھے ہوئے غیر علمی حلقے سے اس کی پذیرائی بھی کم نہیں، علمی قد کی پیمائش کے غیر علمی ہونے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اگر یہ معلوم ہو جائے کہ فلاں کی علمی شان دوسرے سے کم یا زیادہ ہے تو اس سے فائدہ کیا ہے؟ کبھی کبھی قد کو بلند کرنے کے لئے وضع حدیث کا سہارا بھی لیا گیا گویا اگر اس مذموم فعل کو نہ کیا جاتا تو امام کا رتبہ یا مرتبہ کم ہوجاتا اس پر طرہ یہ کہ تاویلات کا سہارا لیا جائے۔
علمی اور تحقیقی کام یہ ہے کہ ماہرین علوم و فنون نے جو علم کے موتی بکھیرے ہیں اس کو سمیٹنے کی کوشش کی جائے، اور مثبت سوچ کی راہ ہموار کی جائے، لیکن معاملہ برعکس ہے، پہلے راز سر بستہ کو کھول کر "قدس سرہ” کا لاحقہ لگا دیا جاتا ہے، أذکروا محاسن موتاکم کے نبوی فارمولہ کو غلط انداز نظروں سے نظر انداز کر دینا مومن کی فراست نہیں ہو سکتی ،اعتدال ہی بہترین راستہ ہے، اور معتدل المزاج شخص ہی پسندیدہ اور ممدوح ہوتا ہے۔ کسی سے دوستی اور دشمنی، کسی سے عقیدت و محبت، کسی سے بغض و عداوت میں بھی اعتدال کے پہلو کو نظر انداز کرنا قرآنی اور نبوی تعلیمات کے خلاف ہے، ہمیں سوچنا ہوگا کہ وہ کون سے محرکات ہیں جو نرم دلوں و دماغ کو عصبیت کی راہ اختیار کرنے اور زہر آلود زبان و قلم کے استعمال کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟ ایسی زبان جو دلوں کو چیر دے، ایسا قلم جس سے ناموس و عزت اثرانداز ہو، اور ایسی آزادی اظہارِ رائے جو جذبات کو مجروح کردے، وہ بھی ان افراد کی طرف سے جن کا امتیاز نرم گفتار، جن کا کردار ان کی شناخت کا ذریعہ ہو تو تکلیف ما لا یطاق نہیں بلکہ تکلیف بالائے تکلیف ہو جاتی ہے۔