علما ،فلم سازی، آپ اور ہم

(کبھی کبھی لکھنے کی شدید خواہش جاگ اٹھتی ہے، مگر جون ایلیا کی بات یاد آ جاتی ہے کہ "جن کو پڑھنا چاہیے وہ لکھ رہے ہیں” اپنے کو اسی زمرے میں شمار کر کے "نیت باندھتا ہوں، توڑ دیتا ہوں”  جب  شروع  کر ہی دیا  ہی دیا ہے تو عرض کرتا چلوں کہ)

سارا کام اہل مدارس ہی کیوں کریں؟ سنیما یا  ڈاکومنٹری  بنانا  ان ہی کی ذمہ داری کیوں؟ یونیورسٹی کے احباب جنہوں نے "ماس کمینیوکیشن” میں بڑی بڑی ڈگریاں لے رکھی ہیں وہ کیا کریں گے؟ مدارس کے نصاب تعلیم سے لے کر سنیما سازی تک، ہر میدان میں مسلمانوں کی پسماندگی کے یہی خود ساختہ دین کے ٹھیکیدار ہی  ذمہ دار کیوں؟ اب تو بات نصاب تعلیم، طریقہ تعلیم سے بہت آگے بڑھتی جا رہی  ہے جہاں تک نصاب تعلیم اور طریقہ تعلیم کی تجدید و اصلاح اور ترمیم کی بات ہے تو اس کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا،اور اس سلسلے میں مفکرین کی آرا کا لحاظ کرنا چاہئے؛ لیکن اصلاح کا مکھوٹا لگا کر فکری انحراف  کا راستہ اپنانا بھی دیانت کے خلاف ہے۔ ماضی قریب کے مفکرین علما کے مدارس کے نصاب و طریقہ تعلیم پر کئے گئے تبصرے تو نوک قلم رہتے ہیں، لیکن حیرت ہے کہ ان ہی ارباب وفا کے اپنوں سے کئے گئے گلے، شکوے یکسر نظر انداز کر دئیے جاتے ہیں ، آخر ایسا کیوں ہے؟ تنقید کے دوسرے پہلو سے صرف نظر کرنا   انٹلیکچول طبقے کا وتیرہ بن کر رہ گیا ہے، عصری  علوم کی درسگاہیں جو اس میدان میں مکمل دسترس رکھتی ہیں، اور جن کا بنیادی مقصد بھی اس ضرورت کو پورا کرنا تھا  جو مدارس نہیں کر سکتے؛ مگر اپنی کوتاہیوں کا ٹھیکرا بھی مدارس پر پھوڑا  دیا  جاتا  ہے۔ کیا قوم کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ جس طرح انٹلیکچول طبقہ ارباب مدارس کا محاسبہ کرتا ہے، اسی طرح ان کا احتساب کیا جائے؟ ماضی قریب کے مؤقر مفکرین کی آرا کے تناظر میں اس احتساب کو دیکھنا زیادہ مناسب رہے گا۔

شبلی نعمانی نے کہا تھا:

"انگریزی خوان قوم نہایت مہمل فرقہ ہے، مذہب کو جانے دو، خیالات کی وسعت، سچی آزادی، بلند ہمتی، ترقی کا جوش برائے نام نہیں؛ یہاں ان چیزوں کا ذکر نہیں آتا، بس خالی کوٹ پتلونوں کی نمائش گاہ ہے۔” (موج کوثر)

انگریزی خواں قوم سے مراد صرف انگریزی زبان و ادب مراد نہیں ہے بلکہ وہ مکمل نصاب تعلیم ہے جو عصری علوم و فنون کی تربیت گاہ ہے۔ شبلی کی یہ بات موجودہ دور میں ٹھوڑے اضافے کی متقاضی ہے کہ” اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈال کر سادہ لوح  اہل مدارس پر تنقید ان کا طرہ  امتیاز ہے۔”

حالی کو بھی سنتے چلیں، سرسید کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"چھبیس برس بعد تجربے سے ان کو اس قدر ضرور معلوم ہو گیا ہوگا کہ انگریزی زبان میں بھی ایسی تعلیم ہو سکتی ہے جو دیسی زبان کی تعلیم سے بھی زیادہ نکمی، فضول اور اصلی لیاقت پیدا کرنے سے قاصر ہے۔”(موج کوثر)

ہائے! حالی آپ نے کیا کہ دیا شاید آپ کو معلوم نہیں تھا کہ مستقبل قریب میں ایسے مفکر اور انٹلیکچول پیدا ہوں گے جنہیں آپ اچھا کہ رہے ہیں ان کو وہ لوگ ذہنی دیوالیہ پن کا شکار، دقیانوسی ذہنیت کا حامل قرار دیں گے۔ یہاں میری قوت فیصلہ بڑی کشمکش کا شکار ہے کہ کس کو صحیح ٹھہراؤں کسے غلط کہوں؟ کون ہے وہ جو دقیانوسی فکر کا بوجھ لئے پھر رہا ہے؟

خود سرسید ایک خط میں لکھتے ہیں:

"تعجب ہے کہ جو تعلیم پاتے جاتے ہیں اور جن سے قومی بھلائی کی امید تھی، وہ خود شیطان اور بدترین قوم ہوتے جاتے ہیں”(موج کوثر)

سرسید اپنے طالب علموں سے کیا چاہتے تھے جو اتنے سخت الفاظ کہ رہے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں وہ اہل مدارس کو ایسا کہ رہے ہوں؟ مگر سرسید سے ہم ایسی بدگمانی نہیں رکھ سکتے، اور سیاق کلام بھی تو بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ موجودہ حالات میں جو لوگ بہت سخت اور نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں، ہمیں ان کے طرز کلام سے بھی سخت اختلاف ہے  جو کہ نبوی طریقہ نہیں اور کسی بات کو کہنے میں اچھے انداز کا استعمال دیرپا اور اپنے پیچھے نقوش چھوڑنے والا ہوتا ہے۔

شبلی، حالی، سرسید کا تذکرہ آہی گیا تو لگے ہاتھوں آزاد کو بھی دیکھ لیتے ہیں ان کی کیا رائے ہے، انہیں بھی کچھ اچھائی نہ ملی اور شکوے پر شکوے کرتے چلے گئے. لکھتے ہیں:

"میں جو نئے تعلیم یافتہ حضرات کا ہمیشہ شاکی رہتا ہوں تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی ہر گذشتہ خوبی کو ان سے دور پاتا ہوں اور ان جگہ کوئی نئی خوبی مجھے نظر نہیں آتی، ہماری گذشتہ مشرقی معاشرت، اوضاع و اطوار، اخلاق و عادات، طریق بود و ماند یہ سب کے سب انہوں نے ضائع کر دئیے۔ اخلاق و تمدن کے بعد مذہب کا نمبر آیا، اور جدید تعلیم و تہذیب کے مندر پر مذہب کی قربانی بھی چڑھائی گئ،خیر مضائقہ نہیں۔ خرید و فروخت کا معاملہ ہے اور متاع بے بہا ہاتھ آتی ہو تو دل و جان تک کو اس کی قیمت میں لگا دیتے ہیں ؛ لیکن سوال یہ ہے کہ سب دے کر وہ کون سی چیز ہے جو ہاتھ آئی؟ علم؟ نہیں، اخلاق؟ نہیں،تہذیب و معاشرت؟ نہیں،  ایک پوری انگریزی زندگی؟ نہیں،  ایک اچھی مخلوط معاشرت؟ یہ بھی نہیں، پھر یہ کیا بد بختی ہے کہ جیب اور ہاتھ دونوں خالی ہیں۔”

ہمیں کوئی تبصرہ نہیں کرنا ہے؛ بلکہ حساب مانگنا ہے کہ جن دین کے خود ساختہ ٹھیکیداروں کی نا اہلی کے سبب امت کا شیرازہ بکھرتا جارہا ہے، یا قوم جن کی وجہ سے ترقی کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئی، اگر انہوں نے کچھ نہیں کیا تو آپ نے کیا کیا؟ چلئیے مان لیتے ہیں کہ آپ کے کارہائے نمایاں سے ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ بھری پڑی ہے تو یہ بہی خواہان قوم و ملت جنہوں نے اپنے خون اور پسینے کو ایک کر کے ایک نہیں انیک ادارے اور یونیورسٹیز قائم کی تھیں پھر وہ نوحہ کناں کیوں ہیں؟ یا یہ ذمہ داری بھی انہی دین کے خود ساختہ ٹھیکیداروں کی ہے؟ اگر ذمہ داری نہیں تو کم از کم ان کا دینی مزاج، ان کا لباس پوشاک اس قومی ترقی کی شاہراہ  کاضرور رکاوٹ ہے؛حتی کہ اپنی زبوں حالی کو بھی دنیا کی نظر میں سنیما یا ڈاکومنٹری کے شکل میں نہیں لا پا رہے ہیں؟

اشتراک کریں