تعارف
مولانا عماد الدین نور الدین عبد الرحمٰن جامی عموماً مولانا عبد الرحمٰن جامی اور عبد الرحمٰن نور الدین محمد دشتی کے نام سے مشہور و معروف ہیں۔ یہ ایک صوفی، فلسفی، شاعر اور مؤرخ کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔
مولانا کا عرصہ حیات 1414ء سے 1492ء تک محیط ہے۔ آپ اپنے زمانہ میں علمائے اسلام اور صوفیائے اسلام کی صف اول میں شمار کیے جاتے تھے۔ آپ نے صنف شاعری میں کئی اہم کتب تصنیف فرمائیں جن میں تصوف اور روحانیت کا درس دیتے ہوئے مولانا جامی کی شخصیت مزید اُبھرتی ہوئی ہمارے سامنے آتی ہے۔
مولانا جامی کی ولادت "جام” نامی ایک گاؤں میں ہوئی تھی، جام ایک گاؤں ہے جو افغانستان کے صوبہ غور میں واقع ہے۔ اسی کی طرف نسبت کرتے ہوئے انھوں نے اپنا تخلص "جامی” رکھا۔
جامی کے آباء واجداد مشاہیر علماء اور اہل تقوی میں سے تھے، اس لئے ان کی تربیت اچھے ماحول میں ہوئی، مولانا جنید اصولی، خواجہ علی سمرقندی اور مولانا شہاب الدین محمد جباجری جیسے بزرگ اساتذہ سے استفادہ کیا جس سے ان کی علیت میں چار چاند لگ گئے۔ سلطان محمد فاتح اور سلطان بایزید دوم مولانا جامی کی بڑی عزت کرتے تھے۔
جامی کی علمی خدمات
نظم و نثر کی تصانیف 49 ہیں۔ نظم میں سات مثنویاں ہفت اورنگ سلسلۃ الذہب، سلامان وابسال، تحفۃ الاحرار، صحبۃ الابرار، یوسف زلیخا، لیلی مجنوں، فرد نامۂ سکندری اور غزلوں کے تین مجموعے آپ کی یادگار ہیں۔ نثر میں کل گیارہ کتابیں تصنیف کیں۔
جامی علمی لیاقت کے ساتھ ساتھ سنجیدگی ، شائستگی اور انسانی اقدار کے احترام جیسے اوصاف سے متصف بھی ہیں جس کا انداز و ہمیں ان کی "یوسف و زلیخا” اور "بہارستان جامی” جیسی تصانیف سے ہوتا ہے۔ مولانا جامی سنی اور حنفی مسلک کے حامل تھے جس کی وجہ سے اہل رفض تشیع سے ان کے شدید اختلافات رہے، بلکہ بعض بعض دفعہ تو حالات انتہائی سخت ہو گئے ۔ ان حالات کا ذکر انھوں نے "سلسلہ ذہب” میں بھی کیا ہے ۔
بہارستانِ جامی کی خصوصیات
"بہارستان جامی” کو مولانا موصوف نے اپنے بیٹے یوسف ضیاء الدین کی دینی تربیت کے لئے تصنیف کیا تھا، ہوا یوں کہ جس زمانے میں وہ اپنے بیٹے کو "گلستاں” پڑھا ر ہے تھے ، ان کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ وہ خود ہی اس کے طرز پر کوئی کتاب تصنیف کر دیں ، اسی خیال کے مد نظر انہوں نے یہ کتاب لکھی۔
اس کتاب میں تمام باتیں عام طور سے معیاری و مثالی شخصیتوں سے متعلق یا ان کے حوالے سے لکھی گئی ہیں. بہت سی ایسی کہانیاں ہیں جو لوک کتھاؤں سے ماخوذ ہیں، یہ تمام کہانیاں انسانی اخلاق پر اچھا اثر ڈالنے والی ہیں۔ ہر حکایت کے ذریعہ حکمت و دانش اور تہذیب و شائستگی کا درس دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
اسلوب نگارش عام طور سے سادہ اور دلنشیں ہے کہیں کہیں موزون و مقفیٰ عبارتوں کی پابندی بھی نظر آتی ہے، لیکن اتنی زیادہ نہیں کہ اس کے سبب سے عبارت مشکل اور پیچیدہ ہو جائے۔ اپنی ان خوبیوں کی وجہ سے یہ کتاب بھی علمی حلقوں میں کافی مقبول ہوئی ۔ اور اس کتاب کو اگرچہ گلستاں جیسی شہرت نصیب نہ ہو سکی لیکن پھر بھی یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ گلستاں کے طرز پر لکھی گئی کتابوں میں سب سے بہتر اور سب سے زیادہ شہرت اسی کتاب کو حاصل ہوئی۔
تصانیف
میں مولانا جامی کی مستقل تصانیف جو شائع ہوچکی ہیں:
بہارستان یا روضۃ الاخیار
یہ تصنیف فارسی زبان میں نثر اور نظم یکجائی بحر میں ہے جو گلستان سعدی کے طرز پر لکھی گئی ہے۔ اولاً محمد رضا ایرنیاز بیگ اوغلی آگہی (پیدائش: 1809ء- وفات: 1874ء) نے ازبک زبان میں اِس کا ترجمہ کیا۔ موجودہ نئی طرز میں یہ بہارستان و رسائل جامی کے عنوان سے تہران سے 2000ء میں شائع ہوئی۔
شرح دیباچہ مرقع
: فارسی زبان میں لکھی گئی یہ کتاب نثر میں ہے۔ نظام الدین میر علی شیر نوائی (پیدائش: 844ھ- وفات: 906ھ) کے دیباچہ مرقع کی شرح ہے۔ اِس کا ایک قلمی مخطوطہ 1079ھ کا کتب خانہ سوویت یونین موجودہ Russian academy of sciences linen ground روس میں موجود ہے۔
منشآت جامی
فارسی زبان میں بحر نثر میں ہے۔ برصغیر میں یہ مجموعہ "مکاتیب انشائے جامی” اور "رقعات جامی” کے نام سے کئی بار شائع ہوا ہے۔ کلکتہ سے پہلی بار 1226ھ میں فارسی زبان میں شائع ہوا۔ بمبئی کے طبع خانہ فضل الدین کہمکر نے 1261ھ میں اِسے شائع کیا۔ کانپور سے مطبع احمدی نے 1308ھ میں شائع کیا۔