سناؤں ان کو میں حال دل کا

3/مارچ 2016م کا وہ دن، دیار شوق کا وہ سفر، وہ سفر جس کا اپنے سے وعدہ تھا کہ جب بھی اپنی حیثیت ہوئی پہلا کام یہی ہوگا، اللہ نے وہ دعا قبول کی تھی، وہ دل کا ارمان پورا ہو رہا تھا، اور ہم سعودی ایئر لائن سے عمرہ کا احرام باندھ کر جدہ کے لئے عازم سفر تھے۔ اگلی صبح ہم کعبہ کے سامنے نم آنکھوں کے ساتھ کھڑے دعا مانگ رہے تھے، پھر تو چھ دن تک عمرہ، طواف، نماز ہی معمول تھا، ہم اپنا زیادہ وقت مسجد حرام میں ہی گزارتے تھے؛ گو کہ مکہ میں ہمارے رشتہ دار تھے جو جدہ لے جانے کو کہ رہے تھے مگر ہم نے مسجد حرام کی چہار دیواریوں کو ترجیح دی اور وہیں کے ہو رہے، آنا فانا چھ دن گزر گئے، اور مدینۃ الرسول علی صاحبہا الصلاۃ و السلام جانے کا وقت آ گیا، اور ہم جب آخری طواف کرکے کعبہ سے رخصت ہو رہے تھے نہ جانے کتنی بار مڑ مڑ دیکھا، اور نم آنکھوں سےالوداع کہا، آج بھی اس منظر کی یاد ذہن ودماغ کو اس حرم مکی کی سیر کرا دیتی ہیں، روح کو ترو تازہ کر جاتی ہے۔

ساتویں دن مدینہ حاضری ہوئی، جمعہ کا دن تھا، سب سے پہلے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے در دولت پر حاضری دے صلاۃ و سلام عرض کیا، – الصلاۃ و السلام علیک یا رسول اللہ- سنہری جالی کے سامنے جب پہونچے جہاں لکھا ہے "ھنا السلام علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یہاں سلام پڑھیں) یقین جانیں دل کی جو کیفیت ہوتی وہ بیان نہیں کی جاسکتی۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت چیز ہی ایسی ہے، یہ محبت وہ محبت ہے جو اپنے والدین، مال و متاع، عزت و آبرو، اہل و عیال سے بڑھ کر ہے، اسی محبت میں ہم سرشار درود لبوں پر سجائے بارگاہ الہی میں دعا گو اور سر بہ سجود رہتے تھے۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں شب و روز بڑے پرسکون سے گزر رہے تھے کہ واپسی کا وقت ہوگیا اور ہم نم آنکھوں سے اپنے پیچھے مدینہ چھوڑ آئے؛ مگر اک کسک ہے کہ رہ رہ کر اٹھتی ہے کہ کب پھر حاضری کا موقعہ ملے، پھر ایک موقعہ آیا حج کی منظوری آگئی، سب کچھ مکمل تھا کہ کرونا کی وبا نے سارا پلان کینسل کروا دیا، اب یہ کسک اب ٹیس بن گئی، نہ جانے رہ رہ کر اٹھنے والا یہ درد کب ختم ہو، جب تک آقا کے در پر حاضری نہیں ہوئی تھی وہ حالت نہیں تھی جو اب ہوتی ہے۔

یہ کسک اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ہم اپنے وطن میں ایسے واقعات دیکھتے ہیں جب آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے، سوشل میڈیا پر آئے دن ایسے پوسٹ دیکھنے کو مل جاتی ہیں جس میں اسلام، پیغمبر اسلام، اور اہل بیت پر ہرزہ سرائیاں کی جاتی ہیں، ہم مسلمانوں کا دل کتنا دکھتا ہے یہ ایک ایمان والا ہی سمجھ سکتا ہے، ناموس رسالت ہمیشہ سے ایسی چیز رہی ہے جس پر مسلمانوں نے کبھی بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہے اور نہ آئندہ کبھی کریں گے، یہ تو مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے کہ اپنے رسول کی ذات اعلی صفات کی ناموس کی خاطر اپنی ایمانی غیرت کا مظاہرہ کریں، دفاع کریں۔

لیکن ہم ایک جمہوری اور دستوری ملک میں رہنے کے باوجود اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے دفاع میں ایک مظاہرہ بھی نہیں کر سکتے ہیں، اس کی پاداش میں ہماری جان و مال کو ارزاں سمجھ کر یہ نفرت کے سوداگر ارباب حکومت کبھی گولیاں چلواتے ہیں یا پھر گھروں کو مسمار کرواتے ہیں۔ اور نہ جانے کتنے بے قصوروں کو پابند سلاسل کر پس دیوار زنداں ڈال دیا گیا ہے، کتنوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا ہے، یہ صرف اس لئے ہو رہا ہے کہ یہ اپنے حقوق کی پاسداری کی بات کر رہے ہیں، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کا دفاع کر رہے ہیں۔ آزاد بھارت کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا جو اب دیکھ رہے ہیں، اس پر طرفہ تماشا یہ کہ اپنی کوئی قیادت نہیں، جو کم از کم جرآت گفتار رکھتی ہو، نیز مصلحت کی دبیز چادر تلے دبے کچھ قائدین کبھی ایسا بول جاتے ہیں قوم سوچتی ہے اس سے تو بہتر تھا نہ بولتے۔ اور سب سے تکلیف دہ بات تو یہ ہوتی ہے جب ہر حال میں مظلوموں کو ہی مورد الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے؛ چہ جائیکہ ان کو پرسہ دیں، ان داد رسی کریں، ان کے دکھ درد میں شریک ہوں۔

آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دیار کی حاضری کو کبھی سپرد قرطاس نہیں کیا تھا مگر آجکل درد ہے کہ سوا ہوا جاتا ہے، یاد ہے کہ آتی ہی جاتی ہے، اللہ تو ہی ہمارا حامی و ناصر ہوجا!

یہ دل میں ارماں ہے اپنے طیب مزار اقدس پہ جاکے اک دن
سناؤں ان کو میں حال دل کا کہوں میں ان سے سلام لے لو

اشتراک کریں

Leave a Comment