امام شافعیؒ اور ان کی شاعری

امام شافعی (ابو عبد اللہ محمد بن ادریس قرشی مطلبی ہاشمی ۱۵۰ھ /  ۷۶۷ء – ۲۰۴ھ / ۸۲۰ء) ائمۂ اربعہ (۱) میں سے ایک ہیں۔ کنیت ابو عبد اللہ ہے، نسبتاً قریشی ہیں۔ شافعی نسبت آپ کے جد امجد شافع بن سائب کی طرف ہے۔ ربیع بن سلیمان مرادی کے مطابق امام شافعیؒ کا نسب ’’ابو عبد اللہ محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع بن سائب بن عبید بن یزید بن ہاشم بن مطلب بن عبد مناف قرشی مطلبی ہاشمی‘‘ ہے(۲) صحیح روایت کے مطابق فلسطین کے شہر غزہ میںپیدا ہوئے۔ آپ یتیم تھے۔ نسب ضائع ہونے کے خدشے اور بچے کی صحیح تعلیم و تربیت کے پیش نظر آپ کی والدہ فاطمہ بنت عبد اللہ(۳) دو سال کی عمر میں آپ کو مکہ لے آئیں۔

ان دنوں آپ کی والدہ نہایت تنگ دستی میں زندگی گزار رہی تھیں۔ مکتب میں فیس نہ ادا کر سکنے کی وجہ سے معلم کی کوئی خاص توجہ آپ پر نہیں تھی۔ مگر امام شافعی نے اپنی خدا داد صلاحیت کی وجہ سے معلم کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ معلم جو کچھ پڑھاتا اس کو زبانی یاد کر لیتے اور بعد میں دوسرے بچوں کو یاد کراتے تھے۔ تعلیم کے علاوہ انھیں تیر اندازی اور گھوڑ سواری کا بہت شوق تھا۔ تیر اندازی کے بارے میں خود ان کا بیان ہے کہ ’’أصیب في عشرۃ عشرۃ‘‘ اگر میں دس تیر چلاتا تو دس کے دس نشانے پر لگتے تھے۔ ان سب کے باوجود ان کو اصل لگاؤ حصول علم سے تھا۔ سات سال کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا۔ دس سال کی عمر میں مؤطا امام مالک حفظ کرلی۔ جب امام مالکؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو مؤطا امام مالک زبانی سنائی اور یہی بات امام مالکؒ سے قربت کا ذریعہ بنی۔ مکتب کی تعلیم کے بعد آپ قبیلہ بنی ہذیل چلے گئے۔ یہ قبیلہ فصاحت و بلاغت اور شاعری میں بہت مشہور تھا۔ اور ستّرہ(۱۷) سال تک سفر و حضر میں ان کے ساتھ رہے۔ یہاں تک کہ آپ کو قبیلۂ ہذیل کے دس ہزار اشعار یاد ہوگئے تھے۔ امام لغت اصمعی(۴) نے آپ سے قبیلۂ ہذیل کے اشعار پڑھے اور محفوظہ اشعار کی تصحیح کرائی۔ ابن خلکان کے الفاظ ہیں:

’’حتّی أنّ الأصمعي مع جلالۃ قدرہ في ہذا الشأن قرأ علیہ أشعار الہذلیین ما لم یجتمع في غیرہٖ‘‘ (۵)

قبیلۂ ہذیل سے واپس ہو کر مکہ تشریف لے گئے اور حصول علم میں مشغول ہوگئے۔ اس زمانہ میں ان پر شعر و شاعری اور فصاحت و بلاغت کا غلبہ رہا۔ مگر آل زبیر کے ایک بزرگ نے آپ کی فصاحت و بلاغت اور عربی زبان و اشعار پر قدرت دیکھ کر آپ کو فقہ کی تعلیم حاصل کرنے کی نصیحت کی، انھیں بزرگ کی تشویق پر امام مالک کی خدمت میں حاضر ہو کر حدیث و فقہ کی تعلیم حاصل کی۔

آپ مدینہ سے امام مالکؒ کے درس سے مستفید ہو کر مکہ تشریف لے آئے اور یہاں درس و تدریس کا کام شروع کیا۔ لیکن چند دنوں بعد امیر یمن کے ساتھ یمن تشریف لے گئے اور وہاں منصب امارت پر فائز رہے؛ لیکن یہ بات آپ کے اساتذہ کو پسند نہ آئی کہ درس و تدریس چھوڑ کر منصب امارت سنبھالیں۔ لہٰذا اپنے استاد سفیان بن عیینہ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئےبغداد گئے اور وہاں محمد بن حسن شیبانی ؒ سے فقہ کی تکمیل کی۔ آپ کہتے ہیں

’’إنّي لأعرف الأستاذیۃ عليّ لمالک ثمّ لمحمّد بن الحسن‘‘

میں امام مالک اور امام محمد کو اپنا استاذ تسلیم کرتا ہوں۔(۶) نیز کہتے ہیں :

’’لوأنصف النّاس الفقہاء لعلموا أنّہم لم یروامثل محمّد بن الحسن ‘ما جالست فقیہًا قطّ أفقہ منہ ، ولا فتق لساني بالفقہ مثلہ ، لقد کان یحسن من الفقہ أسبابہ شیئًا یعجز عنہ الأکابر‘‘۔(۷)

(یعنی لوگ اگر فقہا کے بارے میں انصاف سے کام لیں تو معلوم ہوگا کہ انھوں نے محمد بن حسن شیبانی جیسا فقیہ نہیں دیکھا ۔ اور میں کبھی آپ سے زیادہ فقیہ کی مجلس میں نہیں بیٹھا، اور علم فقہ میں میری زبان اتنی نہ کھلی۔ آپ کو فقہ میں اتنی مہارت تھی کہ بڑے بڑے لوگ عاجز تھے۔)

اور وہیں بغداد میں اپنا حلقہ درس قائم کیا۔ اس دور کے بڑے بڑے علما آپ کے حلقہ درس میں شامل ہوئے اور علوم حاصل کیے۔ اُن میں سر فہرست امام احمد بن حنبل ؒ ہیں، یہاں تک کہ امام احمدؒ نے آپ کے بارے میں فرمایا ’’ ما عرفت ناسخ الحدیث من منسوخہ حتّی جالست الشّافعي‘‘ یعنی حدیث کے ناسخ و منسوخ ہونے کا علم مجھے امام شافعیؒ کی مجلس سے ملا۔(۸)

ان کو شروع سے تحصیل علم سے رغبت تھی۔ ذکاوت و ذہانت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوب قوت حافظہ عطا فرمائی تھی۔ ذکاوت و ذہانت اور حافظے کا اثر ہی تھا کہ آپ کو عربی کے تمام علوم قرآن و حدیث، بلاغت و عروض اور شاعری وغیرہ پر مکمل عبور تھا۔ آپ برجستہ اشعار بھی کہتے تھے ۔ آپ کی بہت سی عبارتیں اور اشعار ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ برجستگی، سلاست، الفاظ کی ندرت ،خیال و فکر کی پاکیزگی، نیز سچائی اور حق گوئی آپ کی شاعری کا خاص امتیاز ہے۔ عربی زبان و ادب پر اتنی قدرت کے باوجود آپ نے شاعری کو بطور تفنن نہیں اپنایا بلکہ وقتًا فوقتًا اشعار کہتے رہے جو مختلف کتابوں میں بکھرے ہوئے تھے۔ ماضی قریب کے چند محققین کی کوششوں سے ان کا دیوان شائع ہوچکا ہے۔ شعروشاعری کے سلسلے میں آپ کے نظریے کا اندازہ آپ کے اس شعرسے لگایا جاسکتا ہے:

لولا الشّعر بالعلماء یزري
لکنت الیوم أشعر من لبید

( اگر شعر علما کی شان کے منافی نہ ہوتا تو میں لبید بن ربیعہ عامری سے بڑا شاعر ہوتا)

مولانا نور عالم خلیل امینی اس سلسلے میں رقم طراز ہیں:

’امام شافعیؒ ناقدین ادب و زبان کے نزدیک بلا شبہ و فی الواقع لبید اور اُن کے ہم رتبہ شاعروں سے بڑے شاعر تھے‘‘۔(۹)

ان کی شاعری کے علاوہ عربی اقوال اور نصائح زبان زد خاص و عام ہیں۔ خود انھیں کا بیان ہے کہ میں نے عربی شعر و ادب اور لغت کو دین میں تعاون کے لیے حاصل کیا ہے۔ ان کے حکیمانہ اقوال میں عربی ادب و انشا کی حلاوت ہے۔ اُن میں حکمت و دانش کے ساتھ فصاحت و بلاغت کی چاشنی بھی ہے۔ کچھ نمونے ملاحظہ ہوں:

ایک دن کسی نے ان کی حالت دریافت کی تو آپ نے فصیح و بلیغ عربی میں جواب دیا۔

’’کیف أصبح من یطلبہ اللّٰہ بالقرآن، والنّبيّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بالسّنّۃ، والحفظۃ بما ینطق، والشّیطان بالمعاصي، والدّہر بصروفہ، والنّفس بشہواتہا ، والعیال بالقوت، وملک الموت بقبض روحہ‘‘۔

(یعنی اس کی کیا حالت ہوگی جس سے اللہ تعالیٰ قرآن کا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنت کا، فرشتے بولی ہوئی باتوں کا، شیطان گناہوں کا، زمانہ اپنے مصائب کا، نفس اپنی خواہشوں کا ،اہل وعیال روزی کااور ملک الموت قبض روح کا مطالبہ کرتا ہے۔)

امام شافعی نے ایک شخص کی خوبی اس طرح بیان کی:

’’أما واللّٰہ لقد کان یملأ العیون جمالاً والآذان بیانا‘‘۔

واللہ وہ شخص آنکھوں کو حسن و جمال اور کانوں کو فصاحت و بلاغت سے بھر دیتا ہے۔

تحصیل علم کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’لا یطلب ہٰذا العلم أحد بالمال، وعزّ النّفس فیفلح ولکن من طلبہ بذلّۃ النّفس وضیق العیش وحرمۃ العلم أفلح‘‘۔

یہ علم دین کوئی شخص مال داری اور عزت نفس سے حاصل کرکے کامیاب نہیں ہو سکتا ہے البتہ جو شخص نفس کی ذلت اور فقر و محتاجی اور علم کی حرمت کے ساتھ اس کو حاصل کرے گا وہ کامیاب ہوگا۔(۱۰)

نیز قرآن کریم کی عظمت، حدیث شریف کی حجت اور فقہ کی قدر و قیمت، عربی زبان اور علم حساب کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’من قرأ القرآن عظمت قیمتہ ، ومن تفقّہ نبل قدرہ، ومن کتب الحدیث قویت حجّتہ، ومن تعلّم اللغۃ رق طبعہ، ومن تعلّم الحساب جزل رأیہ ،ومن لم یصن نفسہ لم ینفعہ علمہ‘‘(۱۱)

رہی امام شافعیؒ کی شاعری تو جتنے موضوع پر آپ نے اشعار کہے ہیں اُن سب کا تعلق انسانی زندگی اور معاملات سے ہے اور یہ صرف اشعار ہی نہیں ہیں جن میں عمدہ الفاظ اور شائستہ ترکیب کی آمیزش ہو؛ بلکہ قرآ ن و حدیث کی روشنی میں کہے گئے وہ حکیمانہ اقوال ہیں جو جینے کا سلیقہ بتانے کے ساتھ ساتھ بہترین نصیحت کا بھی درجہ رکھتے ہیں۔ انھوںنے جن موضوعات پر اشعار کہے ہیں اُن کو مولانا نور عالم خلیل امینی اپنے مخصوص انداز میںاس طرح لکھتے ہیں :

’’امام صاحبؒ نے قضاو قدر پر رضا مندی ،دعا کی اہمیت ،کمینے کے جواب میں خاموشی، سفر کی اہمیت ،خود داری، قسمت کے کھیل، ظاہر کی فریب دہی، خواہش نفس کی مخالفت، عالی ظرفی و خوش اخلاقی، پاکیزہ مذاق و خوش طبعی ، بڑھاپے میں نیکی پر توجہ، صبر و قناعت، اخلاقی عظمت، سخاوت کی فضیلت، بخل کی مذمت ، نیکوں سے دوستی، علم و تقویٰ کی فضیلت، مصیبت کے بعد راحت، خاموشی کی حکمت، لالچ سے پرہیز،فقہ و تصوف کے تلازم ، اللہ کی رحمت کی امید، ناامیدی سے اجتناب، انسانی آرزوؤں کی بے پناہی، تسلیم و رضا کی قدر و قیمت، غم زمانہ کی ناگزیریت، ادائیگی حقوق کی ترغیب، مصیبت کے وقت غم گساروں اور مدد گاروں کی کمی، علما کا وقار، انسانوں کی بے وفائی، آدابِ مناظرہ، آخرت کی تیاری، عفو الٰہی، انسان کی عظمت لباس سے نہیں بلکہ کمال سے ہے، مخلص دوستوں کی ضرورت، زندگی میں احتیاط کی اہمیت ،دنوں کا الٹ پھیر، برے ہمنشیں سے اجتناب، ذلت سے احتراز، لوگوں کے لیے عذر خواہی، وفا شعار دوستوں کی قلت ،آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت، آدابِ نصیحت، حاسدوں کی شر پسندی، عیب نفس پر توجہ کی ضرورت ،طبائع انسانی کی بگاڑ کی وجہ، توکل علی اللہ کی اثر انگیزی، ذلت سوال سے پرہیز، انسانی محاسن، ملوک و امرا سے دوری، حصول بلندی کی راہ، بلند ہمتی، فقیہ ، سردار اور مال دار کب اس لقب کا مستحق ہوتا ہے، اپنی پاک دامنی سے عورتیں بھی پاک دامن رہتی ہیں، دوسروں کی آبرو کی حفاظت، ایثار و قربانی مشیت الٰہی، انسان خود اپنی بلاؤں کا سبب ہے، احسان اٹھانے کی تلخی، زبان کی حفاظت، جیسا کرنا ویسا بھرنا ، عزت نفس کا خیال، بد گوئی سے اجتناب، ایمان و نیکی کی اہمیت کے علاوہ بہت سے موضوعات پر انتہائی خوب صورت اور فصیح و بلیغ شعر کہے ہیں‘‘(۱۲)

ہم یہاں امام شافعیؒ کی شاعری کا نمونہ مع ترجمہ پیش کرتے ہیں۔ اشعار اور ترجمہ طاہر الاسلام قاسمیؔ کی مرتب اور ترجمہ کردہ کتاب ’’دیوانِ امام شافعیؒ ‘‘ سے ماخوذ ہیں۔ایمان کے سلسلے میں امام صاحب کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:

صبرًا جمیلاً ما أقرب الفرجا              من راقب اللّٰہ في الأمور نجا

من صدق اللّٰہ لم ینلہ أذیٰ                 ومن رجاہ یکون حیث رجا

(صبر جمیل سے کام لو، پھر دیکھو کشادگی کتنی قریب ہے، جس نے اللہ تعالیٰ کو کاموں پر نگراں بنایا اُس نے نجات پائی، جس نے اپنے قول و عمل میں اللہ کے لیے اخلاص اختیار کیا وہ مصائب سے محفوظ رہا اور جو اللہ سے امید باندھے وہ پوری ہو کر رہے۔)

نیز فرماتے ہیں:

ولرب نازلۃ یضیق لہا الفتی            ذرعًا وعند اللّٰہ فیہا المخرج

ضاقت فلم استحکمت حلقاتہا            فرجت وکنت أظنّہا لا تفرج

( بعض سانحے نوجوان کو عاجز کر دیتے ہیں، حالاں کہ اس سے نکلنا مقدر ہوتا ہے، افتاد پڑتی ہے اور جب وہ اپنے پنجے جما لیتی ہے تو بلا وہم و گمان اُس سے کشادگی کی راہ نکل آتی ہے۔)

امام شافعی ان اشعار میں واضح طور پر یہ بتلا رہے ہیں کہ مصائب و مشکلات چاہے کتنے ہوں اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھنا چاہیے، اور امید ختم نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ ہر مشکل کے بعد آسانی مقدر ہوتی ہے۔  إنّ مع  العسر یسرًا۔ان اشعار میں الفاظ و ترکیب کی سلاست کے ساتھ ساتھ حکمت و نصیحت کتنی واضح اور نمایاں ہے۔

علم اللہ کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے، جس کے ذریعہ انسان نیک و بد، حلال و حرام میں امتیاز کرتا ہے اور اسی صفت کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات بنا۔ حتی کہ اُس کا حاصل کرنا ایک درجہ میں فرض قرار دیا گیا اور اس عظیم صفت کو حاصل کرنے کے لیے کچھ آداب متعین ہوئے، جن کے بغیر اس علم کو حاصل کرنا فوائد سے خالی ہوتا ہے۔ انھوں نے علم اور اس کے آداب کے سلسلے میں بہت سے اشعار کہے ہیں، جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر علم کو تواضع اورانکساری کے ساتھ سیکھا جائے تو اس کے فوائد عام ہوتے ہیں اور صاحب علم کی عزت و قدر دانی مقدر ہوجاتی ہے اور اس کی عزت و آبرو کی ذمہ دار بھی۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

لا یدرکہ الحکمۃ من عمرہ                 یکدح في مصلحۃ الأہل

ولا ینال العلم إلا فتی                     خال من الأفکار والشّغل

لو أنّ لقمان الحکیم الّذي                 سارت بہ الرّکبان بالفضل

بُلی بفقر وعیال لما                         فرّق بین التّبن والبقل

(وہ شخص علم و حکمت حاصل نہیں کر سکتا جو تمام عمر اہل و عیال کی منفعت کے لیے جد و جہد کرتا رہے۔ علم دین جوان مرد حاصل کر سکتا ہے جو مختلف قسم کے افکار و شغل سے خالی ہو۔ اگر حکیم لقمان کہ جن کے علم و حکمت کی داستانیں چلی آرہی ہیں۔ عیال داری اور فقرو تنگی میں مبتلا ہوتے تو وہ بھوسہ اور خرفہ (سبزی میں بھی) امتیاز نہ کرپاتے۔)

ایک جگہ اور علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

کلّما أدّبني الدھر                           أراني نقص عقلی

و إذا ما ازددت علما                      زادني علمًا بجہلي

(زمانے نے جب بھی مجھے سبق دیا، اس نے میری عقل کا ضعف مجھ پر واضح کیا اور میں نے جب بھی علمی ترقی کی، اپنے جہل کی زیادتی پر (بھی) اطلاع ہوئی۔)

علم حاصل کرنے میں تکبر اور بڑائی سے اجتناب کتنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں فرماتے ہیں:

العلم من فضلہ، لمن خدمہ
أن یجعل النّاس کلّہم خدمۃ

فواجب صونہ علیہ کما
یصون في النّاس عرضہ و دمہ

فمن حوی العلم ثمّ أودعہ
بجہلہٖ غیر أہلہٖ ظلمہ

(علم اپنی فضیلت کی وجہ سے اپنے خادم (علما) کا تمام لوگوں کو خادم (تابع دار) بنا دیتا ہے، لہٰذا عالم کے لیے علم کی حفاظت (اور اس کے حقوق کی ادائیگی) ضروری ہے۔ جیسے وہ لوگوں میں اس کی جان و عزت کی حفاظت کرتا ہے۔ جو شخص علم حاصل کرے، پھر اپنی حماقت کی وجہ سے اسے ناقدروں کو سکھائے تو وہ ظالم ہے۔)

سفر کے بارے میں امام شافعیؒ کے مندرجہ ذیل اشعار بڑے مشہور ہیں۔ فرماتے ہیں:

ما في المقام لذي عقل و ذي أدب
من راحۃ فدع الأوطان واغترب

سافر تجد عوضا عمّن تفارقہ
وانصب فإنّ لذیذالعیش في النّصب

إنّي رأیت وقوف الماء یفسدہ
إن ساح طاب وإن لم یجر لم یطب

والأسد لولا فراق الأرض ما افترست
والسّہم لولافراق القوس لم یصب

والشّمس لو وقفت في الفلک دائمۃ
لملّہا النّاس من عجم ومن عرب

والبدر لو لا أفول منہ ما نظرت
إلیہ في کلّ حین عین مرتقب

والتّبر کالترب ملقی في أماکنہ
والعود في أرضہٖ نوع من الحطب

فإن تغرّب ہٰذا عزّ مطلبہ
وإن تغرّب ذاک عزّ کالذّہب

(صاحب عقل کو ایک جگہ پڑے رہنے میں کوئی راحت نہیں ہے، سو وطن کو خیرباد کہو۔ پردیس آباد کرو۔ کوچ کرو۔ اپنوں کی جدائی کا بدلہ پا لوگے۔ اور جد وجہد کرو،کیو نکہ زندگی کا لطف جدو جہد ہی میں ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ٹھہرا ہوا پانی خراب ہوجاتا ہے، اگر وہ بہے تو خوش گوار ہوجاتا ہے، ورنہ نہیں۔ شیر اگر اپنی جگہ کو نہ چھوڑے تو شکار نہیں پا سکتا، اور تیر اگر کمان سے نہ نکلے تو نشانے پر نہیں لگ سکتا۔ سورج اگر آسمان پر مستقل چمکتا رہے تو عرب و عجم اس سے بیزار ہوجائیں۔ ماہ کامل اگر غروب نہ ہو تو باربار آنکھیں اس کی راہ نہ دیکھیں۔ سونا جو اپنی جگہ ہو (نکالا نہ گیا ہو) مٹی کی طرح ہے، اور عود جب تک زمین میں ہو ایندھن کی طرح ہے،جب اپنی جگہ چھوڑے تو اس کی طلب بڑھ جاتی ہے، اور سونا اپنی جگہ چھوڑ دے تو سونے کی عزت بڑھ جاتی ہے۔)

عفت و پاکدامنی تمام اخلاقی خوبیوں کی اساس ہے۔ اس لیے اسلام نے اس کو اخلاقی محاسن میں شمار کیا۔ اس کو اپنانا اور اس کی حفاظت کرنا انسان کو اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے۔ کوئی شخص اپنے آپ کو با آبرو اور پاکدامن رکھ کر اپنے اہل و عیال کی عفت کی بھی پاس داری کرتا ہے۔ امام شافعیؒ اس سلسلے میں فرماتے ہیں:

عفو تعف نساء کم فی المحرم
وتجنبوا ما لایلیق بمسلم

إنّ الزّنا دین فإن أقرضتۃ
کان الوفا من أہل بیتک فاعلم

( پاک دامن رہو، تمہاری عورتیں حرام کاری سے پاک رہیں گی اور ایسے کاموں سے دور رہو جو مسلمان کی شان کے منافی ہیں۔ خبر دار! زنا ایک قرض ہے۔ اگر تم نے اس قرض کا بار اٹھایا تو ادائیگی تمہارے گھر والوں کو کرنی پڑے گی۔)

امام شافعی کی شاعری سلا ست ، فصاحت وبلاغت، آسان لفظوں کا انتخاب ، حکمت و نصیحت کی جامع ہے۔ مندرجہ بالا مثالیں اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ان کی زندگی کے آخری ایام مصر میں گذرے، جہاں ان کے حلقہ درس سے معزز علمائے کرام مستفید ہو کر پورے مصر میں آپ کے مسلک کے ترجمان بنے اور وہیں سے امام شافعی کے مسلک کی پوری دنیا میں گونج سنی گئی۔ ۲۹/ رجب المرجب۲۰۴ھ/۸۲۰ء کو ان کی روح اپنے مالک حقیقی سے جاملی( رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ وا سعۃ)۔ قبر مبارک پر یہ اشعار کنندہ ہیں:

قضیت نحبی فسر قوم                    حمقی بہم غفلۃ ونوم

کأن یومی علی حتم                       ولیس للشامتین یوم

میں نے اپنا وقت پورا کرلیا تو کچھ بے وقوف غفلت و مدہوش لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ گویا میرا یہ دن صرف میرے لیے ہی مقدر ہےاور مصیبت پر خوشیاں منانے والوں کے لیے یہ دن نہیں ہے۔(۱۳)

٭٭٭٭٭

حوالہ جات:

(۱) ائمہ اربعہ:امام اعظم ابوحنیفہؒ(نعمان بن ثابت تیمی کوفی ۸۰ھ/۶۹۹ء-۱۵۰ھ/۷۶۷ء)،امام مالکؒ (ابو عبد اللہ مالک بن انس اصبحی ۹۵ھ/۷۱۲ء -۱۷۹ھ /۷۹۵ء)،امام شافعیؒ (ابو عبد اللہ محمد بن ادریس قرشی شافعی ۱۵۰ھ/ ۷۶۷-ء ۲۰۴ھ/۸۲۰ء)،امام احمد بن حنبلؒ (ابو عبد اللہ احمد بن حنبل ۱۶۴ھ /۷۶۳ء-۲۴۱ھ/۸۵۵ء)
(۲) مبارک پوری، قاضی اطہر، سیرت ائمہ اربعہ، ادارہ اسلامیات، لاہور، ۱۹۹۰ء، ص۱۴۱
(۳) فاطمہ بنت عبد اللہ بن حسن بن علی بن ابی طالب
(۴) اصمعی، ابو سعید عبد الملک بن قریب اصمعی( ۱۲۳ھ/۷۴۰ء-۲۱۶ھ/۸۳۱ء )امام اللغۃ، ناقد شعر ادب اور عربی زبان کے بلند پایہ ادیب؛زیات، احمد حسن، تاریخ الادب العربی، دارالمعرفۃ ،بیروت، ۱۹۹۷ء ،ص۲۶۴
(۵) ابن خلکان، نخبۃ الادب، وفیات الاعیان سے ماخوذ، علی گڑھ اے ، ایم، یو، پریس، ۲۰۰۰ء،ص۸۰
(۶)  الصیمری، ابو عبد اللہ حسین بن علی، اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ، عالم الکتب، بیروت، ۱۹۸۵ء،ص۱۲۸
(۷)ایضاً
(۸)  ابن خلکان، نخبۃ الادب، وفیات الاعیان سے ماخوذ، علی گڑھ اے ، ایم، یو، پریس، ۲۰۰۰ء،ص۸۰
(۹) امینی ، نور عالم خلیل، پیش لفظ دیوان امام شافعیؒ ،ص:۱۶-۱۷،دیوبند،دارالمعارف، ۲۰۰۰ء
(۱۰) مبارک پوری، قاضی اطہر، سیرت ائمہ اربعہ،ادارہ اسلامیات، لاہور،۱۹۹۰ء، ص۱۸۱-۱۸۲
(۱۱)ابن الساعی، علی بن انجب الدر الثمین فی اسماء المصنفین،دارالمغرب الاسلامی، تونس، ۲۰۰۹ء
(۱۲)امینی، نور عالم خلیل، پیش لفظ دیوان امام شافعیؒ ،دارالمعارف، دیوبند، ۲۰۰۸ء،ص۲۰-۲۱
(۱۳)قاسمی، طاہر الاسلام، دیوان امام شافعیؒ، دارالمعارف، دیوبند، ۲۰۰۸ء

اشتراک کریں