کئی دن سے استاد گرامی کی بیماری کی خبر آ رہی تھی اور دھڑکا لگا رہتا تھا، کہ نا جانے طبیعت کیسی ہے؛ کیونکہ اس ناگفتہ بہ حالات میں صرف موت کا سماں ہے اور بیماری کی ہی خبریں ہیں، اور بالآخر 20/رمضان المبارک 1442ھ مطابق 3/مئی 2021ء بوقت سحر حضرت کے خالق حقیقی سے ملنے کی خبر آ گئی، إنا للہ وانا الیہ راجعون!
جب سے خبر سنی عجیب بے چینی تھی نیند آنکھوں سے غائب تھی، ماضی کے واقعات صفحات ذہن پر یکے بعد دیگرے مولانا کی یاد تازہ کرا رہے تھے اور بے سکونی، بے چینی بڑھتی ہی جا رہی تھی، سوچا اسی حالت میں کچھ قلمبند کروں مگر الفاظ اور ذہنی کیفیت میں ہم آہنگی نہیں ہو رہی تھی، اور اپنے کو لکھنے سے قاصر پا رہا تھا۔ اب جاکر تھوڑا قرار نصیب ہوا تو چند سطریں لکھنے کا ارادہ کر رہا ہوں، خدا توفیق دے اور دلوں کے قرار کا ذریعہ بنائے!
2002ء میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا جب سے ہی حضرت مولانا کے یہاں آنا جانا رہتا تھا، درحقیقت مولانا نے دارالعلوم مئو میں کچھ عرصہ پڑھا تھا اور یہاں مولانا نذیر احمد نعمانی رحمہ اللہ ان کے مشفق استاد تھے جن کا تذکرہ "وہ کوہ کن کی بات” میں مولانا نے کیا ہے، ان ہی کے توسط سے پہلے پہل مولانا کے یہاں جانا ہوا تھا، کچھ ہدایا کا لے جانا اور ادھر سے کچھ ہدایا لانا رہتا تھا؛ جس کی وجہ سے مولانا خاص خیال رکھتے تھے۔ پھر جب 2006ء میں تکمیل ادب عربی میں داخل ہوا تو مولانا سے براہ راست علم و ادب کے بے شمار موتیاں سمیٹنے کا موقع ملا اور سچ کہوں تو عربی لکھنے، پڑھنے کا جو تھوڑا بہت سلیقہ ہے وہ اسی ذات با برکت کا مرہون منت ہے۔درس میں روزانہ حضرت مولانا کی زیارت کے باوجود کبھی کبھی مولانا کے دولت خانہ پر بھی حاضری کا سلسلہ رہتا تھا، مولانا خود اپنے ہاتھوں سے دم والی چائے بنا کر تمام حاضرین کو پلاتے تھے، یہ تھی ایک علم و ادب کے بحر بیکراں کی سادگی اور عادت جس سے ہم لوگ کافی متاثر تھے۔ مولانا اکثر از راہ مذاق کہا کرتے تھے کہ کیا مئو والے اب بھی آدھی کپ چائے پلاتے ہیں؟ در اصل ہم نے بچپن میں اپنے یہاں دیکھا اسٹیل کا کپ ہوتا تھا جو باہر سے دیکھنے میں ٹھیک ٹھاک سائز کا ہوتا تھا؛ لیکن اندر سے آدھا ہی ہوتا تھا، مولانا کا اشارہ اسی کپ کی طرف تھا۔
مولانا کو جب بھی دیکھا پیر میں زخم رہتا تھا، آپ کو شوگر کی بیماری تھی جس کی وجہ سے زخم مندمل نہیں ہو پاتے تھے، اس بیماری میں آدمی ٹوٹ سا جاتاہے؛ مگر مولانا ہمت و حوصلہ کے پیکر تھے، بہت ہی کم اساتذہ کو وقت کا پابند دیکھا؛ لیکن مولانا شدید بیماری میں بھی پورا گھنٹہ پڑھاتے تھے، اور درمیان درمیان میں گلوکوز پانی میں ڈال کر پیتے تھے، ایک بار کا قصہ ہے مولانا کو سخت سر درد تھا درس کے دوران کہا آج بہت سر میں درد ہے آج پہلے چلا جاؤں گا؛ لیکن اس دن بھی نہایت بشاشت کے ساتھ پورا گھنٹہ پڑھایا، پوری ذمہ داری اور حوصلے کے ساتھ درس دینا مولانا کا خاصہ تھا۔
مولانا نہایت ہی مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے، دوران درس بھی مزاحیہ انداز میں تبصرے کرتے تھے جس سے طلبہ بھی ہشاش بشاش رہتے تھے؛ لیکن ان کے تبصرے کسی کے دل آزاری کا سبب نہ بنیں اس کا خاص خیال رکھتے تھے۔ جہاں مولانا شیریں گفتار تھے وہیں خوش لباس بھی تھے، نہایت صاف ستھرے کپڑے پر ہمیشہ شیروانی پہنتے تھے، شوگر کی وجہ سے ہاتھ اور پیر زیادہ متاثر تھے لیکن اس کے باوجود بہترین لکھتے بھی تھے۔
ہم نے مولانا وحید الزماں قاسمی کیرانوی رحمہ اللہ کو نہیں دیکھا لیکن مولانا کی تحریروں میں ان کی امیتازی خصوصیات کو پڑھا ہے جن میں ان کا استاد ہونے کے ساتھ ساتھ مربی ہونا بھی شامل تھا، وہ گفتار و کردار اور علم و عمل میں یکتا تھے، اور جن کی بے پناہ کوششوں سے احاطہ دارالعلوم عربی زبان و ادب سے معمور ہوگیا تھا، ان تمام خصوصیات میں آپ کے سچے جانشین مولانا نور عالم خلیل امینی رحمہ اللہ ہی تھے، جو ہمہ وقت علم و ادب کے موتی نچھاور کرتے رہے جن سے ہزاروں طلبہ استفادہ کرتے اور ان کے گرویدہ اور عاشق ہوجاتے، مولانا "جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ” کے سچے مصداق تھے۔
مولانا کی پیدائش 18/دسمبر 1952ء میں مظفر پور کے ایک گاؤں میں ایک دیندار گھرانے میں ہوئی، اس وقت آپ کے والد حافظ خلیل احمد دیناج پور کے ایک مدرسے میں پڑھاتے تھے، جب بچے کی پیدائش کی خبر سنی تو بچے کی محبت میں بے قرار ہوگئے، گاؤں کے ارادے سے رخت سفر باندھ لیا، اس وقت اس علاقے میں ہیضہ کی وبا پھیلی ہوئی تھی، اور آپ کے والد جاں بحق ہو گئے، آپ یتیم ہوگئے، آپ کی پرورش آپ کی دادی اور والدہ نے کی۔ چار یا پانچ سال کی عمر میں اپنے نانا کے پاس قاعدہ بغدادی پڑھنا شروع کیا، لیکن ان کا بھی جلد ہی انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد آپ کی تعلیمی ذمہ داری آپ کی دادی اور والدہ نے سنبھالی، اور آپ کا داخلہ مدرسہ نورالھدی میں کروا دیا جو آپ کے گاؤں سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، آپ صبح جاتے اور شام کو گھر لوٹ آتے تھے۔ اس کے بعد حفظ شروع کیا لیکن اس کی تکمیل نہ ہو سکی۔ بالآخر 1964ء میں دارالعلوم مئو میں عربی درجات میں داخلہ لیا اور یہاں سے پھر دارالعلوم دیوبند 1968ء میں تشریف لے گئے؛ چونکہ دارالعلوم مئو میں ہی آپ کو عربی زبان ادب سے لگاؤ پیدا ہو گیا تھا اس لئے دارالعلوم دیوبند میں "الصف الابتدائی لتعليم اللغۃ العربیۃ” سے منسلک ہو گئے؛ جس میں مفتی ابوالقاسم نعمانی مدظلہ مہتمم دارالعلوم دیوبند پڑھاتے تھے، ان سے عربی زبان اور عربی خوشخطی سیکھا، پھر اسی درمیان مولانا وحید الزماں قاسمی کیرانوی سے استفادہ کا موقع ملا اور عربی زبان و ادب کا حظ وافر حاصل نیا نیز مقامات حریری بھی ان ہی سے پڑھی۔ پھر 1970ء میں دہلی تشریف لے گئے جہاں مدرسہ امینیہ میں مولانا محمد میاں صاحب دیوبندی رحمہ اللہ سے حدیث کی تکمیل کی۔
1971ء میں دہلی میں ہی آزادانہ طور پر عربی زبان و ادب پڑھاتے رہے؛ لیکن آپ کی خواہش مدینہ یونیورسٹی جانے کی تھی، اس سلسلے میں مولانا محمد میاں صاحب رحمہ اللہ سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو مولانا میاں صاحب نے مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کو ایک مکتوب لکھا جس کے ساتھ مولانا کی ہینڈ رائٹنگ میں ایک درخواست بھی تھی جو مولانا علی میاں رحمہ اللہ کو بہت پسند آئی اور بجائے اس کے کہ مدینہ یونیورسٹی کے لئے توصیہ لکھتے آپ کو دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ بلا لیا، جہاں آپ نے مولانا علی میاں رحمہ اللہ سے بھرپور استفادہ کیا اور ان کے کام میں معاون بھی رہے، مولانا علی میاں رحمہ اللہ آپ کو پیار سے "مولوی نور عالم صاحب امینی ندوی” لکھتے تھے جبکہ مولانا نے باقاعدہ طور پر ندوہ میں نہیں پڑھا تھا بلکہ مولانا علی میاں رحمہ اللہ ہی سے کسب فیض کیا تھا گویا مولانا علی میاں رحمہ اللہ کا مولانا کو "ندوی” لکھنا "سلمان منا أھل البیت” کے قبیل سے تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ دار العلوم ندوۃ العلما میں آپ کو کچھ تدریسی خدمات بھی دی گئیں تھیں، جہاں آپ دس سال تک نہایت محنت اور جاں فشانی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔1982ء میں مولانا وحیدالزمان قاسمی کیرانوی رحمہ اللہ نے آپ کو دارالعلوم دیوبند بلا لیا جہاں آپ اس وقت سے تا مرگ عربی ماہنامہ "الداعی” کی ادارت کرتے رہے، ساتھ ساتھ عربی زبان و ادب کی تدریس کا سلسلہ بھی رہا، اور ہزاروں تشنگان علم و ادب کو سیراب کرتے رہے۔
مولانا کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی؛ لیکن اس کے باوجود اپنے اصولوں کے پابند رہے اور جو بھی کام کرتے اس کا حق ادا کر دیتے تھے، اور اپنے طلبہ کو بہت محبوب رکھتے تھے، ان کو صرف پڑھاتے ہی نہیں تھے؛ بلکہ ان تربیت بھی کرتے تھے، یہی وجہ ہے آج جبکہ مولانا ہمارے درمیان نہیں ہیں تو دنیا میں پھیلے ہوئے ان کے شاگرد خون کے آنسو رو رہے ہیں، اور واقعہ یوں ہے کہ
یہ جو اشکوں کا رنگ لال لال ہے پیارے
بتا رہا ہے کیا دل کا حال ہے پیارے
"الداعی” کا اداریہ اپنے گوناگوں خصوصیات کی وجہ سے کافی مقبول تھا جس میں مولانا نہایت جرأت کے ساتھ لکھتے تھے، خصوصاً مشرق وسطی کے حالات اور بیت المقدس کی اسیری، اور فلسطینی اقوام کی بے بسی پر خوب لکھتے تھے، دنیا کی حکومت کے ٹھیکیداروں، اور امن و شانتی کی آڑ لے کر ظلم و استبداد کی ہولی کھیلنے والوں کو اپنے تیز و تند قلم سے برابر نشانہ بناتے رہے، یہ مولانا کی ہی جرأت تھی کہ اپنے ایمان، اپنے قلم کا سودا نہیں کیا، ہمیں اس دور میں بڑی حیرت ہوتی کہ مولانا ایمانی جرأت کے ساتھ کیسے ان نفرت کے سوداگروں کو نشانہ بناتے ہیں؛ جبکہ ایسے حالات میں اچھے اچھوں کو ابن الوقت بنتے دیکھا ہے کہ مصلحت کی آڑ لیکر عین وقت پر باطل قوت کے سامنے سر نگوں ہوجاتے ہیں، یا کم از کم ایسی خاموشی دھار لیتے ہیں جس سے پوری ملت چیں بہ جبیں ہو جائے؛ لیکن مولانا کا قد ان بونوں میں بہت اونچا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ مولانا کی تحریروں میں صرف اس ایمانی جرأت کا ہی نمونہ ملتا تھا؛ بلکہ آپ کی عربی بھی بہت فصیح و بلیغ تھی کہ قاری "واہ” کہے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ یقیناً مولانا کا اسلوب نگارش البیلہ تھا، تعقید لفظی و معنوی سے خالی، لفظوں کا شاندار انتخاب، سلاست و روانی کی بہترین مثال آپ کی تحریروں کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ مولانا کی تحریروں کا میں تجزیہ نہیں کر سکتا؛ بلکہ اہل نقد و نظر کو سنا اور پڑھا ہے جنہوں نے مولانا کی ان امتیازی خصوصیات کا دل کھول کر اعتراف کیا ہے۔جہاں مولانا کا عربی قلم اتنا گہر بار تھا وہیں اردو قلم بھی انہیں خصوصیات کا حامل تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ کے قلم سے بیسیوں عربی اردو کتابیں ظاہر ہو کر مقبول خاص و عام ہو چکی ہیں۔ درحقیقت مولانا کی علمی زندگی کے بے شمار پہلو ہیں جن پر الگ الگ حیثیت سے ریسرچ کیا جا سکتا ہے۔
مولانا عربی کے مایایہ ناز ادیب ہی نہیں تھے؛ بلکہ آپ کی زندگی کا دوسرا نمایاں پہلو یہ تھا کہ آپ اخلاص للہیت کے پیکر اور مسلک دیوبند، مسلک اہل سنت والجماعت کے ترجمان بھی تھے، "الداعی” کے صفحات میں آپ کے قلم سے افکار قاسمی و گنگوہی اور ملفوظات تھانوی و مدنی کی ترجمانی بھی خوب تھی جو تسلسل کے ساتھ شائع ہوتی رہتی تھی۔ حضرت قاری طیب صاحب رحمہ اللہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کی گراں قدر تصنیف "علما دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج” کا شاندار عربی ترجمہ بھی کیا ہے؛ جس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مسلک دیوبند یا دیوبندیت کوئی نیا مسلک یا طور طریقہ نہیں؛ بلکہ عین مسلک اہل سنت والجماعت ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ "الداعی” کے تمام پرچوں کو انٹرنیٹ پر اپلوڈ کردیا جائے مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ ایک بار میں "الداعی” کے دفتر گیا مجھے شیخ بدرالحسن قاسمی کی ادارت والے "الداعی” کی ضرورت تھی مگر وہاں سے جواب ملا کہ اس کے نسخے محفوظ نہیں ہیں، مجھے بڑا قلق ہوا؛ وہیں علی گڑھ کی "آزاد لائبریری” میں ایک گوشہ سر سید ہے جہاں ان کے اور ان پر کئے سارے کام ایک جگہ دستیاب ہیں، وہاں کے انچارج نے ہمیں "تہذیب الاخلاق” کی کاپیاں دکھائیں جن پر ایک موٹے کاغذ کی کوٹیشن کی گئی تھی تاکہ اس کے اوراق خراب نہ ہوں، دوسری دلچسپ بات جو انہوں نے بتائی وہ یہ تھی کہ ہمارے پاس جو پرچے نہیں تھے ہند و پاک کی مختلف لائبریری سے رابطہ کرکے منگوا لیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اپنے سرمایہ کو محفوظ کرنے کے لئے دارالعلوم ایسا نہیں کر سکتا؟ ہمیں امید کہ موجودہ دور و حالات سے ہم آہنگ ہونے کے لئے دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ اس پر غور کرے گی۔
مولانا کی وفات علمی و ادبی دنیا کے لئے خصوصاً دارالعلوم دیوبند کے لئے ایک بہت بڑا خلا ہے جو یقیناً یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ پر نہیں ہوگا؛ لیکن مشکل ضرور نظر آتا ہے۔مولانا کے لئے سچی خراج عقیدت یہ ہوگی کہ ہم نے مولانا سے جو سیکھا ہے اس کو اپنی عملی زندگی میں اپنائیں، اور مولانا کے لئے اپنی شب و روز کی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ مولی تو مولانا کی بال بال مغفرت فرما اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرما اور دارالعلوم دیوبند کو ان کا نعم البدل عطا فرما!