آہ! قاری سعید احمد صاحب مئوی

تین چار روز سے عجیب کشمکش میں زندگی گزر رہی ہے، کسی کَل اور پل چین نہیں، سونے کو سو کو تو سو لیتے ہیں مگر نیند نہیں آتی، گویا دل کا قرار متاع گم گشتہ ہو گیا، کوئی امید بھی اب بر نہیں آتی، ایسے میں کسی صورت کا نظر آنے کا کیا سوال بنتا ہے، حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں، چہ جائیکہ موت کا وقت معین ہے مگر جانے والے کبھی کبھی بہت رلا دیتے ہیں، اور جو موت کے انتظار میں ہیں ان کی حالت دیکھ کر اپنے کو سنبھالا  دینا   دوسروں کو  دلاسا   دینا، آدمی کے کمزور اور ناتواں کندھے پر کوہ گراں کے مانند ہے۔

دادا (حضرت قاری ظفر علی صاحب) کی طویل علالت، اور دو تین دن سے موت و حیات کی کشمکش میں زندگی گزرنا، ہم جیسوں کے لئے یہی بڑے سخت لمحات تھے کہ ایک اور جانکاہ خبر سے دل سکستہ ہو گیا، تصحیح قرآن کے سلسلے میں مسجد مسجد، قریہ قریہ مکتب قائم کرنے کی تحریک میں دادا کے دست راست مولانا قاری سعید احمد صاحب چند روز کی علالت کے باعث تقریباً پچاس سال کی عمر میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے، یہ ایسے حالات ہیں جس نے آنکھوں کی نیندیں اور دل کا قرار چھین لیا ہے۔

دامن ضبط کو اشکوں میں بھگو لیتا ہوں

درد جب حد سے گزرتا ہے تو رو لیتا ہوں

آنکھ لگتی ہی نہیں نیند کہاں سے آئے

نیند آتی نہیں کہنے کو تو سو لیتا ہوں

شکیب بنارسی

کسی کام کو آگے بڑھانے کا   ایک خواب ہوتا ہے جسے شرمندہ تعبیر ہونا ہوتا ہے، اس کے لئے افراد ہوتے ہیں جو یکے بعد دیگرے زنجیر کی کڑی کی طرح مسلسل ہوتے ہیں، لیکن کبھی کبھی زنجیر بیچ سے ہی ٹوٹ جاتی ہے  اور کڑیاں بکھر جاتی ہیں۔ حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب زید مجدہ    ماضی قریب کی  ایک ملاقات میں دادا کی   علالت اور ضعیفی کو دیکھتے ہوئے  ایک بات کہی تھی کہ قاری صاحب نے جو سلسلہ چلایا ہے آپ لوگ اس کو آگے بڑھائیے گا، اور اس سلسلے میں جو سب سے فعال اور متحرک شخصیت تھی  وہ قاری سعید احمد صاحب کی تھی جو اس کام کو بحسن و خوبی انجام دے رہے تھے، قرآن کے بڑے  بے لوث خادم تھے، ایک بے مثال منتظم تھے، میں نے ایسے لوگ کم دیکھے ہیں،تقریب ختم قرآن میں دادا   اور قاری سعید صاحب تو تقریبا   ہر مکتب میں حاضری دیتے تھے  اور  درمیان سال بھی جائزہ لینے جاتے تھے  اور اساتذہ   اور بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے، کمیوں کو دور کرنے پر توجہ دلاتے، ختم قرآن کی بہت سی تقریب میں مولانا   مجھے بھی لے جاتے تھے، جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان کی کیا خدمات ہیں، اسی طرح کی ایک تقریب میں ایک گاؤں میں- جو مئو اور کوپا گنج کے درمیان واقع ہے- لے گئے اس وقت میرے حیرت کی انتہا نہ رہی کہ علم و عمل کا گہوارہ  کہے جانے والے  علاقہ میں ایک جگہ بلکہ انیک جگہیں ایسی ہیں جہاں مسلمان آباد ہیں، جہاں ایک صاحب خیر نے مسجد بنوائی اور اس میں مکتب قائم کیا، پورے علاقے میں کوئی نماز پڑھانے والا نہیں تھا، ایک صاحب کئی کلو میٹر دور سے سائیکل چلا کر نماز پڑھانے اور مکتب میں تعلیم دینے کے لئے آتے تھے، ایسے جگہوں پر جاکر زمینی سطح پر کام کرکے ان کے ضروریات دین کی فکر کر نا بغیر کسی دنیاوی غرض سے یقینا یہ ایک عظیم عمل ہے  جو انہی لوگوں کا خاصہ تھا۔

قاری سعید صاحب زنجیر کی بیچ کی کڑی تھے جو ٹوٹ گئی جس کی کڑیاں بکھر گئی، مگر اپنے پیچھے اپنے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد چھوڑ گئے، جن کو سہارا تھا کہ ان کا کوئی سرپرست ہے مگر اب خود ان کے شاگردوں کو اس کاز کو آگے بڑھانا ہوگا، اور اللہ بڑا کارساز ہے۔

(۱۳/ جون ٢٠٢٠ء کو مولانا قاری سعید احمد صاحب کا انتقال ہوا تھا اس کے ایک دن بعد یہ تحریر لکھی گئی تھی، اس وقت دادا محترم حضرت قاری ظفرعلی صاحب باحیات تھے، مگر ١٤/اگست ٢٠٢٠ء کو وہ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے، اللہ انہیں جنت  الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے!)

اشتراک کریں