فصل خزاں میں پھول اگاتا رہا ہوں میں
دکھ میں بھی سکھ کے گیت سناتا رہا ہوں میں
اللہ نے عطا کی ہے آواز تو اسے
ہر ظلم کے خلاف اٹھاتا رہا ہوں میں
اب تو غموں سے عشق و محبت سی ہے مجھے
عادت خوشی کی دل سے چھڑاتارہا ہوں میں
ہر وقت میری ذات سے نفرت کرے بھی تو
اس کو قریب اپنے بلاتا رہاہوں میں
جب مفلسی نے مجھ کوگرفتارکر لیا
ہر خواہشات اپنی سلاتا رہا ہوں میں
دشمن نے یار بن کے میرا چین لے لیا
تکلیف دے کے خود کو رلاتا رہا ہوں میں
نفرت کی آگ اس نے لگائی ہوئی تھی جو
اس آگ کو ابھی بھی بجھاتا رہا ہوں میں
طوفان نفرتوں کا ہےاس شہر میں اٹھا
الفت کی داستان سناتا رہاہوں میں
عامر ظفر ایوبی