وہ جن کے لیے ہم تو اندھیروں سے لڑے ہیں
قوت ملی تو آج مخالف وہ کھڑے ہیں
ہنس دیتے ہیں وہ دیکھ کے خود دشمن جاں کو
گفتار کے کردار کے جو لوگ بڑے ہیں
جی خوش ہوا پڑھ کر کے تسلی ہوئی دل کو
"خط ایسا لکھا ہے کہ نگینے سے جڑے ہیں”
ایمان ہو تو روشنی گھر کرتی ہے دل میں
ورنہ کئ ہوشیار بھی گمراہ پڑے ہیں
"جو چھوڑ دیا پھر اسے مڑ کر نہیں دیکھا”
احباب ہمارے بھلا کیوں ضد پے اڑے ہیں
دوچند ہوئی تشنہ لبی دیکھ کے میری
دریاؤں کے نزدیک بھی سب خالی گھڑے ہیں
شاہد نے بھی دیکھا ہے یہ زردار کے در پہ
صف بستہ کئی صاحب دستار کھڑے ہیں