رنگِ محفل سجی، کیا بہار آگئی!
آج موسم کا بھی دل دھڑکنے لگا
ہر طرف نور و نکہت کی رعنائیاں
ہر سو ہر رخ ہے گلفام ہر رخ کنول
ڈالی ڈالی یوں گلشن کی مدہوش ہے
چھیڑ دی جیسے بلبل نے کوئی غزل
جام صہبائے الفت چھلکنے لگا
آج موسم کا بھی دل دھڑکنے لگا
کن خیالوں میں کھوئے ہیں عابد عزیز
آپ کو کیا حسیں ہمسفر مل گیا
زندگی کو وہ رنگیں سہارا ملا
اب تو نکہت کو بھی ناخدا مل گیا
دو ڈھڑکتے دلوں کا ملن کیا ہوا
پیار و الفت کا ساگر چھلکنے لگا
کہہ رہے ہیں انیس اپنے فرزند سے
صد مبارک تجھے تیرا رنگیں سفر
والدہ ہاجرہ بھی ہیں محو دعا
خوش رہے، سکھ جیئے ان کا نورِ نظر
آج نوشہ کے گھر کون مہماں ہوا
کوچہ کوچہ معطر مہکنے لگا
پیارے نانا منیر آئے دینے دعا
رب کرے ان کی ہو یہ دعا با اثر
پیاری نانی ہیں جنت میں شاد و مگن
جشنِ شادی سے مسرور ہے ان کا گھر
گھر یہ جنت نما، آج لگنے لگا
ہر طرف ابرِ رحمت برسنے لگا
آج حمیرا کا ہے مہکا مہکا سا من
شاداں شاداں ہے ذکریٰ و حسنیٰ کا من
سنگِ نکہت یہ حضرت وکیل آگئے
لے کے سوغاتِ الفت سرِ انجمن
آج کا دن یہ مستی میں ڈھلنے لگا
پیار و الفت کا ساگر چھلکنے لگا
شاد ماموں شکیل، شاداں ہیں ہاجرہ
جشنِ شادی کی محفل میں سب شاد ہیں
شادمانی کی ایسی لہر ہے اٹھی
بچے بچے، جواں، مرد و زن شاد ہیں
مست و مسرور موسم کا جادو چلا
سب کا ذوقِ نظر ہے بہکنے لگا
لب پہ دانش کے ہے آفریں آفریں
اور خیالوں میں شاہد بھی گم ہیں کہیں
دل میں ثاقب کے ہیں آج جذبے جواں
لب پہ ساجد کے لبنیٰ کے نغمے حسیں
بیٹی نورین کا چہرہ کھلنے لگا
ذرہ ذرہ خوشی سے چمکنے لگا
اگئے راہِ محفل جمال و کمال
ان کی آمد سے سب پر نکھار آگیا
دیکھو بیٹھے ہیں وامق بھی، سائق بھی ہیں
دل میں اذکیٰ کے دیکھو قرار آگیا
پھول راہوں میں سب کی بکھرنے لگا
گوشہ گوشہ چمکنے مہکنے لگا
جذبۂ شکر اشتیاق کا دیکھئے
دخترِ نیک رختِ سفر ہوگئی
آج سائِرہ خاتون سجدے میں ہیں
دل سے نکلی دعا معتبر ہو گئی
نرم پلکوں پہ گوہر مچلنے لگا
یوں عقیدت کا ہے ساز چھڑنے لگا
تذکرہ جب چمن کے گُلوں کا چھِڑا
سب سے سر دست شاہد جمال آگئے
بات کیسے بڑھے گی حذیفہ بغیر
جن کے آگے سبھی گُل ہیں شرماگئے
تذکرہ ان گُلوں کا جو ہونے لگا
اِک نیا ساز محفل میں چھڑنے لگا
دل مسرت کا معمور سے شوق سے
پیاری نصرت بھی فرحت بھی کچھ کم نہیں
بات فیروزہ خاتون کی ہے چلی
پھر جمیلہ شکیلہ بھی کچھ کم نہیں
ذکر منظوم، لَے میں پرونے لگا
رہ ذرہ خوشی سے چمکنے لگا
ذکرہ باقی عزیزہ، فریدہ کا تھا
ختم ارشاد اور سائرہ پر ہوا
ایک کے بعد اِک نام شامل ہوئے
اس طرح تذکرہ اب مکمل ہوا
ذکر ان کا جو محفل میں ہونے لگا
ذرہ ذرہ خوشی سے چمکنے لگا
مثلِ مہتاب، مانندِ لعل و گہر
یہ گلستاں ہمیشہ نکھرتا رہے
دولھا دلہن کے دل میں الٰہی سدا
گُل عقیدت، محبت کا کھلتا رہے
اہلِ دل کی دعاؤں کا ثمرہ ملا
بختِ نوشہ اُجَلنے چمنکنے لگا