ابن کنول صاحب بہت یاد آئیں گے میرے پسندیدہ قلمکاروں میں سے تھے۔ اسلوب نگارش قابل داد و دید سنڈے میگزین (انقلاب) میں ان کا انشائیہ ضرور پڑھتا تھا، بڑا پرلطف اور طنز ومزاح سے معمور انشائیہ ہوتا تھا۔
دراصل انشائیہ ایسی شخصی تحریر ہوتی ہے جس میں مصنف کی شخصیت پوری طرح جلوہ گر ہوتی ہے، اسی طرح انشائیہ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ایسی تحریر ہے جس میں کسی اہم یا غیر اہم واقعے کسی خیال, کسی جذبے کو پرلطف انداز میں پیش کردیا جائے۔
انشائیہ میں حکمت وحماقت اور مقصدیت وبے مقصدیت اس طرح آپس میں گتھ جاتے ہیں کہ ان کا الگ کرنا ناممکن ہوجائے۔ (تاریخ ادب اردو پروفیسر نورالحسن نقوی )
اس تناظر میں دیکھنے سے پروفیسر ابن کنول کا انشائیہ نہایت مہتم بالشان اور کامیاب نظر آتا ہے
ابھی گزشتہ سے پیوستہ برس انہوں نے ایک ندوی پروفیسر صاحب کا نہایت شاندار خاکہ لکھا تھا اس خاکے میں پروفیسر صاحب کے نقوش اس طرح ابھارا کہ انکی جیتی جاگتی تصویر قاری کے سامنے پیش ہوگئی اور ایسا لگا کہ خاکہ نگار نے انکے مردہ جسم میں جان ڈال کر نگاہوں کے سامنے لا کھڑا کردیا جسے پڑھ کر ہرایک قاری جھوم جھوم اٹھا ہوگا۔
پروفیسر ابن کنول کا اصل نام ناصر محمود کمال ہے انکی ولادت اترپردیش کے ضلع مرادآباد قصبہ بہوئی بہجوئ میں ۱۵اکتوبر ۱۹۵۷عیسوی کو ایک زمیندار خاندان میں ہوئی، والد محترم مشہور شاعر قاضی شمس الحسن کنول ڈبائیوی تھے
یہ وہی قصبہ ہے جہاں اردو زبان وادب کی کئ عظیم ہستیاں پیوست خاک ہیں جسمیں انتظار حسین اور ندا فاضلی کا نام سر فہرست ہے۔
پروفیسر ابن کنول نے اپنے دور کے مشہور ومعروف اساتذۂ علم وفن سے کسب فیض کیا اساتذہ میں پروفیسر خورشید الاسلام، قاضی عبدالستار، خلیل الرحمن اعظمی، شہر یار نورالحسن نقوی، خواجہ احمد فاروقی اور پروفیسر قمر رئیس وغیرہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا.
علی گڑمسلم یونیورسٹی سے ایم اے مکمل کرنے کے بعد دبستان دہلی کی خوشہ چینی کی، پروفیسر ابن کنول کی خدمات نصف صدی کا احاطہ کئے ہوئے ہے، پروفیسر ابن کنول کی وفات پر جناب اختر الواسع نے بجا کہا کہ
"اردو زبان میں داستان گوئ کی تاریخ کا حرف آخر ہمارے بیچ سے اٹھ گیا”
پروفیسر ابن کنول اردو کی داستان گوئی پر درجہ استناد رکھنے والے شخصی خاکہ نگاری میں امتیازی حیثیت کے مالک، اردو زبان وادب کے بے لوث خادم اور ایک بہترین انشاء پرداز تھے۔
آپ کی ماتحتی اور زیر اشراف سیکڑوں طلبہ وطالبات نے اپنے مقالے اور مضامین لکھ کر کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہوئے۔
خود پروفیسر ابن کنول علیہ الرحمہ اب تک کی زندگی میں مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائ کرکے متعدد تحقیقی, تنقیدی، علمی وادبی شہ پارے قارئین باتمکین کی خدمت میں پیش کرکے داد تحسین بٹور چکے ہیں پروفیسر ابن کنول تیس سے زائد کتابیں علمی حلقوں کے مابین چھوڑ کر راہی ملک عدم ہوگئے جس میں ریاض دلربا (تحقیق) پہلے آپ (ڈرامہ)آؤ اردو سیکھیں (قاعدہ)اردو افسانہ (افسانوی تنقید)تنقیدی اظہار (تنقید)وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ بحوالہ روزنامہ انقلاب ۱۲فروری ۲۰۲۳بروز اتوار ص ۲قومی خبریں
راقم الحروف ابن کنول کی شخصیت کے متعلق پہلے بہت مشکوک تھا لیکن اتفاق سے ایک دن کنول ڈبائیوی کے متعلق پڑھتے ہوۓ ذہن اس طرف گیا کہ ابن کنول نسبت دراصل اسی قومی شاعر شمس الحسن کی جانب ہے جسے ادرو داں حلقہ کنول ڈبائیوی کے نام سے جانتی ہے
زمانۂ طالب علمی ہی سے پروفیسر ابن کنول کی علمی کاوشیں ملک کے معروف ادبی رسالوں میں شائع ہونے لگی تھیں جن میں شاعر,عصری ادب ,آہنگ ,صبح ادب وغیرہ قابل ذکر ہیں آغاز میں ناصر کمال کے نام سے لکھتے تھے لیکن ۱۹۷۵میں ابن کنول کے نام سے افسانے لکھنے لگے
حصول علم کے زمانے سے ہی ابن کنول علمی وادبی دنیا میں اپنی شناخت قائم کرچکے تھے ڈاکٹر تنویر احمد کی زیر نگرانی (بوستان خیال کا تہذیبی ولسانی مطالعہ)کے عنوان سے تحقیقی مقالہ پیش کیا اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا
ڈاکٹر عزیز احمد اپنےمضمون ,تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئ؛میں ابن کنول کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوۓ رقمطراز ہیں
"علمی ومنصبی حصولیابیوں کے باوجود ابن کنول ایک سادہ زندگی گزارنے کے قائل تھے وہ ایک ملنسار ہنس مکھ انسان تھے کہتے ہیں کہ درخت پر پھل آتے ہی اسکی شاخیں جھک جاتی ہیں ابن کنول کی حیثیت بھی ایسے پھل دار درخت کی تھی جسکی شاخیں اپنے شاگردوں اور احباب کے لئے جھکی رہتی ہیں ” (روزنامہ انقلاب ص ۷ مہمان قلمکار)
بہرحال اردوزبان و ادب کا یہ نیر تاباں اپنی تمام تر ضوفشانیوں کے ساتھ بروز ہفتہ مورخہ ۱۱/۲/۲۰۲۳ علی گڑھ سے واپس ہوتے ہوۓ راستے میں غروب ہوگیالیکن اپنی ضیاپاش کرنوں سے اطراف عالم اردو کو منور کرگیا۔
سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑجاؤنگا
روزنامہ انقلاب کی خبروں سے یہ معلوم ہوا کہ ابھی حال ہی میں عمرہ کی سعادت حاصل کر کے وطن واپس لوٹے تھے