مطالعہ انسان کی فکری ترقی، اخلاقی بلندی اور شعوری بیداری کا ذریعہ ہے۔ یہ نہ صرف علم کے دروازے کھولتا ہے بلکہ انسان کو ماضی کے تجربات، حال کے حقائق اور مستقبل کے امکانات سے روشناس کرتا ہے۔ مطالعہ ذہن کو جِلا بخشتا ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو نکھارتا ہے اور شخصیت میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔ جو قومیں مطالعہ کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بناتی ہیں، وہ ترقی و کامیابی کی منازل تیزی سے طے کرتی ہیں۔ کتاب انسان کی بہترین دوست، مخلص رہنما اور خاموش معلم ہے، جو ہر وقت سیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
مطالعہ کا معنی و مفہوم
کتبِ لغت میں مطالعہ کے کئی ایک مفاہیم ملتے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
- مطالعہ کا مادہ طلوع ہے اور طلوع پردۂ غیب سے عالم ظہور میں آنے کو کہتے ہیں اس لئے کہا جاتا ہے طلعتِ الشمس یعنی سورج عالم ظہور میں طلوع ہوا اور مطالعہ باب مفاعلہ سے ہے اور مفاعلہ میں جانبین سے برابر کے علم کو کہا جاتا ہے اب مطالعہ کا معنی یہ ہوا کہ اِدھر طالب نے اپنی پوری توجہ کتاب کی طرف مبذول کی اور اٖدھر کتاب نے طالب کو اپنے فیوض و برکات سے نوازا، اب دونوں کے مابین گہری دوستی ہو جاتی ہے۔
- بذریعہ تحریر مصنف و مؤلف کے مراد سمجھنا مطالعہ کہلاتا ہے۔ ( ابجد العلوم ص ۲۱۸)
- انتہائی غور و فکر سے پڑھنا مطالعہ ہے، باب مفاعلہ کا مصدر ہے اس کا اصل معنی ہے ایڑی اٹھا کر کسی چیز کو دیکھنا ،
طالعت الكتاب – طالعت الشيء– (مطالعہ اور مضمون نگاری۔ مضمون نگار ابو العاص وحیدی)
مطالعہ کی اہمیت
کتب بینی ذہنی تسکین علمی استعداد اور نئے خیالات کیلئے ضروری وصف ہے، کتاب پڑھنے کے عادی جب تک مطالعہ نہ کریں ان کو چین نہیں ملتا، کتب بینی کیف و سرور کا سر چشمہ’ علم میں اضافہ کرنے کے ساتھ’ اعمال و عادات میں بہتری کا وسیلہ ہے، اچھی کتاب کا مطالعہ انسان میں مزید اچھے اوصاف پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے ۔
کتب بینی’ خطابت و صحافت اور تدریس وغیرہ میں بڑی سہولت کا سبب ہے۔ اس طرح مطالعہ کی وجہ سے آدمی اپنے اندر خود اعتمادی محسوس کرتا ہے۔
مطالعہ اور ہمارے اسلاف
اللہ سبحان وتعالی نے سب سے پہلی وحی إقراء بسم ربك الذي خلق خلق الإنسان من علق إقراء وربك الاكرم الذى علم بالقلم علم الإنسان مالا يعلم نازل کر کے علم اور کتاب و قلم کی اہمیت بتادی، بنا بریں ہمارے اسلاف میں کتابوں سے حددرجہ عقیدت کتابیں جمع کرنے کا شوق اپنے ذاتی کتب خانے وسیع سے وسیع تر کرنے کی جستجو نمایاں رہی ہے اور شیفتگی کا یہ عالم تھا کہ اس سلسلے میں وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے، چنانچہ چھٹی صدی ہجری کے حنبلی عالم ابن الخشاب کے بارے میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ موصوف نے ایک دن ایک کتاب ۵۰۰ درہم میں خریدی، قیمت ادا کرنے کیلئے کوئی چیز نہ تھی لہذا تین دن کی مہلت طلب کی اور مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر مکان فروخت کرنے کا اعلان فرمادیا اور اس طرح اپنے شوق مطالعہ کی تکمیل کی۔( ذیل طبقات الحنابله 2/35 بحوالہ مکتبہ شاملہ)
سرورِ علم ہے کیف شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
ابن الجوزی فرماتے ہیں:
إذ وجدت کتابا فکانی وقعت علی کنز یعنی اگر مجھے کوئی کتاب ملتی تو گویا مجھے خزانہ حاصل ہو جاتا۔
اسی طرح آپ مزید فرماتے ہیں کہ
طبیعت کتابوں کے مطالعہ سے کسی طرح سیر نہیں ہوتی۔ اگر میں اپنے مطالعہ کے بارے میں حق بیان کرتے ہوئے یہ کہوں کہ میں نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں بیسں ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا تو میرا مطالعہ زیادہ نہ ہوگا، مجھے ان کتابوں کے مطالعہ سے سلف کے حالات واخلاق، ان کی قوت حافظہ، ذوق عبادت اور علوم نادرہ کا ایسا علم حاصل ہوا جو ان کی کتابوں کے بغیر نہیں حاصل ہو سکتا تھا ۔ (قيمة الزمن عند العلماء ص 62)
یہ تھے ہمارے اسلاف جن کو کتب بینی سے حد درجہ شیفتگی تھی، بنابریں انہوں نے مختلف علوم وفنون کا ایک ابنار دنیا کے سامنے لگا دیا۔
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پہ آسماں نے ہم کو دے مارا
مطالعہ کی نوعیت
یہ سچ ہے کہ "خیر جليس في الزمان کتاب” سب سے بہتریں ساتھی کتاب ہے، اب انسان کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ کیسا ہم نشیں منتخب کرتا ہے، اگر اسکا ساتھی اچھا ہے تو اسکی صحبت و رفاقت اسکے لئے نفع بخش اور کارآمد ہوتی ہے اور اس کی شخصیت کا چھاپ اس پر پڑے گا لوگ اسکے کردار کی رفعت اور اخلاق کی بلندی کی گواہی دیں گے، جیسا کہ کہا جاتا ہے عن المرء لا تسأل وسأل عن قرينه (عمر اليافى)
جب یہ بات معلوم ہے کہ کتاب سب سے بہترین ساتھی ہے تو قاری کے لئے ضروری ہے کہ سب سے بہترین ساتھی کے اوصاف و کمال کا تعین کرے، تاکہ کسی دھوکے کا شکار نہ ہو اور ایسی کتابوں کا مطالعہ کرے جس سے اسکی شخصیت سنورے اور ذہنی بالیدگی میں اضافہ ہو، چنانچہ اس ضمن میں جو باتیں نہایت کار آمد ہوسکتی ہے وہ یہ ہیں:
- ہم ایسی کتابوں کا انتخاب کریں جو معیاری اور مستند ہوں تا کہ ہماری واقفیت میں صحیح طور پر اضافہ ہو سکے۔
- انہیں موضوعات کی کتابوں کا انتخاب کیا جائے جن سے دلچسپی ہو اور جن کی زندگی میں ضرورت پڑتی ہے۔
- جو کچھ پڑھا جائے سوچ سمجھ کر پڑھا جائے اور اسے ذہن میں محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے ۔
- ہو سکے تو جو کچھ پڑھیں اس کا خلاصہ نوٹ کرتے جائیں اور خاص خاص باتیں تو ضرور نوٹ کر لیں۔
- سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو کچھ پڑھا جائے اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے ۔
- درسی غیر درسی کتابوں کے مطالعہ کا نظام بنا لینا چاہئے۔
مطالعہ کے فوائد
کتب بینی کا شوق انسان کے اندر خود بخود پیدا نہیں ہوتا ہے اس کے لئے مشق و ممارست کرنی پڑتی ہے، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اس خوبی کو پروان چڑھانے میں اسکے فوائد کا بہت موثر کردار ہوتا ہے کیونکہ انسان جو کام کرتا ہے اسکے پیچھے مقاصد پوشیدہ ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہے، اگر وہ مقاصد انسان کے فوائد کے حصول میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں تو وہ اس عمل کو پیہم کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ حصوں منفعت میں انتہاء کو پہونچ جاتا ہے، یہی معاملہ کتب بینی کا بھی ہے کہ اس کے بے شمار جسمانی و روحانی اور مالی فوائد سے انکار کی گنجائش قطعا نہیں۔
امریکی محکمۂ تعلیم کے ایک سروے کے مطابق مطالعہ کرنے والے بچوں میں اعتماد یا داشت اور قائدانہ صلاحیتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق با قاعدگی سے کتب بینی کرنے والے افراد نہ صرف روزانہ کوئی نہ کوئی نئی بات سیکھتے ہیں بلکہ ان کی معلومات اور ذہانت کا معیار بھی دیگر افراد کی نسبت بہتر ہوتا ہے۔ مطالعہ کے متعدد قسم کے فوائد مندرجہ ذیل ہیں :
- علم میں اضافہ ہوتا ہے
- زبان و بیان پر قدرت حاصل ہوتی ہے۔
- کتب بینی سے مختلف دور کی معاشرت سے واقفیت حاصل ہوتی ہے قاری کو وہ کچھ معلوم ہو سکتا ہے جو عملی تجربہ سے نہیں ہوتا۔
- کتب بینی ہی سے تمام علوم خواہ وہ سائنس ہو، جغرافیہ ہو، تاریخ ہو، معاشیات یا منطق و فلسفہ ہو یا کچھ اور سب کے بارے میں گہری واقفیت حاصل ہوتی ہے۔
- کتب بینی کا مطلب ہے دوسرے لوگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا اور انسانی زندگی کا یہی سب سے بڑا کارنامہ ہوسکتا ہے کہ وہ دوسروں کے تجربات سے فائد اٹھائے۔
غرض کہ کتب بینی کے بے شمار فوائد ہیں مذکورہ بالا تحریر سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ کتب بینی ایک مہتم بالشان عمل ہے، جس سے جسمانی روحانی استعداد میں اضافہ کے ساتھ بلند نظری، دقیق مسائل کے فرق و امتیاز کے اوصاف پروان چڑھتے ہیں، ساتھ ساتھ دور اندیشی اور فراست جیسی خوبیاں بھی پیدا ہوتی ہیں، بنا بریں ہمارے اسلاف اور کتب بینی کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، ظاہر ہے اس وصف کے خاتمے میں جہاں مصروفیات و مشغولیات کا ہاتھ رہا ہے وہیں ظاہری چمک دمک نے سب سے زیادہ اس شوق کو نقصان پہنچایا ہے۔
آئیے اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ ہمارے معاشرے میں کتب بینی کا شوق کیوں ختم ہوتا جا رہا ہے؟
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ ہمارے معاشرے میں مطالعہ و کتب بینی کا شوق بتدریج ختم ہوتا جا رہا ہے، عالم یہ ہے کہ بہت کم ایسے افراد ملتے ہیں جنہوں نے ایک سال کے دوران تیں چار کتابیں پڑھے ہوئے ہوں۔
بعض لوگ کسی رسالے کے مطالعہ کو کتاب کے مطالعہ کے مترادف سمجھتے ہیں جبکہ بعض دوسرے اخبار بینی اور کتب بینی میں زیادہ فرق نہیں کرتے بلکہ اخبار بینی کو کتب بینی کا متبادل سمجھتے ہیں۔
خیر جہاں تک ہمارے معاشرے کا تعلق ہے اس میں کتب بینی کا رجحان بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے یہاں تک کہ اب ختم ہونے کے دہانے پر ہے، اس تعلق سے شاہد لطیف اپنے کالم "موبائل اور انٹرنیٹ کسی بھی زاویے سے کتاب کا نعم البدل نہیں ہیں” کے تحت لکھتے ہیں :
شوق کتب بینی کو پہلے تو نقصان پہنچایا ٹیلی ویژن اور اسکے ملٹی سسٹم نے، اس کے بعد موبائل اور انٹرنیٹ نے رہی سہی کسر پوری کر دی، ممکن تھا کہ لوگ پہلے ٹی وی سے اور بعد کے دور میں موبائل اور انٹرنیٹ سے بے اعتنائی نہ برتتے مگر وقت مخصوص کر دیتے کہ اتنی دیر موبائل اور انٹرنیٹ کے ساتھ رہیں گے اور اتنی دیر کتاب پڑھنے میں۔
آج صورت حال یہ ہے کہ وہ لوگ جو کل تک کتا ہیں پڑھتے تھے اب یوٹیوب، واٹساپ فیسبک وغیرہ پر کئی گھنٹے گزار دیتے ہیں جس کا مطلب صاف ہے کہ انہوں نے وہ وقت جو کتاب کے مطالعہ میں گزارتا تھا اب میڈیا، سوشل میڈیا کی نذر کر دیا۔
اس کا ثبوت انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی مجموعی تعداد سے ملتا ہے جو چین کے بعد سب سے زیادہ ہندوستان میں ہے۔
ایک اندازے کے مطابق چین میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد ایک سو پانچ ارب جبکہ ہندوستان629 ملین ہے۔ ( انقلاب ص 12 ادب و ثقافت ۔ سنڈے میگزین مورخہ 4 دسمبر یکشنبه)
مذکورہ تحقیق سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہمارا معاشرہ کتب بینی کے بجائے سوشل میڈیا کا عادی ہو چکا ہے جو اچھا شگون نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اور صحت مند معاشرہ کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اسکے افراد میں ذوق کتب بینی بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے کیونکہ اس سے تحقیق و تفتیش کی راہیں کھلتی ہیں اور پیچیدہ مسائل کی گرہ کشائی بھی اسی سے ہوتی ہے۔آج جو مدارس و جامعات اور تعلیمی ادارے انحطاط کا شکار ہیں’ اس کے جہاں بہت سارے اسباب و عوامل ہیں اس میں ایک اہم سبب اساتذہ میں ذوق کتب بینی کا فقدان بھی ہے، حالت بایں جا رسید کہ بڑے بڑے تعلیمی ادارے بغیر قلب ( کتب خانے ) کے چل رہے ہیں، اس بات سے آپ ماحول و معاشرہ کی کتب بینی کے متعلق رجحانات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔