اردو ادب کی دنیا کے معتبر اور مقبول، عالمی شہرت یافتہ ہندوستانی شاعر سید منور علی راناؔ 26؍نومبر 1952ء کو اتر پردیش کے شہر رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے رشتہ دار مع دادی اور نانی، تقسیم ہندوستان کے وقت پاکستان ہجرت کر گئے۔ لیکن ان کے والد صاحب، ہندوستان سے اٹوٹ محبت کی وجہ سے بھارت ہی کو اپنا مسکن بنا لیا۔ بعد میں ان کا خاندان کولکتہ منتقل ہو گیا۔کولکتہ میں ہی منور راناؔ کی ابتدائی تعلیم ہوئی۔
منور راناؔ نے اصناف شاعری میں غزل گوئی کو اپنا میدان بنایا۔ ان کے کلام میں ”ماں“ پر لکھا کلام کافی مشہور ہوا۔ ان کی غزلیں، ہندی، بنگلہ (بنگالی) اور گرومکھی زبانوں میں بھی ہیں۔
منور راناؔ نے اپنے کلام میں روایتی ہندی اور اودھی زبان کو بخوبی استعمال کیا ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں کافی شہرت اور مقام ملا۔ ان کی غزلوں میں شوخی کم اور حقیقت پسندی زیادہ پائی جاتی ہے۔
تصنیفات
ان کی تصانیف کے نام درجہ ذیل ہیں
- نیم کے پھول (1993ء)
- کہو ظل الہیٰ سے (2000ء)
- بغیرنقشے کا مکان(2001ء)
- سفید جنگلی کبوتر (2005ء)
- امیر خسرو ایوارڈ 2006ء
اعزازات
- کویتا کا کبیر سمان اُپادھی 2006،اندور
- میر تقی ایوارڈ 2005ء،
- شہود عالم آفاقی ایوارڈ، 2005ء،کولکتہ
- غالب ایوارڈ 2005ء،
- ڈاکٹر ذاکر حسین ایوارڈ 2005ء، نئی دہلی
- سرسوتی سماج ایوارڈ 2004ء
- مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی ایوارڈ 2011ء (مغربی بنگال اردو اکیڈمی)
- سلیم جعفری ایوارڈ 1997ء
- دلکش ایوارڈ 1995ء
- رئیس امروہی ایوارڈ 1993ء، رائے بریلی
- بھارتی پریشد ایوارڈ، الہ آباد
- ہمایون کبیر ایوارڈ، کولکتہ
- بزم سخن ایوارڈ،
- پریس کلب ایوارڈ
- حضرت الماس شاہ ایوارڈ
- سرسوتی سماج ایوارڈ
- ادب ایوارڈمیر ایوارڈ
- مولانا ابوالحسن ندوی ایوارڈ
- استاد بسم اللہ خان ایوارڈکبیر ایوارڈ۔
وفات
14؍جنوری2024ء کو رات تقریباً 11:30 بجے دل کا دورہ پڑنے سے لکھنؤ میں انتقال کر گئے۔ وہ کئی دنوں سے بیمار تھے۔ وہ لکھنو کے سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں زیر علاج تھے۔ انھیں 9 جنوری کو طبیعت خراب ہونے پر آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا۔منور راناؔ نے 71 سال کی عمر میں آخری سانس لی۔ منور راناؔ گردے اور دل سے متعلق کئی مسائل کے علاوہ گلے کے کینسر کا شکار تھے۔