عروج زوال کی ایک داستان

ہمارے گاؤں میں آم کا ایک بڑا پرانا درخت تھا، موسم بہار میں ہرا بھرا ہوجاتا، اس پر جوانی کی رعنائی اور بہار آجاتی تھی، کہنے کو تو تھا ایک قدیم درخت. لیکن تھا بڑا مسافر نواز، ہم لوگ اسے (کاکا کا )لنگڑا پیڑ کہا کرتے تھے، اس پیڑ سے ہم سب کی بہت ساری یادیں وابستہ ہیں .یہ درخت تھکے ماندے لوگوں کے لئے جائے سکون تھا۔

عہد طفلی میں ہم سب اس سے اٹھکھیلیاں کرتے تھے. دوران طالب علمی گرمی کی اکثر چھٹیاں اسی درخت کی گھنی چھاؤں میں گزرتی تھیں. جہاں ہر عمر کے لوگ بیٹھتے پھر بات چیت میں وقت کب گزر جاتا پتہ نہیں چلتا۔

پیر وجوا‌ں سب اسکی گھنی چھاؤں میں آکر آرام کرتے اور گاؤں کے معاملات پر گفت وشنید ہوتی. معلوم نہیں اس درخت کی چھاؤں میں کتنی نسلیں جوان اور جوان نسلیں عمر طبعی کو پہنچ گئیں’ لیکن یہ درخت جوں کا توں کھڑا رہا اور کسی پر احسان نہیں جتایا.

الغرض یہ کہ کئ پیڑھیاں اسکی گھنیری چھاؤں میں چہل کود کر جوان ہوئیں اور ان سب کو یہ درخت بڑا عزیز تھا .

بچپن میں اس درخت کی شاخوں سے لپٹ کر ایک کھیل بہت کھیلا جاتا تھا جسے سب لوگ لکھنی کا لکھ گوڑ کہتے تھے.

درخت بڑا مسافر نواز اورلنواز تھا کہ تھکے ماندے مزدور اسکی چھاؤں میں آرام کرتے اور چھوٹے چھوٹے بچے اسکی شاخوں سے گھنٹوں کھیلتے. اس کے نرم نرم پتوں کو پاؤں سے مسلتے لیکن کبھی اف تک نہ کرتا بلکہ اپنے میٹھے میٹھے لذیذ پھلوں سے لذت کام ودہن کو شاد کام بھی کرتا، ہم انسانوں کو اس سے سبق لینا چاہئے.
اس درخت کی تخلیق ہی کچھ اس انداز کی تھی کہ اسکی شاخیں زمین سے باتیں کرتی تھیں اور تمام لوگوں کو اپنی آغوش میں لینے کو بیتاب رہتی تھیں. یہی وجہ تھی کہ گھنٹوں کئی بچے اسکی پشت پر سوار ہوکر شاخوں سے کھلیتے تھے.

ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ یہ درخت شروع سے ٹیڑھا اور زمین سے لگا ہوا تھا بنابریں لوگ اسے لنگڑا پڑوا کہتے تھے۔

یوں تو کہنے کو درخت ٹیڑھا تھا لیکن عملا نہایت شریف, بار آور اور خدمت خلق کا پیکر تھا.

گھر سے دور رہ کر بھی اسکی یاد آتی تھی جب کبھی گاؤں جانے کا اتفاق ہوتا اور ہم نشیں بھی ہوتے تو ایک مرتبہ ضرور اس درخت کے پاس جاکر بچپن کی یادیں تازہ کرتے، اس طرح وہاں پہونچ کر اس سے وابستہ ساری یادیں افق ذہن پر ابھر آتیں اور عہد طفلی اپنی تمام تر رعناییوں کے ساتھ گردش کرنے لگتا۔

ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی گھر جانے کا اتفاق ہوا لیکن اس دفعہ یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ وہ درخت جس سے بچپن کی ان گنت یادیں وابستہ تھیں آندھیوں کی تاب نہ سہہ کر زمیں بوس ہوگیا اور اس طرح یہ شجر سایہ دار ایک عہد کے خاتمے کی خبر دے گیا۔

کہنے کو تو درخت امسال داغ مفارقت دیا لیکن اسکی موت قسطوں میں ہوئی پہلی مرتبہ جب ہم گاؤں کے مکتب میں زیر تعلیم تھے یہی کوئی دس بارہ بہاریں عمر کی دیکھی ہو‌ں گی، برسات کا موسم تھا ہفتہ عشرہ مسلسل بارش ہوتی رہی اس طرح لگاتار بادو باراں سے درخت اور اسکے اطراف کی زمین دہل گئی تھی. اسی وقت درخت کے ایک حصے نے ساتھ چھوڑنے کا کلی ارادہ کرلیا اورخفیہ طور سے بادو باراں سے ساز باز کرکے زمین پر آرہا، تب سے آج تک بقیہ حصہ اپنے بھائی کی اس مفارقت کا غم برداشت کرتا رہا اور یہ کہتا رہا

سامان تو گیا تھا مگر گھر بھی لیا گیا
اب کے برسات دل سے مرے ڈر بھی لے گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ساغر

لیکن تنہا کب تک اس طرح کی ہواؤں اور طوفانوں کا مقابلہ کرتا جب اسکے اپنے اسکی جڑیں کھوکھلی کرنے پر تلے تھے۔ بالاخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا اس اکیلے پیڑ سے لڑنے کے لئے بادو باراں پوری فوج سے آئی اور اس کا قصہ تمام کرگئی.

یہ منظر دیکھ کر سب لوگ آندھی کو کوسنے لگے. اور طوفان کو دوش دینے لگے .لیکن سوال یہ ہے کیا واقعی خطا آندھی کی تھی؟

کیا سچ مچ آندھی کا قصور تھا؟

قصور آندھی کا نہیں ہماری اپنی سوچ اور عملوں کا ہے، ہم نے درختوں کی دیکھ بھال اور اسکی آبیاری چھوڑدی۔

باغوں کے ارد گرد کی زمینوں کی توانائی کو مصنوعی ومضر کھادوں سے چھین لیا جنگلات کاٹ کاٹ اور کان کنی سے ہم نے درختوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا،  بنا بریں درخت کمزور ہوتے گئے اور انکی جڑیں کھوکھلی ہوگئیں اب آندھی کے تھپیڑے کیا پڑے اوندھے منہ زمین پر آرہے.

یہی حال قوموں کا ہوتا ہے جب کسی قوم کے اخلاق بگڑ جاتے ہیں نفسانیت اور خود غرضی عام ہو جاتی ہے لوگ اپنی ذات کو مقدم سمجھنے لگتے ہیں. ملی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینے لگتے ہیں. حصار ذات میں محصور ہو جاتے ہیں، بد کرداری اور بد اعمالی کا دور دورہ ہوتا ہے، حق گوئی ,اخلاقی جرات اور قوت ایمانی باقی نہیں رہتی. بستی میں نفاق وانتشار پھیل جاتا ہے. صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کی ہمت ختم ہوجاتی ہے. چور اچکوں اور بد کرداروں کی سیادت و قیادت ہوتی ہے، نیکی منہ چھپائے اور بدی دندناتے پھرتی ہے، زندگی دشوار ہو جاتی ہے قوم میں ضعف آ جاتا ہے اور اسکی جڑیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں۔

یہ بات دھیان میں رہے کہ زوال ہمیشہ اندر سے آتا ہے باہر سے نہیں آتا۔
جب بداعمالیوں کی وجہ سے اندرونی حالت میں ضعف ‘انتشار ‘نفاق اور اقتصادی زبوں حالی پیدا ہو جاتی ہے تو قوم بیرونی آفتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی، معمولی سا حملہ اسے مغلوب کر دیتا ہے. بالکل اسی طرح جیسے کسی انسان کے قوی میں اضمحلال , اعصاب میں کمزوری آجائے اور جسم ٹھیک سے کام نہ کرتا ہو توہ وہ مرض کی مدافعت نہیں کرسکتا پھر معمولی سی بیماری اسے ختم کرسکتی ہے۔

اشتراک کریں