خوش تو ہیں ہم بھی زمانے کی ترقی سے مگر۔۔۔

اس حقیقت کا انکار قطعی ممکن نہیں کہ دنیا میں تغیر وتبدیلی ناگزیر ہے .یہاں ثبات اگر کسی کو حاصل ہے تو وہ خود عمل تغیر ہی ہے

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

یہاں کی ہر شے فنا کے پنگھٹ پر اپنی تشنہ لبی دور کرتے کرتے اس حالت میں پہونچ جاتی ہے جہاں سے پھر کبھی پیاس بجھانے کی حاجت نہیں ہوتی لیکن اس حالت پر جانے سے قبل اس میں جو تبدیلیاں رو نما ہوتی ہیں وہ قابل توجہ اور لائق غور وفکر ہوتی ہیں
اس ضمن میں جب ہم آج کی معاشرتی زندگی کا موازنہ پہلے کی زندگی سے کرتے ہیں تو ہمیں ایک حیرت آمیز تکلیف ہوتی ہے کہ دنیا کا ماحول اور ہمارے گردو پیش کی زندگیاں کس قدر تبدیلی کی متلاطم موجوں کا شکار ہوکر اپنی حقیقت دریا برد کربیٹھیں

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجاۓ گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں

مانا کہ موجودہ انقلاب نے دنیا کو نئے سرے سے سوچنے سمجھنے کا ملکہ عطا کیا اور بیشتر آسانیاں بہم پہنچاکر محور گزران حیَات کو بدل دیا، پھر بھی زمینی سطح پر کام کرنے والوں کے سامنے بے شمار دشواریاں سد سکندری کے مانند کھڑی اپنے عزم باطل کا اظہار کررہی ہیں، یہی وجہ کہ مہر وفا نامی پرندہ شاخ محبت سے کب کا پرواز کرگیا

پرانے دور میں لوگ ایک دوسرے کا بیحد خیال رکھتے تھے .پاس پڑوس کے بچوں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتے تھے .

اب کثیر قطبی معاشرہ بہت بدل چکا ہے والدین اپنے بچوں کی اصلاح سے قبل متعدد بار سوچ وبچار کرتے ہیں .

اپنائیت کا ماحول اور میل جول کی جو کیفیت تھی وہ ندارد ہے۔

ہمارے بچپن اور آج کی معاشرتی زندگی کا مقابلہ وموازنہ شاید زمین وآسمان کا موازنہ ہے

معیار زندگی مکمل طور پر بدل چکا ہے اعلی اخلاقی قدریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور دیانت داری بالکل مفقود ہے

چھوٹی چھوٹی خوشیاں کھوگئیں . دوڑ بھاگ کی زندگی میں فرصت کے لمحات بہت کم میسر ہیں
بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پہ شفقت جو کبھی مشرقی تہذیب کا طرۂ امتیاز تھا وہ تہذیب کب کی مٹ چکی

یادوں کے دریچے سے جب بچپن جھانکتا ہے تو عجیب سناٹا اور ہو کی صورتحال دیکھتا ہے.

وہ بھی کیا دن تھے جب تصنع اور بناوٹ سے پاک زندگی ,پاس پڑوس میں بھائ چارگی اور یگانگت , مہر وفا اور ہم آہنگی کے لہلہاتے بیل بوٹوں سے اطراف معطر اور منظر نہایت خوشنما تھا

بچپن میں معاشرے میں ایک خوشگوار ماحول تھا . نفسا نفسی اور خود غرضی کا یہ عالم نہیں تھا جو اب ہے .

خلوص کے وہ شجر جو اپنائیت کے برگ وبار سے بوجھل ہوتے تھے ناجانے کب کے سوکھ گئے’ اور ان جگہوں پر ریاکاری و اداکاری کے خود رو جھاڑ جھنکھاڑ نکل آۓ

پہلے لوگوں میں محبت تھی ریاکاری نہ تھی
ہاتھ و دل دونوں ملاتے تھے اداکاری نہ تھی

وہ دن بھی کیا خوب تھے جب گھروں میں معمول کے غیر مطابق پکوان کو اطراف میں تقسیم کرنے کے لئے گھر کا کوئ بچہ مامور کیا جاتا جو باری باری تمام گھروں میں پکوان ہہنچاتا .اب تو نوبت بایں جا رسید کہ ایک ہی سائبان کے نیچے گھر کے چند مکینوں کی نقل وحرکت سے سے دوسرے مکین بے خبر اور ناآشنا رہتے ہیں

خوش تو ہیں ہم بھی زمانے کی ترقی سے مگر

لب خنداں نکل آتی ہے فریاد بھی ساتھ

اشتراک کریں