ترجمان القرآن : ایک تجزیاتی مطالعہ

امام الہند مولانا  ابو الکلام آزاد ایک عہد ساز شخصیت کا  نام ہے جو برسہا   برس کی گردش ایام کے بعد اس صفحۂ ہستی پر نمودار ہوئی ،  مولانا  موصوف بیک وقت مجاہدِ آزادی ، مدبرِ سیاست ،عالمِ دین، مفکر ، ماہرِ قرآنیات و حدیث، سحر البیان خطیب  اور ماہرِ تعلیم کے علاوہ بے مثل ادیب اور عطیم دانشور بھی تھے،    انہو ں نے زندگی کے ہر میدان میں اپنے وسیع افکار و نظریات   اور اپنے  وقیع آثار  و  محفوظات کے سبب  ایک عالم کو متأثر کیا۔

ترجمان القرآن  مولانا کی شاہکار تصنیفات میں سے ایک ہے  جس کا موضوع  ترجمہ و تفسیر ہے،  یہ  ایک ایسی تفسیرہے  جو ایک طرف حدیث  و  سنتِ  نبوی کا  رنگ اپنے  اندر  رکھتی ہے  تو دوسری طرف  امام ابنِ تیمیہ  اور  علامہ ابن قیم کی ہم مشرب  اور ان کی ترجمان بھی ہے، یہ ایک ایسی تفسیر ہے  جو تصوف  و معرفت کی چاشنی  سے لبریز تو ہے ہی  ساتھ ہی ساتھ اپنے اندر  اردو  ادب کا معجزانہ اسلوب   بھی رکھتی ہے  نیز عقلی مسائل میں جدید سائنٹیفک استدلال سے بحث بھی کرتی ہے۔

مولانا  سید سلیمان ندوی  ترجمان القرآن پر تبصرہ کرتے ہوئے  لکھتے ہیں :

          ’’میں نے قرآن کی جس قدر تفاسیر پڑھی ہیں ان میں ابن ِ تیمیہ  اور حافظ  ابن ِ قیم  کی تفاسیر سے بہتر کوئی تفسیر نہیں۔۔۔ ترجمان القرآن  کا  مصنف  قابل ِ مبارکباد ہے کہ اس نے یورپی سامراج کے زمانے میں بڑی ہمت  اور   دلیری سے ابنِ تیمیہ  اور ابنِ قیم کی اس صورت میں پیروی کی  جس طرح انہوں نے منگول  فاتحوں کی مزاحمت کے سلسلے مین کی تھی۔‘‘  (مولانا آزاد  کی سوانح  حیات ص  ۱۰۷ )

مولانا ابوالکلام آزاد نے جب قرآن مجید کو اپنے غور و فکر کا موضوع بنایا تو  انہوں نے اپنے سامنے یہ سوال رکھا کہ مختلف زبانوں میں قرآن کے ترجمے اور تفسیروں کے  ہوتے ہوئے کسی نيے ترجمے یا تفسیر کی کیا ضرورت ہے؟ ، اس سوال کی توجیح میں پھر خود لکھتے ہیں  کہ قرآن کی عام تعلیم اور اشاعت کے بغیر مسلمانوں کی مذہبی اصلاح ممکن نہیں  اسلئے ضروری ہے کہ قرآن فہمی کی راہ میں حائل مشکلات کو دور کیا جائے کیونکہ جب تک یہ مشکلات دور نہیں ہوتیں محض قرآن کا ترجمہ کر دینا یا اس کی کوئی تفسیر لکھ دینا سود مند ثانت نہیں ہوسکتا، مولانا  آزاد کے نزدیک قرآن فہمی یہ نہیں  کہ ہم  سائنسی تحقیقات کی تصدیق قرآنی آیات سے کرنے میں لگ جائیں کیوں کہ اس صورت میں  قرآن صرف ایک معمہ کی کتاب بن کر رہ جائے گا اور ہم  یہ کہنے پر مجبور  ہو جائیں گے  کہ مستقبل کے ممکنہ انکشافات کو قرآن نے ایک ایسی معماتی زبان میں بیان کر دیا تھا جسے اولین مخاطب سمجھنے سے قاصر تھے جبکہ ایسا نہیں ہے  ، آزاد کے نز دیک  نزولِ قرآن کا مقصد یہ ہے کہ وہ انسانوں کو اس کی متاعِ گمشدہ کی تلاش پر  ابھارے ، اور مولانا کے خیال میں انسان کی متاعِ گمشدہ خدا اور انسان کے باہمی تعلق کی صحیح باز یافت   اور اس تعلق کو ہمہ وقت مستحضر رکھنے اور اسے مضبوط سے مضبوط تر کرنے کا دوسرا نام ہے۔  ( آجکل   مولانا آزاد نمبر  نومبر ۱۹۸۸ )

آزادنے اپنے جملہ امور کی بحسن و  خوبی انجام دہی کے لئے ہفتے کے سات دنوں کی تقسیم اس طرح کر رکھی تھی کہ تین دن ’’البلاغ‘‘ کی تدوین و ادارت کے لیے وقف تھے، دو دن ترجمے کے لیے اور دو دن تفسیر کے لیے۔ اپنی گرفتاری کے باعث مولانا جس طرح اپنے مسودات سے محروم ہوئے، اس کی تفصیل انھوں نے ’’ترجمان القرآن‘‘ کے دیباچے میں بیان کر دی ہے۔ اسی وجہ سے ان کے بہت سے شاہکار مکمل صورت میں ہمارے سامنے نہ آسکے۔

خدمت قرآن کے حوالے سے جو چیز مولانا کا تعارف بنی، وہ ’’ترجمان القرآن‘‘ ہے۔ مولانا نے اپنے الفاظ میں ’’ترجمان القرآن‘‘کا تعارف کراتے ہوئے ’’البیان‘‘ اور ’’البصائر‘‘ سے اس کا فرق واضح کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ترجمان القرآن کی ترتیب سے مقصود یہ تھا کہ قرآن کے عام مطالعہ و تعلیم کے لیے ایک درمیانی ضخامت کی کتاب سامنے ا جائے، مجرد ترجمے سے وضاحت میں زیادہ، مطول تفاسیر سے مقدار میں کم۔ چنانچہ اس غرض سے یہ اسلوب اختیار کیا گیا کہ پہلے ترجمہ میں زیادہ سے زیادہ وضاحت کی کوشش کی جائے پھر جابجا نوٹ بڑھا دیے جائیں۔ اس سے زیادہ بحث و تفصیل کو دخل نہ دیا جائے۔ باقی رہا اصول اور تفسیری مباحث کا معاملہ تو اس کے لیے دو الگ الگ کتابیں ’’مقدمہ‘‘ اور ’’البیان‘‘ زیر ترتیب ہیں۔‘‘ (ابوالکلام آزاد، ترجمان القرآن، جلد۳)

تاہم جیسے جیسے یہ کام آگے بڑھا اور مولانا کی سیاسی سرگرمیاں ان کے علمی کاموں میں حائل ہوتی گئیں، چنانچہ اس کام کا نقشہ بھی تبدیل ہوتا گیا۔ ’’البیان‘‘ جب سامنے نہ آ سکی تو ’’ترجمان القرآن‘‘ ہی میں بعض مقامات پر اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ پہلی جلد میں جن مقامات پر محض مختصر حواشی لکھے گئے تھے، دوسری جلد میں انھی مقامات کی تفصیل بیان کر دی گئی۔ اس ترمیم کے باوجود مولانا کے نزدیک ’’ترجمان القرآن‘‘ کا اصل امتیاز اس کا ترجمہ ہے، مولانا لکھتے ہیں:

’’ترجمان القرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اس کی تمام خصوصیات کا اصل محل اس کا ترجمہ اور ترجمہ کا اسلوب ہے۔ اگر اس پر نظر رہے گی تو پوری کتاب پر نظر رہے گی۔ وہ اوجھل ہو گئی تو پوری کتاب نظر سے اوجھل ہو جائے گی۔‘‘     (ابوالکلام آزاد، ترجمان القرآن، جلد۳)

ترجمے کے بعد ’’ترجمان القرآن‘‘ کی دوسری خوبی، مولانا کے نزدیک اس کے نوٹ ہیں۔ ’’ان کی ہر سطرتفسیر کا ایک پورا صفحہ، بلکہ بعض حالتوں میں ایک پورے مقالے کے قائم مقام ہے۔‘‘ ’’ترجمان القرآن‘‘ کی وجہ تالیف خود مؤلف کے الفاظ میں یہ ہے:

’’ترجمان القرآن تفسیری مباحث کے ردوکد میں نہیں پڑتا صرف یہ کرتا ہے کہ اپنے پیش نظر اصول و قواعد کے ماتحت قرآن کے تمام مطالب ایک مرتب و منظم شکل میں پیش کر دے۔‘       (ابوالکلام آزاد، ترجمان القرآن، جلد۳)

’’ترجمان القرآن‘‘ کا ایک اور امتیاز یہ ہے کہ ہر سورت کے ساتھ مطالب کی ایک فہرست دی گئی ہے جس سے اس کے مضامین کا اجمالی تعارف ہو جاتا ہے۔

مولانا آزاد چونکہ ایک صاحب طرز ادیب تھے، اس بنا پر’’ ترجمان القرآن‘‘ ان کے انشا پردازی کا بھرپور مظہر ہے، تاہم جہاں تک اصول تفسیر کا تعلق ہے تو وہ ائمۂ تفسیر ہی کا تتبع کرتے نظر آتے ہیں اور بہت کم کوئی ایسی راے قائم کرتے ہیں جو اسلاف کی راے کے برخلاف ہو۔ مولانا کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قرآن کو اپنے عہد میں ایک زندہ کتاب کے طور پر پیش کیا ہے جو مسلمانوں کے لیے واحد راہنما ہو سکتی ہے۔ سید سلیمان ندوی نے ’’ترجمان القرآن‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’مصنف ترجمان القرآن کی یہ دیدہ وری داد کے قابل ہے کہ انھوں نے وقت کی روح کو پہچانا اور اس فتنۂ فرنگ کے عہد میں اسی طرز و روش کی پیروی کی جس کو ابن تیمیہ اور ابن قیم نے پسند کیا تھا اور جس طرح انھوں نے اس عہد کے مسلمانوں کی تباہی کا راز فلسفۂ یونان کی دماغی پیروی کو قرار دیا، اسی طرح اس عہد کے مسلمانوں کی بربادی کا سبب ترجمان القرآن کے مصنف نے فلسفۂ یونان و فرنگ کی ذہنی غلامی کو قرار دیا اور نسخۂ علاج وہی تجویز کیا کہ کلام الٰہی کو رسول کی زبان و اصطلاح اور فطرت کی عقل و فلسفہ سے سمجھنا چاہیے۔‘‘      (ابوسلمان شاہجہانپوری،ابوالکلام آزاد(بحیثیت مفسر و محدث)۲۱۔۲۲) 

افسوس کہ مولانا یہ ترجمہ مکمل نہ کر سکے، تاہم اس وقت ’’ترجمان القرآن‘‘ کے عنوان سے جو کچھ موجود ہے اور جس میں سورۂ فاتحہ کی وہ تفسیر بھی شامل ہے جو اصلاً ’’البیان‘‘ کا حصہ ہے، ایک شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

اسلامیات کے علاوہ مولانا نے ادبی موضوعات پر بھی بہت کچھ لکھا، ادبی موضوعات پر لکھی گئی کتابوں میں ان کے خطوط کے مجموعے ان کی بے پناہ شہرت اور مقبولیت کی بنیاد بنے ان کی خطوط کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں لیکن جس مجموعی نے سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کی ہے وہ ہے غبار خاطر.

اشتراک کریں